یہ ایک عمارت کا نوحہ نہیں

فروری میں ہونے والی چولستان جیپ ریلی کے چار پانچ دن قلعہ دراوڑ سے تھوڑی دور صحرائی ٹیلے پر بنا ہوا ہمارے دوست اطہر خاکوانی کا کیمپ ہمارا دو عشروں سے مستقل ڈیرہ ہے۔ اس جیپ ریلی کی تاریخ تھوڑی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے اور ریگستان میں ہمارے گزارے جانے والے دنوں کی تعداد بھی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ گزشتہ سال شاہ جی کے برخوردار کی شادی تھی اور اس سال ایک اور عزیز دوست کی بیٹی کی تھی‘ اس لیے دونوں بار محض دو دن گزار کر ہی اپنی دکان بڑھا لی حالانکہ رونقِ بازار ابھی شروع ہی ہوئی تھی۔
اطہر خاکوانی تو اس ریلی کے فائنل سے دس روز پہلے ہی اپنے کیمپ پر پہنچ جاتا ہے۔ ساٹھ‘ ستر لوگوں کا اہتمام کرنا اور اہتمام بھی ایسا کہ ہر بندے کی ضرورت‘ خواہش اور عادت کے مطابق ہر چھوٹی بڑی چیز کا خیال رکھنا۔ دلداری کرنا اور میزبانی کرکے خوش ہونا۔ اطہر خاکوانی کے چھوٹے بھائی انس خاکوانی اور اویس خاکوانی بہت شاندار ڈرائیور ہیں اور اس ریلی میں کئی مرتبہ پہلی تین پوزیشنز حاصل کر چکے ہیں۔ تین چار سال سے انس خاکوانی نے جیپ ریس میں حصہ لینا بند کر دیا تھا جبکہ اس سال اویس خاکوانی نے بھی جیپ ریلی میں حصہ نہیں لیا حالانکہ اس نے بڑی محنت کرکے اپنی گاڑی اس مقابلے کے لیے تیار بھی کی تھی مگر پھر خدا جانے اس کے دل میں کیا آئی۔
جب تک کوالیفائنگ راؤنڈ شروع نہیں ہوتا ہم لوگ جو ڈرائیور نہیں ہیں‘ ان کا سارا دن عجب سستی اور کاہلی میں گزرتا ہے۔ اس سستی اور کاہلی کا اپنا مزہ ہے اور کوئی کام نہ ہونے کا بھی اپنا ہی لطف ہے۔ اب ادھر موبائل فون اور انٹرنیٹ چلنے لگ گیا ہے مگر پھر بھی کبھی کبھار اپنی حرکتوں پر اُتر آتا ہے اور اپنے سگنل بغل میں دبا کر دائیں بائیں ہو جاتا ہے۔ اس کیمپ کے نوجوانوں کو ایسی صورت میں مشکل پیش آتی ہے مگر میرے جیسے بزرگوں کو اس سے خاص فرق نہیں پڑتا اور دن کچھ کیے بغیر بڑی سہولت سے گزر جاتا ہے اور پھر رات آ جاتی ہے۔ صحرا کی اس تاروں بھری رات میں کیمپ کے عین وسط میں بنے ہوئے گڑھے میں جلتے ہوئے ”مچ‘‘ کے گرد کرسیاں ڈال کر دوستوں کے ساتھ گپیں مارنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ سب دوست چائے اور میں کافی کی چسکیاں لیتا ہوں‘ ایسے میں اگر خاموشی بھی ہو تو ایک سرائیکی محاورے کے مطابق ہم آپس میں ”حال ونڈاتے‘‘ رہتے ہیں۔
اب تو یہ کیمپ اونچے ٹیلے پر ہے اور اس کی بتیاں قلعہ دراوڑ سے دائیں ہاتھ مڑ کر شاہی قبرستان پہنچتے ہی دکھائی پڑنے لگ جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ اب کیمپ کی لوکیشن کو گوگل پر ڈال دیں تو معاملہ اور بھی آسان ہو جاتا ہے لیکن دس بارہ سال پہلے یہ سہولت نہ تھی۔ کیمپ بھی ریگستان کے اندر کہیں لگتا تھا۔ ایک بار میں اکیلا رات کے دس بجے کچے راستوں سے ہوتا ہوا قلعہ دراوڑ کی جانب جا رہا تھا کہ ایک موڑ غلط ہوا اور پھر میں صحرا کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔ میرے خیال میں جہاں سے میں راستہ بھولا وہاں سے میری منزل مقصود آدھ گھنٹہ ہوگی مگر میں تین گھنٹے تک صحرا میں بھٹکتا رہا۔ نہ کوئی سمت بتانے والا آلہ‘ نہ موبائل فون سروس اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر موبائل فون چلتا بھی تو اس پر کسی کو کیا بتاتا کہ کہاں ہوں؟ جب میں راستے سے بالکل مایوس ہو گیا تو جیپ بند کرکے سیٹ لمبی کی اور ایک گھنٹے کے لیے سو گیا۔ وہ بھی کیا دن تھے؟ تب قلعہ دراوڑ کی دیواریں روشنی میں نہیں چمکتی تھیں کہ دور سے دکھائی دے جاتیں۔سو کر اٹھا تو دوبارہ ٹامک ٹوئیاں مارنی شروع کیں۔ دس پندرہ منٹ کے بعد مجھے لگا کہ میں عین اسی جگہ پر ہوں جہاں سے میں نے اپنا راستہ کھویا تھا۔ اس بار دوسری طرف گاڑی موڑ لی اور آدھ گھنٹے کے بعد میں قلعہ دراوڑ کے پاس تھا۔ وہاں فون سروس چلتی تھی۔ غیور خان کو فون کیا اور وہ مجھے کیمپ تک لے گیا۔ وہ بہت سرد رات تھی مگر ایک بار تو اُس ٹھنڈ میں بھی پسینہ آ گیا تھا۔ تب ہر بار نیا راستہ اختیار کرتے تھے۔ کبھی ملتان سے بہاولپور اور احمد پور شرقیہ سے محراب والا‘ کنڈے والی پل سے دراوڑ جاتے۔ کبھی خانقاہ شریف سے ہیڈ راجکان کے راستے قلعہ دراوڑ کا رخ کرتے اور نورپور نورنگا سے اندر سنگل سڑک سے ہوتے ہوئے کنڈے والی پل سے اندر ریگستان میں مڑ جاتے۔ ہر بار پرانے راستے سے تنگ آئے ہوئے ہم نیا راستہ تلاش کرتے اور ہر بار پہلے سے زیادہ خوار ہوتے۔ لیکن اب کیا آسانی ہو گئی ہے۔
