اب بھی وقت ہے

جب کسی معاشرے میں لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر از خود جزا و سزا کے فیصلے کرنے لگ جائیں اور ملزموں کو عدالتوں سے بالا بالا سزائیں دینے پر آ جائیں تو اس کی صرف دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ لوگوں کا ملک کے قانون اور نظامِ انصاف پر اعتماد ختم ہو گیا ہے اور دوسری یہ کہ حکومت اپنی رِٹ اور اپنے حکومت کرنے کے اخلاقی و قانونی حق کو کھو چکی ہے اور ہمارے ہاں اب صورتحال یہ ہے کہ درج بالا دونوں باتیں درست ثابت ہو رہی ہیں۔ لوگوں کا اس ملک کے قانون اور نظامِ انصاف پر اعتبار بالکل ختم ہو چکا ہے اور حکومت اپنی رِٹ سے مکمل طور پر محروم ہو چکی ہے۔ حکمران صرف اور صرف اپنے اقتدار کے دوام میں مصروف ہیں اور اس کا مقصد بھی صرف ذاتی فوائد کا حصول‘ اپنے خلاف مقدمات سے نجات اور اپنے جمع شدہ مال کا تحفظ ہے وگرنہ عوام کی خدمت‘ تحفظ اور ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت وغیرہ جیسے فضول کام نہ ان کی پالیسی کا حصہ ہیں اور نہ ہی ترجیحات میں شامل ہیں۔
گزشتہ پانچ چھ روز کے اندر ملتان میں دو واقعات ایسے ہوئے ہیں جس نے اس معاشرے کے مستقبل کی جھلک کروا دی ہے۔ لوگ اب ملکی قانون‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ عدل و انصاف کے ایوانوں اور حکومت پر اعتبار کرنے کے بجائے اپنا قانون‘ اپنی عدالت اور اپنی سزا دینے پر اتر آئے ہیں۔ دس روز قبل ملتان کے سب سے بارونق علاقے گلگشت کالونی میں‘ جو کبھی ملتان کے سفید پوش طبقے کی سب سے معقول اور باعزت رہائشی کالونی تصور کی جاتی تھی اور 1960ء کے عشرے میں حکومت پنجاب نے اپنے ایک ادارے پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی (PHATA) کے تحت بنائی تھی۔ گلگشت کالونی میں تب ملتان کے ممتاز ماہرین تعلیم‘ ڈاکٹر‘ سرکاری ملازم‘ کاروباری حضرات اور معززین رہائش اختیار کرنا باعثِ فخر سمجھتے تھے۔ پھر محکمے کی نااہلی‘ قانون کی کسمپرسی اور بے چارگی کے باعث یہ خوبصورت رہائشی کالونی بلااجازت کمرشل ہونا شروع ہو گئی۔ اس کالونی میں دو عدد منظور شدہ مارکیٹیں‘ گردیزی مارکیٹ اور مبین مارکیٹ‘ تھیں۔ اس کے علاوہ گول باغ میں چند دکانیں اور گول باغ میں ایک عدد کینٹین ہوتی تھی۔ یہ دراصل ڈی کی شکل کا گراؤنڈ تھا جو خدا جانے کیوں گول باغ مشہور ہو گیا تھا۔
پہلے پہل گردیزی مارکیٹ پھیلنا شروع ہوئی اور اردگرد کے رہائشی مکانوں کو کھا گئی۔ گول باغ سے جلال مسجد جانے والی سڑک پر ہمارے سکول کے استاد مشتاق احمد خادم صاحب کا گھر بھی تھا۔ وہ ایک عرصہ تک اس پھیلاؤ اور کمرشل ازم کے خلاف ڈٹے رہے لیکن زمین کے دام بڑھتے گئے اور مارکیٹ کے پھیلاؤ کے باعث وہاں رہنا محال تر ہوتا گیا۔ جب زمین کی قیمت ایک کروڑ روپے فی مرلہ سے بھی تجاوز کر گئی تو گھر نہ بیچنے والوں کی قوتِ مزاحمت بھی جواب دے گئی اور یہ کالونی کپڑوں اور کھانے پینے کے برانڈز سے بھر گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یہاں سے دن کو گزرنا محال تر ہو گیا ہے۔
اس کالونی میں‘ جو اب بس نام کی کالونی مگر حقیقت میں ایک پُررونق مارکیٹ ہے‘ مورخہ ستائیس مارچ کو چار ڈاکو موٹر سائیکلوں پر ایک جیولری شاپ پر پہنچے اور اسلحہ کے زور پر سونے کے زیورات لوٹنے کی کوشش کی اور اسی دوران دکان کے مالک کی جانب سے مزاحمت پر اسے تین گولیاں مار دیں جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ فائرنگ کی آواز پر لوگ اکٹھے ہو گئے۔ فرار کی کوشش کے دوران ڈاکوؤں نے لوگوں پر گولیاں چلائیں جس سے دو لوگ زخمی ہو گئے؛ تاہم اکٹھے ہونے والے لوگوں نے ڈاکوؤں کو پکڑ لیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس کافی تاخیر سے پہنچی اور مشتعل ہجوم سے بمشکل ڈاکوؤں کو اپنی تحویل میں لے کر ہسپتال منتقل کیا لیکن اسی دوران تین ڈاکو تشدد کے باعث ہلاک ہو گئے۔
