بڑا پن کیا ہے؟

چلیں یہ تو اس بے نیاز کا کرم ہے کہ عمران خان کا ہر اُلٹا قدم سیدھا پڑ رہا ہے۔ اُن کی ہر غیر آئینی حرکت کو آئینی سہارا مل رہا ہے۔جیسا کہ اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے۔ اُن کا ہر تکا تیر بن رہا ہے‘ اُن کا ہر یوٹرن ان کے حامیوں کے نزدیک ایک سیاسی داو ٔ ہے اور اُن کی ہر غلط بیانی سے حکمت کے موتی برآمد کرنے کے لیے اُن کے پاس عقل سے عاری پڑھے لکھوں کی ایک فوج ظفر موج موجود ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کبھی عمران خان صاحب نے اپنی پہاڑ جیسی غلطیوں کا ادراک کیا ہے؟ کیا ان کے حالیہ اور سابقہ وعدوں میں کوئی مماثلت تلاش کی جا سکتی ہے؟
پہلے ان کا نعرہ تبدیلی تھا۔ خیر سے ساڑھے تین سال میں قوم نے تبدیلی تو اچھی طرح دیکھ لی۔ خود خان صاحب نے اس تبدیلی کی تشریح کرتے ہوئے پونے چار سال بعد اپنی حکومت کے خاتمے پر ہمیں بتایا کہ ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ تمام تقرریوں‘ تبادلوں‘ فیصلوں‘ منصوبوں اور پالیسیوں پر باجوہ صاحب کا کنٹرول تھا۔ ان کے ہاتھ میں سوائے اس بات کے کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ اپنا اور کے پی کے حکومت کا ہیلی کاپٹر بے دریغ استعمال کر سکیں۔ شاہ جی نے میری اس بات پر ایک سوال کیا کہ بقول خان صاحب اگر شہزاد اکبر سے لے کر ندیم بابر اور تابش گوہر سے لے کر سکندر سلطان راجہ تک کی تقرری ان کی مرضی سے نہ ہوئی اور اس قسم کے تمام فیصلے بقول خان صاحب باجوہ صاحب نے کئے تو پھر چاہنے کے باوجود آخر باجوہ صاحب پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو کیوں تبدیل نہ کروا سکے؟
پہلے ان کا نعرہ تبدیلی تھا اور اس نعرے کا عملی مظاہرہ جس شان و شوکت سے کم از کم پنجاب میں دکھائی دیا اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔ اس تبدیلی کے نعرے کے طفیل پنجاب کے سرکاری افسروں کی جس قدر تبدیلیاں ہوئیں وہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونے کے لائق ہیں۔ پنجاب میں عثمان بزدار کے دور میں سات آئی جی پولیس اور پانچ چیف سیکرٹری تبدیل ہوئے۔ ملتان میں سات عدد کمشنر تبدیل ہوئے اور یہی حال دیگر اضلاع اور ڈویژنز کا تھا۔ پولیس افسران میں تبدیلیوں کی بھی یہی رفتار تھی۔ گجروں اور ٹی کے جیسے دیگر فنکاروں کے طفیل پہلی بار یہ بات سنی کہ پیسے دے کر تقرریاں کروانے والا معاملہ تحصیلدار‘ پٹواری اور ایس ایچ او وغیرہ سے کہیں اوپر جا کر ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی اوز تک پہنچ گیا تھا۔ صرف محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کے سیکرٹریز کی تبدیلیوں اور تقرریوں پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کم از کم تیرہ عدد سیکرٹری تبدیل ہوئے۔ ملتان میں کتنے ڈپٹی کمشنر اور کتنے ڈی پی او تبدیل ہوئے یاد نہیں۔ ظاہر ہے بندے کو اس قسم کی گنتی کرنے کے علاوہ اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں۔
خان صاحب نے اپنی حکومت کی تبدیلی پر نعرہ لگایا کہ ان کی حکومت کا تختہ امریکہ نے الٹایا ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی تھی اوراس میں ان کے اپنی پارٹی کے غدار اور ان کے وہ حلیف شامل تھے جنہیں وہ پہلے ملک دشمن اور بعد ازاں اسمبلی کے نفیس ترین ارکان قرار دیتے رہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ عمران خان جمہوریت اور آئین کے صرف اس حد تک قائل ہیں جو انہیں اپنے لیے فائدہ مند دکھائی دیتا ہے وگرنہ وہ اس ملک کے آئین اور رائج جمہوریت کے بالکل بھی قائل نہیں ہیں۔ اب بندہ پوچھے کہ عدم اعتماد کہاں سے غیر جمہوری یا غیر آئینی قدم ہے؟ عدم اعتماد ہو گئی‘ آپ کی حکومت چلی گئی تو بھلا اس سے اسمبلیوں سے استعفوں کا کیا جواز ہے؟ سب سمجھداروں نے روکا کہ قومی اسمبلی سے استعفے مت دیں مگر خان صاحب کسی کی ”مت‘‘ لیں تو بات بنے۔ خان صاحب کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور اس زعم کا شکار ہیں کہ انہیں دنیا کی ہر بات کا علم ہے۔ وہ دنیا کے ہر ملک کو اس ملک کے رہنے والوں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں اور دنیا کا کوئی علم ان سے پوشیدہ یا بچا ہوا نہیں ہے۔ وہ مغربی جمہوریت کی مثالیں تو دیتے ہیں مگر ان کے اندر جو ایک عظیم الشان ڈکٹیٹر چھپا ہوا ہے وہ کسی کو اپنے سامنے کھانسنے بھی نہیں دیتا۔ اوپر سے وہ جس نرگسیت کاشکار ہیں وہ الگ سے ایک مصیبت ہے۔جب کچھ سمجھدار اُن کو مشورہ دے رہے تھے کہ اسمبلی سے استعفے مت دیں تو ان کے قریب جو دوچار چاپلوس گھس بیٹھیے ہیں وہ غلغلہ مچا رہے تھے کہ استعفوں سے بہتر فیصلہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کی محبت میں گرفتار ان کے حامی بھی اس قدم کو دنیائے جمہوریت کا سب سے عظیم اور صائب فیصلہ قرار دے رہے تھے۔ پھر استعفے دے دیے گئے اور اس پر سپیکر کو خط پر خط لکھے گئے کہ ہمارے استعفے جلد از جلد قبول کئے جائیں۔ استعفے قبول کرنے میں حکومت نے لیت و لعل کیا تو وفد بھیج دیا کہ آخر ہمارے استعفے اب تک کیوں قبول نہیں کئے۔ اب یہ صورتحال کہ استعفے قبول ہو گئے ہیں تو خط پر خط‘ وفد پر وفد اور بیان پر بیان جاری کیا جا رہا ہے کہ ہمارے استعفے قبول نہ کئے جائیں اور ہمیں اسمبلی میں داخلے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ جس وقت ہر عقلمند انہیں یہ سمجھا رہا تھا کہ جمہوری تقاضا یہی ہے کہ اسمبلی میں بیٹھ کر اپنا جمہوری حق اور آئینی کردار انجام دیا جائے اس وقت خان صاحب کسی نامعلوم اثرات کے گھوڑے پر سوار تھے اور کسی کی رائے کو پرِکاہ کی حیثیت نہیں دے رہے تھے، اب منت ترلوں پر اترے ہوئے ہیں کہ ہمارے استعفے نامنظور کر کے ہمیں اسمبلی میں بیٹھنے دیا جائے۔ ان کی اس عظیم حماقت کا پہلا نقصان یہ ہوا کہ میاں شہباز شریف نے اپنی پاکٹ یونین قسم کی اپوزیشن کے نامزد اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض سے مل کر چیئرمین نیب کا تقرر فرما لیا اور ا سی راجہ ریاض سے مشاورت کر کے قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے نگران وزیراعظم کا تقرر فرمائیں گے۔ خان صاحب کو حسب معمول اپنی حماقت کا احساس کمان سے تیز نکل جانے کے بعد ہوا ہے۔
خان صاحب نے اپنی اس سیاسی غلطی بلکہ سیاسی بلنڈر سے کوئی سق حاصل نہ کیا اور پھر وہی حرکت دہراتے ہوئے پنجاب اور کے پی اسمبلی تحلیل کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مرکز سے جنگ کی صورت میں ان کے پاس جودو عدد مضبوط مورچے تھے اور جن میں وہ بڑے مزے سے پناہ لیے ہوئے تھے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے توڑ دیے اور انہیں جی بی کی پولیس پر بھروسا کرنا پڑ رہا تھا۔ مرکزی حکومت نے اب وہ سہولت بھی چھین لی ہے۔ یہ بات تو صاف ہے کہ پنجاب اور کے پی میں بننے والی نگران حکومتیں نہ تو غیر جانبدار ہیں اور نہ ہی ان کی موجودگی میں کسی قسم کے شفاف انتخابات کی کوئی توقع ہے۔ اس نگران حکومت کا پنجاب کی حد تک کسی غیر جانبداری سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ نگران کے نام پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مفادات کے نگران کے طور پر کام کر رہے ہیں لیکن یہ بھی عمران خان کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے وگرنہ اب بھی اس صوبے میں ان کی حکومت ہوتی اور انہیں جی بی سے پولیس اور اگلے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں کو کہہ کر اپنے لیے حفاظتی دستے نہ منگوانا پڑتے۔ یہی کام پنجاب پولیس سرانجام دیتی۔
میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا خان صاحب کو اپنی ان سیاسی غلطیوں کا ادراک اور اعتراف ہے؟ کیا وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم از کم اپنے ساتھیوں کے سامنے ہی سہی‘ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر سکتے ہیں؟ اپنی غلطیوں کا اعتراف بڑے پن کا ثبوت ہے۔ کیا خان صاحب اس بڑے پن کا ثبوت دے سکتے ہیں؟