ایک ترمیم کا سوال ہے بابا!

جمہوری ملک میں جمہوریت ہو یا نہ ہو مگر اس خوش کن نظام کے باعث اختلاف کا حق بہرحال سب کو حاصل ہوتا ہے اورآپ لوگ بھی اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے میرے خیال سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جمہوریت جہاں آپ لوگوں کو اختلاف کا حق دیتی ہے وہیں مجھے بھی خیال کی آزادی بخشتی ہے سو اسی حق کے تحت میں اپنے خیال کااظہار کر رہا ہوں۔
میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ ہم لوگ کسی بڑے حادثے سے پہلے پہلے ملک کے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ملک میں رائج حقیقی طبقاتی تقسیم کو تسلیم کرتے ہوئے اسے قانونی اورآئینی تحفظ دے دیں۔ تاکہ ہر طبقے کو اپنی طاقت‘ مجبوری‘ اوقات‘ دائرہ کار اورآئندہ زندگی گزارنے کے طریقہ کار کا حقیقی علم ہو جائے تاکہ وہ خواب و خیال اور تصوراتی زندگی سے باہر نکل کر اس ملک میں عملی طور پر زندگی گزارنے کا ہنر سیکھ سکے۔ میرے خیال میں ہمارے عوامی نمائندوں کو جو ابھی تک اپنی ذمہ داری صرف یہی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ترقیاتی فنڈز بٹورنے ہیں‘ نالیوں سے پیسے بنانے ہیں‘ سڑکوں اور گلیوں کے ٹھیکوں میں سے اپنا حصہ وصول کرنا ہے‘ گٹر بنواتے ہوئے اس میں ہاتھ مار کر اپنا کمیشن نکالنا ہے اور زیادہ سے زیادہ یہ کرنا ہے کہ اس اسمبلی میں بیٹھ کر اپنی مراعات اور سہولتوں میں از خود اضافہ کرنا ہے تو وہ یہ سب کچھ بے شک کرتے رہیں لیکن بہرحال وہ ایک قانون ساز ادارے کے رکن ہیں اور ا س حیثیت سے وہ اور کچھ نہ بھی کریں تو کم از کم ایک قانون ضرور پاس کروا لیں اور ملک میں رائج طبقاتی تقسیم کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہوئے باقاعدہ دو اقسام کے قوانین‘ دو قسم کا نظام عدل اور دو طبقاتی سہولتوں اور مراعات کی غرض سے آئین میں ترمیم فرما دیں۔ تاکہ ہم جیسے بے حیثیت اور بے وقعت لوگوں کوآئین میں دی گئی برابر کے شہری ہونے کی ضمانت کی خوش کن غلط فہمی اور اس کے نتیجے میں روز روز کی پیدا ہونے والی فرسٹریشن سے نجات مل جائے اور ہم لوگ اپنی اس اوقات میں آ جائیں جو ہمیں حقیقی طور پر حاصل ہے۔
ٹیکس چوروں‘ رشوت خوروں‘ ڈنڈے برداروں‘ منصفوں‘ زورآوروں‘ سیاستدانوں‘ حکمرانوں اور مقدس گائیوں کو اے کیٹیگری اور ملک کی باقی بچ جانے والی بے حیثیت عوام کو بی کیٹیگری کا شہری قرار دے کر ان کے معاملات کو دو طبقاتی نظام کے تحت چلایا جائے۔ جیسا کہ تقسیم سے قبل انگریز حکمران طبقے اور برصغیر کے محکوم مقامی لوگوں کے لیے دو قسم کے قوانین تھے اگر دوبارہ اسی طبقاتی تقسیم کو قانونی تحفظ دے دیا جائے تو پھر کم از کم ہم جیسے لوگوں کے دماغ سے برابر کا شہری ہونے کا فتور اور خناس نکل جائے گا اور ہم لوگ اپنے آپ کو برصغیر میں اسلام کی آمد سے قبل والے ہندو سماج کا حصہ سمجھ لیں گے جس میں ہمارے اے کیٹیگری کو برہمن کا اور ہم جیسے بے حیثیت اور بے اوقات لوگوں کو شودر کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔
یہ ساری باتیں دراصل مجھے اس لئے یادآ رہی ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصے میں پے در پے ایسا ہوئے جا رہا ہے کہ اب میری برابر کا شہری ہونے کی خوش فہمی مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ مثلاً اگر میں سزا یافتہ ہوں اور میرے ڈاکٹر عدالت میں یہ ثابت کر دیں کہ میری زندگی کو خطرہ لاحق ہے تو کیاعدالت مجھے جیل سے نکال کر بیرونِ ملک بھیجتے ہوئے مدعی مقدمہ سے میری زندگی کی ضمانت طلب کرے گی؟ اور زندگی کی ضمانت نہ ملنے پر مجھے پچاس روپے کے اشٹام پیپر پر ضمانت دے کر بیرون ملک بھجوا دے گی؟ کیا میرے چھ ہفتوں کے اندر اندر ملک واپس آنے کی گارنٹی دینے والے شخص کو چھ ہفتے چھوڑ تین سال تک میری واپسی نہ ہونے کے باوجود میرے کسی عام تام قسم کے ضمانتی کو ایک بار بھی عدالت میں بلا کر یہ نہیں پوچھے گی کہ ضمانتی صاحب!آپ کے چھ ہفتے میں واپس آنے کے پابند بھائی جان کدھر ہیں؟