تینوں ہلاک شدگان عادی مجرم اور پیشہ ور ڈاکو تھے۔ ہلاک ہونے والے لیاقت علی پر اکیس ایف آئی آرز درج تھیں اور وہ کئی بار گرفتار ہو کر ضمانت پر رہائی پا چکا تھا۔ دوسرا ہلاک ہونے والا ڈاکو احسان‘ قتل کے مقدمے کے علاوہ بھی متعدد مقدمات میں گرفتار رہ چکا تھا۔ تیسرے ڈاکو بلال پر تین ایف آئی آر درج تھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متعدد فوجداری جرائم‘ جن میں قتل اور ڈکیتی شامل ہے‘ میں ملوث جرائم پیشہ افراد آخر کس طرح اکیس مقدمات کے باوجود عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہو کر دوبارہ جرائم کرنے کے لیے آزادی حاصل کر لیتے ہیں؟ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں‘ پہلی یہ کہ پولیس اپنی نالائقی یا بدنیتی سے کیس ٹھیک طرح بنا ہی نہیں پاتی اور ملزم عدالتوں سے ضمانت حاصل کر کے پہلے سے بھی زیادہ تجربے کے ساتھ اور دہشت کی علامت بن کر جرائم کی دنیا میں واپس آ جاتے ہیں۔ اس میں پولیس کی پیشہ ورانہ نالائقی بھی شامل ہوگی لیکن جرائم پیشہ افراد اور ملزمان سے باہمی تعاون اصل مسئلہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارا سارا قانونِ شہادت‘ جو گوروں کے زمانے سے مستعمل چلا آ رہا ہے‘ اب مکمل طور پر اوور ہالنگ کا متقاضی ہے۔ اوپر سے منصف بھی اسی نالائقی اور بدنیتی کا شکار ہیں جس کا ذکر پولیس کے زمرے میں کر چکا ہوں۔
ابھی ملتان میں اس واقعے کو محض پانچ دن ہی گزرے تھے کہ ملتان کے نواحی قصبہ آڑے والا میں تین ڈاکوؤں نے ایک شخص سے اس کی نئی موٹر سائیکل چھینی اور اس سے نقدی بھی لوٹ لی۔ ابھی ڈاکو اڈا متی تل پہنچے تھے کہ لوگوں نے ان کا پیچھا کرکے وہاں گھیر لیا۔ ڈاکوؤں نے مشتعل ہجوم سے بچنے کی خاطر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے دو افراد شدید زخمی ہو گئے؛ تاہم ہجوم نے فائرنگ سے خوفزدہ ہو کر منتشر ہونے کے بجائے ڈاکوؤں پر ہلہ بول دیا اور انہیں ڈنڈوں اور اینٹوں سے مارنا شروع کر دیا جب پولیس موقع پر پہنچی تو تینوں ڈاکو ہلاک ہو چکے تھے۔
گزشتہ رات افطاری کے بعد ہم چند دوست اپنے قومی مزاج کے مطابق ملک کی حالیہ سیاسی محاذ آرائی‘ عدلیہ کی تقسیم اور بدترین معاشی صورتحال پر باتیں کر رہے تھے کہ اسی دوران امن و امان کی بری صورت حال اور حکومتی رِٹ کی کسمپرسی کا ذکر چل پڑا تو ملتان میں گزشتہ چند روز کے اندر اندر شہریوں کی جانب سے چھ ڈاکوؤں کی تشدد سے ہلاکت بھی زیر بحث آ گئی۔ میں نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے وہی دو نکتے بیان کیے کہ عوام کی طرف سے یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگ اب عدل و انصاف کے ملکی نظام پر بھروسا کرنے کے بجائے از خود عدالت‘ منصف‘ گواہ اور قانون نافذ کرنے والا ادارہ بنتے جا رہے ہیں اور ان کو ملکی قوانین‘ عدالتوں اور پولیس پر کوئی بھروسا اور اعتبار نہیں رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت بھی اپنی رِٹ سے محروم ہو چکی ہے۔ ایک دوست کہنے لگا کہ آپ کی دونوں باتیں درست ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ اصل میں اب لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلکنے پر آ گیا ہے۔ یہ بہت خطرناک علامت ہے اور اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ غم و غصے اور اشتعال کا یہ آتش فشاں‘ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو کسی سے سنبھالا نہ جائے گا۔ ابھی وقت ہے کہ عوامی جذبات کو اشتعال میں بدلنے سے پہلے اس پر قابو پایا جائے وگرنہ مہنگائی‘ بے روز گاری‘ بھوک‘ افلاس‘ غربت‘ عدم مساوات‘ عدل و انصاف سے محرومی اور سیاسی بے چینی سے پیدا شدہ ردِعمل سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ یاد رہے کہ تب سب سے زیادہ نقصان بھی انہی کا ہو گا جو اس نظام کے سب سے بڑے بینی فشری ہیں۔ افتادگانِ خاک کا کیا جائے گا؟ ان کے پاس بھلا ہے ہی کیا؟