ہم عاجز تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں

سیلاب کا پانی تو خیر سے اُتر ہی جائے گا مگر اس کے نتیجے میں جو تباہی و بربادی ہوئی ہے اس کے اثرات برسوں تک سیلاب زدگان کیلئے انفرادی طور پر اور ملک کیلئے اجتماعی طور پر تباہ کن ثابت ہوں گے۔ متاثرین کے گھر بار‘ مویشی اور فصلیں اس سیلابِ بلا کے نتیجے میں مکمل طور پر ختم ہو گئی ہیں اور ملکی سطح پر سڑکیں‘ پل‘ مواصلات کا نظام‘ ڈیم اور بجلی کے ترسیلی نظام کی تباہی کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک اور فصلوں کی تباہی کے نتیجے میں ملکی جی ڈی پی پر پڑنے والے منفی اثرات اگر چار پانچ برس میں بھی ختم ہو جائیں تو سمجھیں معجزہ ہے۔
سندھ میں اوباڑو سے بدین تک ساری فصلیں تباہ و برباد ہو گئی ہیں۔ کپاس کا ایک ٹینڈہ نہیں بچا۔ مرچ کی ساری فصل تباہ ہو گئی ہے۔ چاول کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔ چند روز پہلے تک گنے کی فصل کے کسی حد تک بچ جانے کے امکانات تھے مگر اب وہ بھی معدوم ہو رہے ہیں۔ ساری سبزیاں سیلابی پانی کی نذر ہو گئی ہیں۔ ٹماٹر کی فصل ابتدائی سٹیج پر ہی ملیا میٹ ہو گئی ہے۔ یہی حال بلوچستان کا ہے۔ بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں لوگوں کی ساری گزر بسر اُن کے مال مویشیوں پر تھی جو سارے سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں‘ میدانی علاقے میں ٹماٹر اور پیاز کی ساری فصل سیلاب کی نذر ہو گئی ہے۔ یہ سارا نقصان بظاہر سیلاب متاثرین کا دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے اثرات ملکی معیشت پر کس قدر بھاری ہوں گے‘ عام آدمی کو فی الحال اس کا اندازہ نہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سیلاب زدگان کی مدد کرکے ان کی بحالی کو آسان اور ممکن بنا دیا جائے تو اس تباہی کا ازالہ ہو سکتا ہے‘ لیکن اکثریت اس بات کا ابھی ادراک نہیں کر رہی کہ معاملہ صرف متاثرین کی بحالی کا نہیں بلکہ اس تباہی کے دور رس نتائج کا ہے جس نے ملکی معیشت‘ جو پہلے سے تباہ حال تھی‘ کی چولیں ہی نہیں ہلائیں بلکہ اس کی بنیادیں تباہ کرکے رکھ دی ہیں۔
سندھ کی کپاس مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔ گزشتہ چند سال سے بلوچستان کے کچھ علاقوں میں کپاس کی کاشت کے کامیاب تجربے نے پنجاب میں کم ہوتے ہوئے کپاس کے کاشتہ رقبے کے نتیجے میں کپاس کی پیداوار میں پچاس فیصد سے زائد کمی کے ازالے کی جو روشن کرن دکھائی تھی وہ بھی اس سیلاب نے بجھا دی ہے اور بلوچستان میں پیدا ہونے والی اعلیٰ درجے کی کپاس سے ملک محروم ہو گیا ہے۔ ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مکمل طور پر چلانے کیلئے سالانہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کپاس کی گانٹھیں درکار ہیں۔ گزشتہ سال ہماری کپاس کی کل پیداوار تہتر لاکھ گانٹھ تھی۔ یہ پیداوار کل ملکی ضرورت کا محض چھیالیس فیصد تھی‘ یعنی نصف سے بھی کم۔ ٹیکسٹائل کی ملکی صنعت کی ضرورت پوری کرنے کیلئے بقیہ کپاس درآمد کی گئی اور اس پر تقریباً ڈھائی ارب ڈالر کا زر مبادلہ خرچ ہوا۔ آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ کپاس کی درآمد پر خرچ ہونے والی اس خطیر رقم کے مقابلے میں ہم نے محض ایک ارب سترہ کروڑ ڈالر کے آئی ایم ایف کے ادھار کیلئے کس قدر ناک رگڑی ہے اور ترلے مارنے کے ساتھ ساتھ پٹرول‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں آئی ایم ایف کے حکم کے مطابق اضافہ کرکے عوام کا جو حشر کیا ہے وہ علاوہ ہے۔
گزشتہ سال کی تہتر لاکھ گانٹھوں کی پیداوار کے مقابلے میں اس سال حکومت کا کپاس کی پیداوار کا ہدف ایک کروڑ دس لاکھ گانٹھ تھا تاہم کاشتہ رقبہ سامنے رکھتے ہوئے حکومتی ہدف میں ترمیم کی گئی اور یہ کم ہو کر نوے لاکھ گانٹھوں پر آ گیا۔ بالائی سندھ میں پنو عاقل‘ ڈھرکی‘ میرپور ماتھیلو اور اس سے متصل علاقوں میں کپاس کی فصل کی تباہی کے بعد اب اس معاملے میں جانکاری رکھنے والوں کا خیال ہے کہ یہ پیداوار اگر ستر پچھتر لاکھ گانٹھ تک بھی پہنچ گئی تو غنیمت ہو گی۔ دو چار روز میں صورتحال زیادہ واضح ہو جائے گی اور سندھ کے ضلع سانگھڑ اور میرپور خاص وغیرہ میں کپاس کی دوسری چنائی کے بعد اس بارے میں زیادہ یقین سے کچھ کہا جا سکے گا۔
