یہ قوم تو ہر بات ہی بھول جاتی ہے

بقول ملک خالد کے اسے ان دنوں موسم‘ اعلیٰ عدلیہ اور الیکشن کے مستقبل کے بارے میں بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ ان تین چیزوں میں سب سے کم الجھی ہوئی صورتحال موسم کی ہے۔ گو کہ ان تینوں چیزوں میں یہ واحد شے ہے جو ہمارے نہیں بلکہ سراسر قدرت کے کنٹرول میں ہے اور اسی کی مرضی اور منشا کی محتاج ہے مگر اس کے باوجود یہ بہرحال اس قدر پیچیدہ اور گنجلک نہیں کہ اس کو اعلیٰ عدلیہ اور الیکشن جیسی عقل و خرد سے ماورا صورتحال سے تشبیہ دی جا سکے۔
اب بھلا موسم میں کیا پیچیدگی ہے جو سمجھ نہیں آ سکتی۔ گزشتہ بیس پچیس دن میں موسم میں جو تبدیلی آئی ہے‘ میں صبح اٹھتے ہی اس سے آگاہ ہو جاتا تھا۔ میرے باتھ روم میں وینٹی پر پڑا ہوا ناریل کا تیل جس روز پگھل گیا تھا‘ مجھے علم ہو گیا کہ اب گرمی آ گئی ہے اور میں نے گھر کا گیزر بند کر دیا۔ اس ‘بند کر دیا‘ سے یہ ہرگز مطلب نہیں کہ یہ گیزر ساری سردیاں چلتا رہا ہے۔ ادھر ہمارے علاقے میں گزشتہ پندرہ سال سے گیس رات کو بند ہو جاتی ہے اور صبح آ جاتی ہے۔ صبح کے بعد پھر چلی جاتی ہے اور دوپہر کو آ جاتی ہے۔ غرض اسی طرح آتی جاتی رہتی ہے اس لیے ہم روزانہ صبح گیزر چلاتے تھے جو تین چار گھنٹے بعد گیس کے جاتے ہی خود بخود بند ہو جاتا تھا لیکن ناریل کا تیل پگھل جانے کے بعد اسے روزانہ صبح چلانے کی ڈیوٹی ختم کردی؛ تاہم محض پانچ چھ دن بعد ہی اس صورتحال نے ریورس گیئر لگا لیا اور ایک صبح تیل دوبارہ جم گیا اور پھر تین چار دن بعد دوبارہ پگھل گیا۔ جس روز زلزلہ اور بارش اکٹھے آئے تو اس دن سے اب تیل دوبارہ جم چکا ہے۔ گیزر اور کشمیری چائے مورخہ پندرہ مارچ کو ایک طے شدہ شیڈول کے مطابق ویسے بھی بند ہو جاتے ہیں سو اب گزشتہ کئی روز سے صبح ٹھنڈے پانی سے نہا رہا ہوں۔ پانی کا درجہ حرارت بتا دیتا ہے کہ موسم کیسا ہے اور اوپر چھائے بادل بارش کے امکانات کی منظر کشی کرتے رہتے ہیں‘ بھلا اس میں کیا ہے جو سمجھ نہیں آ رہا؟
ملک خالد میری طویل تقریر سن کر کہنے لگا: یہ فون میں نے کیا ہے یا تم نے کیا ہے؟ میں نے کہا: ہمیشہ کی طرح یہ فون تمہی نے کیا ہے۔ ملک کہنے لگا: اگر فون میں نے کیا ہے تو تمہیں میری بات سننی چاہیے نہ کہ اپنی طویل تقریر سے ہماری سمع خراشی کرو۔ اس موسم سے مراد اس کا درجہ حرارت نہیں تھا بلکہ فروری میں ہی قبل از وقت درجہ حرارت کا غیر معمولی طور پر بڑھ جانا اور گرمیوں کی آمد جیسا درجہ حرارت اور مارچ میں ان حالیہ شدید بارشوں کے بارے میں کہہ رہا تھا۔ اب تمہیں کیا خبر کہ اس سے فصلوں پر اور خاص طور پر گندم کی آمدہ فصل پر کیا مضر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی معیشت کا بیشتر دارومدار زراعت پر ہے اور فی الوقت اس غیر متوقع موسمی صورتحال نے اس خطے کی زراعت کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔
میں نے اسے کہا کہ زراعت کو تو جو نقصان ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ پریشان کن ہے مگر جو کچھ ملکی صنعت کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے سامنے تو زراعت کو ہونے والا نقصان خاصا معمولی لگ رہا ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کا برا حال ہے۔ سپننگ ملز بند ہو رہی ہیں اور بے روزگاری کے ساتھ آئندہ مالی سال میں ہماری برآمدات میں جو کمی آئے گی اس کا اثر ملکی معیشت کی پہلے سے خمیدہ کمر کو بالکل توڑ کر رکھے دے گا۔ اس سال کچھ امید بندھی تھی کہ شاید ملکی کپاس کی پیداوار میں گزشتہ سال کی نسبت کچھ بہتری آ جائے گی مگر صورتحال یہ ہے کہ فروری میں کاشت ہونے والی اگیتی کپاس ان حالیہ بارشوں کے باعث ضائع چلی گئی ہے اور لوگ نئے سرے سے کپاس کاشت کر رہے ہیں لیکن سب سے زیادہ نقصان گندم کی فصل کا ہوا ہے۔
