معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
پُرامن احتجاج کا نتیجہ
جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی‘ دونوں کو مبارکباد پیش کی جانی چاہیے کہ انہوں نے سندھ کے بلدیاتی قانون میں ترمیم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ چار ہفتے جاری رہنے والا دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما کہتے ہیں کہ حافظ نعیم الرحمن کو ”ماموں‘‘ بنا دیا گیا ہے، یعنی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ پیپلز پارٹی انہیں دھوکہ دے گی اور وہی کرے گی جو کرتی رہی ہے یا کر رہی ہے یا کرنا چاہتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کہ جماعت اسلامی کے تنِ خستہ میں نئی روح دوڑانے کے مرتکب ہو چکے ہیں، اس کے ہزاروں کارکنوں کو متحرک کر کے دھاک بٹھا چکے ہیں، مطمئن ہیں کہ ان کے ساتھ وہ نہیں ہو گا، جس کا ان کے حریف خواب دیکھ اور دکھا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے طے ہونے والا معاہدہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا اور کراچی کے میئر کے اختیارات بحال ہو جائیں گے۔ تین کروڑ آبادی کے اس شہر کو اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا موقع مل جائے گا، ایک بار پھر اس کی رونقیں لوٹ آئیں گی۔ یہ لندن یا پیرس نہ بن پایا تو بھی وہ کراچی تو بن ہی جائے گا جو ایم کیو ایم کی سیاست اور پیپلز پارٹی کی حکومت کا نشانہ بننے سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ کراچی اگر لندن اور پیرس نہیں تو کیا، ان سے کم بھی نہیں تھا۔ اسے منی پاکستان کہا جاتا تھا، یہ خوش حال اور غریب پرور شہر پاکستان کا معاشی دارالحکومت تھا، ملک بھر سے روزگار کی تلاش میں لوگ یہاں آتے اور اسی کے ہو کر رہ جاتے۔ یہاں امن تھا، سکون تھا، بھائی چارہ تھا، محبت تھی، اخوت تھی۔ نصف صدی پہلے میری صحافت کا آغاز اسی شہر سے ہوا تھا۔ یہاں کے غریب خود کو امیر سمجھتے تھے اور امیروں کے دل بھی غریبوں کے لیے دھڑکتے تھے۔ پاکستان بھر میں سب سے سستا کھانا یہاں ملتا تھا اور سب سے مہنگا بھی یہیں دستیاب تھا۔ دور دور سے آنے والے طالب علم جز وقتی ملازمتیں حاصل کر سکتے تھے، اپنا حال سنبھال اور مستقبل سنوار سکتے تھے۔ اس شہر کی یہی خوبی مجھے بھی یہاں لے گئی تھی۔
کراچی کے ساتھ بھی وہی ہوا، جو پاکستان کے ساتھ ہوا۔ خود غرض اور بے رحم سیاست نے اسے تاراج کر ڈالا، لیکن جس طرح پاکستان سے جینے اور آگے بڑھنے کی امنگ نہیں چھینی جا سکی، اسی طرح کراچی کو بھی ابدی نیند نہیں سلایا جا سکا۔ گر گر کر اٹھنے بلکہ دوڑ اٹھنے کی صلاحیت اسے چین نہیں لینے دیتی۔ اب یہ اپنے آپ کو سنبھالنے میں لگا ہوا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جماعت اسلامی پھر طاقت پکڑ رہی ہے۔ اس نے سندھ کے بلدیاتی قانون کے خلاف دھرنا دیا، ہزاروں کارکن سخت بارش اور شدید سردی میں اپنی جگہ جم کر بیٹھے رہے۔ سندھ حکومت کو مذاکرات کا آغاز کرنا پڑا۔ مطالبات کے بڑے حصے نے خود کو منوا لیا۔ پیپلز پارٹی کو جو بھی کہا جائے ہے تو وہ ایک سیاسی پارٹی، جس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں جو سب پاکستانیوں کی جماعت ہے، سب کے لیے سوچنے کا دعویٰ رکھتی ہے اور جس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ سے زیادہ ووٹ پنجاب سے حاصل کئے تھے اور جس کے نعرے پورے ملک میں گونجتے تھے (اور گونجتے ہیں) جماعت اسلامی قومی تو کیا ملّی چہرہ رکھتی ہے، اس کی سیاست لسانی یا نسلی تعصب سے آلودہ نہیں ہے۔ اس نے یکے بعد دیگرے دو دھرنوں کے ذریعے شہرت کو دوبالا کیا ہے۔ گوادر میں ہزاروں جوان، بوڑھے، عورتیں اور بچے اپنے مطالبات کے حق میں کئی دن جم کر بیٹھے رہے، وفاقی اور بلوچستانی حکومت کو متوجہ ہونا پڑا، بات سنی گئی اور دھرنا دینے والے بخیر و خوبی گھروں کو لوٹ گئے۔ اس دوران کسی نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا، چھینا جھپٹی ہوئی نہ مار دھاڑ، کراچی میں بھی یہ منظر دہرایا گیا۔ دھرنا دینے والے پرامن رہے، اپنی مقررہ جگہ پر جمے رہے، سندھ اسمبلی کی بلڈنگ کی طرف بڑھے نہ وزیر اعلیٰ ہائوس پر جھپٹے، پولیس حرکت میں آئی نہ رینجرز کو بلانا پڑا، قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کیا جاتا رہا، سندھ حکومت کو کان کھولنا پڑے اور معاملہ طے ہو گیا۔
