لکھنے کے علاوہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟

الیکشن کمیشن کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کی صدارت کے دعوے کے اخراج کے بعد( ق) لیگ کی ڈولتی ہوئی کشتی سے تحریک انصاف میں چھلانگ کر آنے والے چودھری پرویز الٰہی کو مشہور ٹیلی وژن ڈرامہ سیریل ”اندھیرا اجالا‘‘ کے ڈائریکٹ حوالدار اکرم داد (عرفان کھوسٹ) کی طرح تحریک انصاف کا ڈائریکٹ مرکزی صدر لگانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ خان صاحب چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا کرتے تھے پھر حالات کی ستم ظریفی اور لیلائے اقتدار کی محبت اور مجبوریاں آڑے آئیں اور خان صاحب کو پہلے انہیں پنجاب اسمبلی کا سپیکر اور بعد ازاں پنجاب کا وزیراعلیٰ قبول کرنا پڑا۔ چلیں یہاں تک تو ہم اسے پنجاب اسمبلی میں( ق) لیگ کی دس نشستوں والی مجبوری کہہ کر دل کو تسلی دے سکتے ہیں لیکن اب جبکہ خان صاحب عوامی پذیرائی اور سیاسی مقبولیت کے حوالے سے اپنے عروج پر ہیں اور انہیں کسی قسم کی مجبوری یا بلیک میلنگ بھی لاحق نہیں ایسے میں چودھری پرویز الٰہی کو تحریک انصاف کا مرکزی صدر مقرر کرنے کے وعدے یا لارے کو ان کے کرپشن کے خلاف بیانیے کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔

عمران خان صاحب چودھری پرویز الٰہی کے بارے میں جو کچھ کہتے تھے اس پر بقول چودھری شجاعت مٹی بھی ڈال دیں تو بات نہیں بنتی۔ ان کی تازہ ترین حکومت کے دوران ہونے والی ٹرانسفروں اور پوسٹنگوں کی لہر بہر نے جس طرح لین دین کی فصل کی آبیاری کی اس نے چھ ماہی نہروں کی یاد کو تازہ کر دیا۔ان چھ مہینوں کے دوران پنجاب میں سرکاری محکموں میں اور خاص طور پر پیدا گیر محکموں میں جتنے تبادلے اور تعیناتیاں ہوئیں وہ پنجاب کی تاریخ کے اندر چھ ماہ کے دوران ہونے والے تبادلوں اور تعیناتیوں کے سلسلے میں بننے والا ایسا ریکارڈ ہے جو شاید ہی کوئی اور مائی کا لعل توڑ سکے۔ ”ایں سعادت بزورِ بازو نیست‘‘۔ ان ٹرانسفروں کا قصہ بھی عجیب ہے۔ کسی جگہ ٹرانسفر کروانے کا عوضانہ وصول کیا گیا اور کسی جگہ ٹرانسفر رکوانے کا محنتانہ وصول کیا گیا۔ اور کبھی تو پہلے ٹرانسفر کروائی گئی اور پھر رکوانے کی مشقت وصول کی گئی۔ کون کس کا فرنٹ مین تھا اور کون کس کا حصے دار تھا یہ باتیں بے معنی ہیں کہ کسی کا نام تو لکھا نہیں جا سکتا کیونکہ ایسے کاموں کی نہ کوئی رسید ہوتی ہے اور نہ ہی ثبوت میسر ہوتے ہیں۔جس طرح انسان قدرت کو اس کی نشانیوں سے پہچانتا ہے اسی طرح اس قسم کے کام اپنی اٹھان اور طریقہ کار سے نہ صرف پہچانے جاتے ہیں بلکہ صاف صاف دکھائی بھی دیتے ہیں۔ اسمبلی توڑنے کے بعد چودھری پرویز الٰہی نے تبادلوں کے احکامات جاری کرنے میں جو پھرتیاں دکھائیں وہ انتظامی پھرتیوں کے حوالے سے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ پانے کی حقدار ہیں۔