کیا اس ملک میں ہر قیدی کو یہ سہولت حاصل ہے کہ اس کی بیماری کی صورت میں ضمانت ہو جانے کے بعد اس کے کسی اور سزا یافتہ عزیز کو اپنے بیمار ضمانت شدہ عزیز کی تیمارداری کیلئے رہا کر دیا جائے اور بیمار بیرونِ ملک جا کر واپس آنے سے انکاری ہو جائے اور تیمار دار اپنے بیمار کی غیر موجودگی میں ضمانت برائے تیمار داری پر مزے کرتا رہے۔ کیا یہ سہولت اس عاجز کو حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ عملی طور پر مفرور ہو اور اسے سفارتی پاسپورٹ جاری کر دیا جائے اور جان کو خطرہ ٹائپ لاحق بیماری کے طفیل ملنے والی ضمانت پر بیرونِ ملک جائے اور سفارتی پاسپورٹ پر یورپ میں موج میلہ کرتا پھرے اور ضمانت دینے والی عدالت کوئی ایکشن نہ لے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عدالت سرکار کو میرے جیسے عام بندے کو گرفتاری سے دس دن قبل اطلاع دینے کا پابند کرے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ جس روز مجھ پر فردِ جرم لگنی ہو اس روز مجھے ملک کا وزیراعظم اور صوبے کا وزیراعلیٰ لگا دیا جائے؟ آپ یقین کریں میں کچھ کر تو نہیں سکتا مگر کڑھتا ضرور ہوں۔ مجھے فرسٹریشن بھی ہوتی ہے۔ میں اس سارے نظام سے تنگ آچکا ہوں مگر اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ مجھے میری اوقات اور حیثیت بتا دی جائے‘ مجھے خواہ مخواہ کی خوش فہمی سے نکال دیا جائے اور مجھ پر میری اوقات واضح کر دی جائے۔
مجھے بتا دیا جائے کہ اس ملک کے وسائل وغیرہ نامی چیز سے میرا اور میرے جیسے دیگر کروڑوں لوگوں کا کوئی تعلق نہیں۔ پہلے بتائے گئے اعلیٰ طبقے یعنی اے کیٹیگری کے لوگوں کو تمام تر حکومتی وسائل اور ان سے وابستہ کلہم مفادات از قسم پلاٹ‘ مفت سفر‘ بیرونِ ملک مفت علاج‘ وظیفے‘ ٹیکس میں سہولت‘ قرضوں کی معافی‘ اپنی تنخواہ اور مراعات میں ازخود اضافے کا اختیار اور سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ کے علاوہ دیگر سہولتوں وغیرہ کے واحد حقدار قرار دینے کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر نام نہاد آئینی برابری کے جھوٹ اور فریب کو ایک ہی بار دفن کر دیا جائے۔ اس سے ہمارے حالات میں تو فرق نہیں پڑے گا لیکن ہمیں ہماری اوقات کا پتا چل جائے گا اور ہم لوگ اپنی بقیہ زندگی برابری کے اس جعلی آئینی خمار سے باہر نکل کر کسی قسم کے احساس محرومی کے بغیر جی سکیں گے اور شاہ رخ جتوئی کی رہائی پر‘ ناظم جوکھیو کے قتل کے ملزمان کی باعزت بریت پر اور کوئٹہ شہر میں ٹریفک انسپکٹر کو گاڑی تلے روندنے والے عبدالمجید اچکزئی کی تین دن بعد ہونے والی ضمانت اور پھر باعزت رہائی وغیرہ جیسی باتیں سن کر اور خبریں پڑھ کر کڑھنا بند کر دیں گے۔
کیا مزے دار قوم ہے اور اس کے کیا شاندار لیڈر ہیں۔ غریب کو ٹیکس سے لے کر بل تک کسی چیز میں رعایت نہیں اور ادھر اپنی تنخواہوں میں از خود اضافہ کرنے اور اپنے الاؤنسز کو زمین سے آسمان پر لے جانے والے ان اراکینِ اسمبلی کو موٹروے کے ٹال ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے جو الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں جاتے ہیں اور انہیں سفر کے لیے الاؤنس بھی سرکار سے ملتا ہے۔ پنجاب کے وزرااور سابقہ وزرائے اعلیٰ کی مراعات میں اضافے کے لیے آ پس میں ہمہ وقت دست و گریبان رہنے والے سارے اراکینِ اسمبلی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور سیلاب سے تباہ حال صوبہ پنجاب کا محکمہ سوشل ویلفیئر‘ جس کے با رے میں اس عاجز کو غلط فہمی تھی کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بنایا گیا ہے محکمہ خزانہ کو سمری بھجواتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی سواری کی حالت بہت خراب و خستہ ہے اور تقریباً تقریباً پیدل چلنے والا معاملہ درپیش آنے والا ہے لہٰذا وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے نئے جہاز کا بندوبست کرنا از حد ضروری ہو چکا ہے اس لیے چھ ارب روپے عطا فرمائے جائیں۔ میری تو صرف اتنی درخواست ہے کہ ہمیں بنیادی ضرورتیں فراہم کر کے جو بچتا ہے سارا لے لیں لیکن آئین میں ایک اور ترمیم کر دیں۔ بس ایک ترمیم کا سوال ہے بابا!