پھٹی کی حالیہ قیمتوں کا گزشتہ سال کی قیمتوں سے موازنہ کیا جائے تو کاشتکار کے حوالے سے صورتحال بہتر ہے۔ گزشتہ سال پھٹی (خام کپاس) کا ریٹ پانچ ہزار سے دس ہزارر وپے فی من تک رہا تھا جبکہ اس سال یہ ریٹ آٹھ ہزار روپے فی من سے بارہ ہزار روپے فی من رہا ہے۔ اسی طرح کپاس کا ریٹ جو گزشتہ سال فی من سترہ ہزار کی بلند ترین سطح پر پہنچا تھا اس سال اٹھارہ ہزار روپے سے چوبیس ہزار روپے فی من رہا ہے۔ یعنی کپاس کا کم سے کم ریٹ بھی گزشتہ سال کے زیادہ سے زیادہ ریٹ سے زیادہ ہے۔ اس سے جہاں دھاگہ اور آخر کار کپڑا مہنگا ہو گا وہیں بجلی‘ گیس اور دیگر عوامل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یہ سب عوامل مل کر دھاگے کی پیداواری لاگت اتنی زیادہ کردیں گے کہ عالمی منڈی میں ہمارے دھاگے کی فروخت ممکن نہیں رہے گی اور اسے کم قیمت پر بیچنے سے پیداواری لاگت بھی پوری نہیں ہوگی۔ نتیجتاً ملوں کی بندش اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ ملک میں زر مبادلہ کی کمی ہوگی اور ہمیں ایک بار پھر آئی ایم ایف کے درِ دولت پر حاضر ہو کر ماتھا ٹیکنا پڑے گا اور قرض کے حصول کیلئے کشکول پھیلانا پڑے گا۔ تب کتنی ذلت کے بعد قرض ملے گا اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔
ادھر سیلاب نے سندھ میں گنے کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور ادھر یہ عالم ہے کہ شوگر ملز مافیا کو فی الوقت ملک میں ضرورت سے زیادہ موجود چینی کوبرآمد کرنے کی آگ لگی ہوئی ہے۔ شوگر ملز مافیا پچھلے کچھ عرصے سے کہرام مچا رہا ہے کہ انہیں ملکی ضرورت سے زائد چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے بصورت دیگر انڈسٹری تباہ ہو جائے گی۔ گزشتہ سے پیوستہ سال بھی انہوں نے سرکار کو یہی چکر دے کر دس بارہ لاکھ ٹن چینی برآمد کر کے اس کی سبسڈی کھری کرلی پھر اس برآمد کے باعث پیدا ہونے والی شارٹیج کے طفیل چینی مہنگے داموں بیچ کر اربوں روپے بٹور لیے۔ یعنی دوطرفہ چھری چلاتے ہوئے پہلے برآمد میں سبسڈی پر ہاتھ صاف کر لیا اور پھر سپلائی اینڈ ڈیمانڈ میں پیدا ہونے والے عدم توازن کی بنیاد پر چینی کی قیمتیں بڑھا کر عوام کی جیب کاٹ لی۔ اب پھر وہی پرانا چکر چلایا جا رہا ہے۔ پہلے یہ مافیا چینی برآمد کرکے سبسڈی اور ڈیوٹی ڈرا بیک وغیرہ کے چکروں میں اربوں روپے اینٹھنا چاہتا ہے اور پھر سندھ میں گنے کی فصل کو ہونے والے نقصان کے نتیجے میں چینی کی کم متوقع پیداوار کے باعث ایک بار پھر چینی کی قیمتیں بڑھا کر عوام کی جیب کاٹنا چاہتا ہے۔ کیونکہ حکومتی ایوانوں میں (خواہ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو) شوگر مافیا کے سارے کھڑپینچ خودہی فیصلہ سازہیں‘ لہٰذا ان سے کچھ بھی ممکن ہے۔ حکومتی ایوانوں میں پہلے ان کھڑپینچوں کی نمائندگی جہانگیر ترین‘ خسرو بختیار اور ہاشم جواں بخت وغیرہ کرتے تھے اب ان کی جگہ اعلیٰ حضرت آصف علی زرداری نے لے لی ہے اور سب کو پتا ہے کہ ”ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے بھلا اس مافیا کو کسی اور مددگار کی کیا ضرورت ہے؟ پنجاب کی ملوں میں سب سے بڑے حصہ داران کا تعلق شریف فیملی سے ہے۔
کپاس کی صورتحال کو پوری طرح واضح ہونے میں ستمبر کا مہینہ ہمیشہ سے بہت ہی اہم رہا ہے اور کپاس کی فصل اور روئی کے کاروبار سے وابستہ لوگ ستمبر کے مہینے کو ”ستمگر مہینہ‘‘ کہتے ہیں۔ ابھی مون سون کا ایک مزید سپیل متوقع ہے۔ اللہ ہمیں اور پہلے سے مصیبت کا شکار سیلاب متاثرین کو اپنی امان میں رکھے اور حکمرانوں کو غیر ملکی امداد غتربود کرنے کی سابقہ روایت سے باز رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم عاجز تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