ملتان سے سکھر موٹروے نے یہ راستہ اتنا آسان کر دیا ہے کہ اب سوا دو‘ اڑھائی گھنٹوں میں قلعہ دراوڑ پہنچ جاتے ہیں۔ اس بار سکھر موٹروے کے جھانگڑہ انٹرچینج سے اتر کر ہتھیجی اور پھر سیدھا احمد پور شرقیہ کا رخ کیا کہ راستہ مختصر ہے مگر سڑک ایسی خراب کہ خدا کی پناہ۔ فاصلہ تو محض پچیس کلومیٹر تھا مگر اس نے کڑاکے نکال دیے۔ واپسی کے لیے حسبِ معمول انس خاکوانی سے راستہ پوچھا تو اس نے بتایا کہ آپ سیدھے اُچ شریف جائیں اور وہاں سے موٹروے پر چڑھ جائیں۔ مشورہ دل کو لگا کہ فون والا گوگل دھوکا دے جائے تو دے جائے‘ انس خاکوانی کا گوگل کبھی دھوکا نہیں دیتا۔ موٹر وے پر چڑھنے سے پہلے سوچا کہ اسد کو بی بی جیوندی کا مزار دکھایا جائے۔ میں نے اسد سے پوچھا کہ اس نے کبھی نیلی ٹائلوں والا ایسا ہشت پہلو مزار دیکھا ہے جس کا نصف حصہ موجود ہی نہیں؟ اسد کہنے لگا :میں نے اس مزار کی تصاویر درجنوں بار دیکھی ہیں۔ میں نے کہا: یہ بی بی جیوندی کا مزار ہے جو ادھر اُچ میں ہے۔
بی بی جیوندی مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی پڑپوتی تھیں۔ مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا اصل نام تو سید جلال الدین نقوی البخاری تھا لیکن وہ اپنی سیلانی طبیعت اور مسلسل سفر کرنے کی وجہ سے اپنے مریدوں میں مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے نام سے ہی جانے جاتے ہیں۔ مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین سرخ پوش کے پوتے ہیں۔ اُچ میں کھیتوں کے درمیان میں سے گزر کر جب ہم قدیم قبرستان کے قریب پہنچے تو بائیں ہاتھ پر ایک اونچی پختہ فصیل تھی‘ یہ مخدوم جلال الدین سرخ پوش کا مزار ہے جبکہ بی بی جیوندی کے مزار پر جانے کے لیے آگے تنگ سڑک ہے جو اوپر ٹیلے تک جاتی ہے۔ اس ٹیلے پر تین مزاروں کی باقیات ہیں۔ ایک بی بی جیوندی کا مزار ہے جبکہ دوسرا اسی طرح ایک تہائی گنبد پر مشتمل بہاء الحلیم کا مزار ہے۔ اس کے ساتھ تیسرا مزار ماہرِ تعمیرات استاد نوریا کا ہے۔ ان تین پختہ عمارتوں کے علاوہ باقی سارا قبرستان روایتی کچی قبروں پر مشتمل ہے۔
میں بی بی جیوندی کے مقبرے کی تعمیراتی تفصیل میں نہیں جائوں گا کہ یہ کالم کا نہیں‘ تعمیرات کے فن کا موضوع ہے؛ تاہم اگر اس کا مختصر سا موازنہ کروں تو یہ ملتان میں اپنی نوعیت کی دنیا کی سب سے خوبصورت اور پُرشکوہ عمارت حضرت رکن الدین عالم کے مزار کی نسبتاً چھوٹی کاپی ہے؛ تاہم اس مزار میں ملتان کی پہچان نیلی ٹائل اور کاشی گری کا کام رکن الدین عالم کے مزار کی نسبت کہیں نمایاں ہے۔ ٹیلے کی مٹی میں نمکیات کی زیادتی‘ دریا کی نمی‘ موسم کی خراب صورتحال‘ زمینی کٹاؤ اور سب سے بڑھ کر اس کے تحفظ اور بحالی کے لیے کیے جانے والے کام میں ناتجربہ کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور نقائص کے باعث بحالی کا سارا کام ہی کارِ بے کار بن گیا ہے۔ 1817ء میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے اس قابلِ دید اور حسنِ تناسب کی بہترین مثال عمارت کو جو نقصان پہنچایا‘ ہماری ناتجربہ کاری اور نالائقی کے طفیل اس کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف ایک عمارت کی بات نہیں۔ ہمارے آثارِ قدیمہ اور تاریخی عمارتوں کی بحالی کے نام پر ہونے والی بربادی کی فہرست بہت طویل ہے۔ اب بندہ ایک کالم میں کیا کیا لکھے؟