ملتان سے ہمارے ایک پیارے دوست جو ہمارے مادر علمی فیلو سردار عثمان بزدار کے دور حکومت میں بھی صوبائی وزیر تھے؛ تاہم تب وہ شاہ محمود قریشی کے نہ چاہنے کے باوجود بھی اس منصب جلیلہ پر سابق گورنر پنجاب چودھری سرور کے پُرزور اصرار کے باعث فائز کئے گئے تھے۔ ایک بزرگ ایم پی اے نے بتایا کہ چودھری سرور نے ان کے سامنے کہا کہ اگر انہیں وزارت نہ دی گئی تو وہ کابینہ کا حلف نہیں لیں گے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ تب ان کو جو وزارت عطا کی گئی وہ بظاہر ان کی پسند کی نہ تھی کیونکہ یہ بڑی سوکھی قسم کی وزارت ہے اور اس میں سے تیل نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا؛ تاہم کسی تجربہ کار نے جو اس قسم کی سوکھی اشیا سے تیل نکالنے کا وسیع تجربہ رکھتا تھا انہیں سمجھایا کہ پاکستان میں ایسی کسی وزارت کا کوئی وجود نہیں جس سے حسبِ منشا کریم نہ نکالی جا سکے۔ ہاں! اس کیلئے روایتی سوچ اور طریقہ کار سے نکلتے ہوئے جدید خیالات و افکار سے استفادہ کرنا پڑے گا۔ سو نئے طریقہ کار سے انہوں نے کافی تیل نکالا‘ خوش قسمتی سے ان کا یہ کولہو سردار عثمان بزدار کی روانگی پر بند ہونے کے بجائے اَپ گریڈ ہو گیا اور ان کو حاصل ہونے والے تیل کی شرح کافی زیادہ ہو گئی۔ ایک نہایت باخبر دوست نے بتایا کہ اس اَپ گریڈیشن کے سلسلے میں ان کو زیادہ تیل نکالنے کے حامل جدید Expeller کی تنصیب پر گو کہ خاصا خرچہ کرنا پڑا؛ تاہم یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے اپنے فرنٹ مین بھانجے کے طفیل مشینری کی اَپ گریڈیشن پر کیا گیا خرچہ مع منافع چھ ماہ کے اندر اندر نکال لیا اگر وہ روایتی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے اپنی سرمایہ کاری کا پے بیک پیریڈ لمبا کر دیتے تو مارے جاتے۔ تاہم وہ اب بھی دکھی ہیں کہ ان کو گھاٹا پڑ گیا ہے۔ ان کا یہ گھاٹا بھی اسی میمن سیٹھ کے گھاٹے جیسا ہے جس نے اپنے کاروبار سے ہونے والے متوقع منافع کا سالانہ تخمینہ ستر لاکھ روپے لگایا مگر سال کے آخر پر حساب کیا تو نفع ان کی توقع کے بجائے پچاس لاکھ روپے نکلا۔ اگلا سارا سال سیٹھ اپنے جاننے والوں کو قسمیں کھا کر کہتا رہا کہ اسے گزشتہ سال کاروبار میں بیس لاکھ روپے کا Net Lossہوا ہے۔

ان چھ ماہ میں ہونے والی اور ہو کر کینسل ہو جانے والی ٹرانسفروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تو بندہ پریشان ہو جائے کہ سرکار نے ان چھ ماہ میں اس کے علاوہ بھی کوئی کام کیا تھا؟ سمجھدار اور چالاک لوگوں نے جب گنگا کو اس طرح سخاوت سے بہتے دیکھا تو انہوں نے اس میں ہاتھ دھونے کیلئے ادائیگی کی اور من کی مراد پائی۔ جن بے عقل اور احمقوں نے ٹرانسفروں کے اس چھ ماہی عرس پر نذرانے کیلئے رکھے ہوئے بکس میں خوش دلی سے کچھ ڈالنے سے انکار کیا تو ان کو ٹرانسفر کر دیا گیا اور پھر اس ٹرانسفر کو رکوانے کے عوض ان سے نذرانہ وصول کر لیا گیا۔ یعنی ٹرانسفر کروانے اور ٹرانسفر رکوانے والے ہر دو فریقین سے برابر کی وصولی کی گئی۔ انصاف کے نظام کو جتنی ایمانداری سے اس معاملے میں کام کرتے دیکھا اس کی مثال فی الوقت یاد نہیں آ رہی۔

گزشتہ سات آٹھ ماہ کے دوران تبادلوں کا جو سیلاب آیا ہے اس نے 2010ء کے سیلاب کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ عثمان بزدار نے جاتے جاتے آخری ہلہ بولتے ہوئے ٹرانسفریں کیں۔ ان کے جانے کے بعد پرویز الٰہی آئے تو انہوں نے اپنی مرضی کے بندے لگانے کیلئے ٹرانسفروں کی ایک موجِ بلا خیز بھیجی۔ پھر انہوں نے اسمبلی توڑنے کے بعد بچہ سقہ کی طرح چمڑے کے سکے چلاتے ہوئے ٹرانسفروں کی ایک اور تندو تیز موج کا لطف لیا۔ اس کے بعد نگران حکومت آئی تو اس نے ٹرانسفروں کے اس ”ہڑ‘‘ میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا۔ صرف ملتان نے ایک ڈیڑھ مہینہ کے اندر اندر تین کمشنروں‘ تین ریجنل پولیس افسروں اور ڈی پی اوز کی شکل دیکھی۔ ان سرکاری افسروں کی تبدیلیوں سے انتظامی امور کی جو بربادی ہوئی وہ تو اپنی جگہ لیکن اس کے نتیجے میں ہر سرکاری افسر کو ٹرانسفر ہونے کی صورت میں ایک بنیادی تنخواہ اور ٹرانسپورٹیشن الاؤنس کی مد میں لاکھوں روپے الگ سے ادا کیے گئے۔ گزشتہ سات آٹھ ماہ کے دوران پنجاب بھر میں ہونے والے سرکاری افسروں کے تبادلوں اور ان پر ہونے والے ریاستی خرچے کو جمع کیا جائے تو آنکھیں کھل جائیں۔ خرچہ تو سرکار کا ہوا اور آمدنی سرکار سے وابستہ شخصیات کی ہوئی۔ عرصہ ہوا ایک بس پر لکھا دیکھا تھا کہ ”خرچہ مالکاں دا‘ تے نخرے لوکاں دے‘‘۔ ادھر بھی یہی صورتحال ہے۔ ہمارا کڑھنا اور لکھنا لاحاصل ہے مگر ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں۔