ایم کیو ایم نے بھی احتجاج کا اعلان کیا۔ پریس کلب جاتے جاتے مظاہرین نے اچانک رخ بدلا، ریڈ زون میں داخل ہوئے اور وزیر اعلیٰ ہائوس کے درپے ہوگئے۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس تک نوبت پہنچی، کہرام برپا ہو گیا۔ تحریک انصاف کے پرشور بھی حرکت میں آئے، ایڑیاں اور چوٹیاں ایم کیو ایم کے ساتھ ملا کر زور لگانے لگے، ایک کارکن جاں بحق ہو گیا۔ نا معلوم افراد حرکت میں آتے محسوس ہوئے، دکانیں بند کرائی جانے لگیں، کاروبار زندگی معطل ہونے لگا کہ رینجرز نے حرکت میں آ کر شہریوں کا سانس بحال کیا۔ ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور ان کے ہم نوا جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے معاہدے پر پریشان ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ جاں بحق ہونے والے کارکن کے گھر تعزیت کے لیے پہنچے، پولیس تشدد کا نشانہ بننے والوں کی بھی خبرگیری کی، ایم کیو ایم کے رہنمائوں سے بھی رابطہ کیا، سلگتے جذبات کو ٹھنڈا کیا۔ اب کیا ہو گا، کون سی جماعت کیا اقدام کرے گی اس سے قطع نظر جماعت اسلامی کے پُرامن احتجاج اور سندھ حکومت کی پیش قدمی نے حالات کا رخ موڑ دیا ہے۔ جو کچھ حاصل ہوا، اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرنے اور مزید مطالبات پیش کرنے کا حق تو کسی سے چھینا نہیں جا سکتا، لیکن یہ تو عرض کیا جا سکتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں اور اس کا سامنا کرنے والوں کو بھی کسی قاعدے اور ضابطے کا پابند ہونا چاہیے۔ ہنگامہ اٹھانے اور آگ بھڑکانے کا نام احتجاج نہیں ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اہلِ سیاست اپنے آپ کو نظم و ضبط کا پابند بنائیں۔ ملک نے آگے بڑھنا ہے تو بے لگام سیاست کو لگام دینا ہو گی۔ لاٹھی، گولی کی سرکار نہیں چلے گی تو اینٹ پتھر کا احتجاج بھی نہیں چلے گا۔
عدل بیتی: ایک جج کی کہانی
عابد حسین قریشی حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کی اولاد میں سے ہیں۔ ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، یونیورسٹی لا کالچ لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور کم و پیش چالیس سال پہلے سیالکوٹ ہی سے وکالت کا آغاز کیا۔ مقابلے کے امتحان میں بیٹھے، سول جج مقرر ہوئے، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدے تک پہنچے، پنجاب کی تمام نو ڈویژنوں میں کام کرنے کا منفرد اعزاز حاصل کیا۔ سنیارٹی کے اعتبار سے انہیں لاہور ہائی کورٹ میں متمکن ہونا چاہیے تھا، لیکن انصاف کے ایوانوں میں ہونے والی ناانصافی نے ایسا نہ ہونے دیا۔ انہوں نے آپ بیتی لکھ کر اپنے تجربات اور مشاہدات میں اہل وطن کو شریک کر لیا ہے۔ اصلاحات کا دعویٰ کرنے والوں کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ زیریں عدلیہ جس ماحول میں کام کر رہی ہے، اس کے ساتھ جو ناانصافیاں روا رکھی جا رہی ہیں، آگے بڑھنے کے مواقع کو جس طرح اعلیٰ حکام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، اس کی تفصیل عابد قریشی صاحب نے بیان کر دی ہے۔ جلد انصاف فراہم کرنے کے آرزو مند منصب داروں کو زمینی حقائق سے آگاہ ہونے کے لیے عابد قریشی صاحب سے بذریعہ کتاب یا بالمشافہ ملاقات کرنی چاہیے۔ سنیارٹی کے اصول کو مد نظر نہ رکھنے کی وجہ سے ڈسٹرکٹ جج صاحبان کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اور وہ جو کچھ ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں وہ ہمارے نظام انصاف کا ایک ایسا گوشہ ہے جس پر شاید ہی کسی کی نگاہ ٹھہری ہو۔