پاکستان میں گندم تقریباً دو کروڑ پینتیس لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ کاشت ہوتی ہے۔ اس میں سے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ایکڑ کے قریب پنجاب میں کاشت ہوتی ہے۔ اس سال ویسے ہی گزشتہ سال کی نسبت دو اڑھائی فیصد کم رقبے پر گندم کاشت ہوئی ہے‘ لیکن ان مسلسل بارشوں نے اس فصل کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ پچھیتی کاشت کسی حد تک بچی ہوئی ہے کہ ابھی اس میں دانہ بن رہا تھا اور ان بارشوں سے اس دانے کو ضرر نہیں پہنچا لیکن اگیتی کاشتہ گندم کا دانہ جو تقریباً پک چکا تھا‘ اسے ان بارشوں سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس مرحلے پر ہونے والی بارشوں کے باعث دانہ سکڑ جاتا ہے اور اس کا وزن کم رہ جاتا ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بارشیں زیادہ ہوں تو گندم کا پودا گر جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں نیچے کھیت میں کھڑے پانی میں گر جانے سے گندم کا دانہ سیاہ ہو جاتا ہے اور Toxicاثرات کے باعث کھانے کے قابل نہیں رہتا۔ اس سال امید تھی کہ اچھے ریٹ کے باعث شاید فصل زیادہ کاشت بھی ہوگی اور کاشتکار اس پر نسبتاً بہتر خرچہ بھی کرے گا؛ تاہم ان بارشوں نے بہتری کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور اب گندم کی فصل کی پیداوار میں ایک ملین ٹن تک کمی کا خدشہ ہے۔ ایک طرف ملک میں آٹے کیلئے قطاریں لگی ہوئی ہیں‘ لوگ اس کے حصول کی خاطر جان سے جا رہے ہیں اور اس سال کی فصل کے حوالے سے دکھائی دیتا ہے کہ ہمیں گزشتہ سال کی نسبت زیادہ گندم درآمد کرنی پڑے گی۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں پہلی یہ کہ گندم کی ملکی پیداوار چھبیس ملین ٹن کے لگ بھگ ہے جبکہ ملکی ضرورت کم از کم بھی بتیس ملین ٹن کے لگ بھگ ہے۔ یعنی پیداوار اور ضرورت کے درمیان چھ ملین ٹن کا فرق ہے جو ظاہر ہے درآمدی گندم سے پورا کیا جاتا ہے اور ملکی گندم کی پیداوار میں جتنی کمی ہوگی درآمدی گندم کی مقدار اسی قدر بڑھ جائے گی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سال ملکی آبادی میں جو مزید سالانہ اضافہ ہوا ہے اسی نسبت سے ملک میں گندم سے بھرے جانے والے پیٹ بھی بڑھ گئے ہیں جن کو بھرنے کیلئے مزید گندم درکار ہے‘ لہٰذا پیداوار میں کمی اور آبادی میں اضافے کے باعث پیداوار اور ضرورت کا باہمی فرق مزید بڑھ جائے گا اور ا س سال گزشتہ سال کی نسبت کم از کم ایک ڈیڑھ ملین ٹن گندم زیادہ درآمد کرنا پڑے گی۔
یہ زرعی ملک جو پہلے ہی سات ارب ڈالر سے زیادہ کی زراعت پر مشتمل اشیا درآمد کرتا ہے‘ اس سال اس دلدل میں مزید دھنس جائے گا کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں گرتی ہوئی روپے کی قیمت اور زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی کمی اس سلسلے میں مزید مشکلات پیدا کرے گی۔ پاکستان نے گزشتہ سال دو ارب ڈالر کے لگ بھگ زرمبادلہ گندم کی درآمد پر لگا دیا۔ خوردنی تیل کی درآمد پر ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد زرمبادلہ خرچ ہوا۔ ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو چلانے کی غرض سے دو ارب ڈالر کے لگ بھگ کپاس درآمد کی گئی۔ یعنی صرف ان تین زرعی مدات میں ساڑھے سات ارب ڈالر صرف ہو گئے۔ گزشتہ سال کی نسبت خزانے میں آدھا زرمبادلہ بھی موجود نہیں جبکہ صورتحال میں بہتری کا بھی دور دور تک کوئی امکان نہیں۔
ان زرعی درآمدات میں اگر دالیں‘ ٹِن فوڈ اور دودھ سے بنی ہوئی مصنوعات شامل کر لی جائیں تو یہ درآمدی بل ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کے قریب جا پہنچے گا۔ ایک زرعی ملک جو محض ڈیڑھ ارب ڈالر کیلئے گزشتہ کئی ماہ سے آئی ایم ایف سے سو پیاز اور سو جوتے کھانے کے باوجود قرضہ لینے میں ناکام ہو رہا ہے‘ اگر صرف زرعی معاملات کو درست کر لے تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں مگر نہ کسی کو خیال ہے اور نہ ہی کوئی فکر۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے خوردنی تیل کی کوئی درآمدی ایل سی نہیں کھل سکی۔ جب خوردنی تیل کا بحران پیدا ہوگا تو لوگ چند ماہ پہلے پیدا ہونے والے پولٹری بحران کو بھول جائیں گے۔ لیکن بھول جانے کا کیا ہے؟ یہ قوم تو ہر بات ہی بھول جاتی ہے۔