ماڑہ بندہ کہاں جائے؟

حکومت دراصل ریاست کی انتظامیہ کا نام ہے۔ انتظامیہ کا کیا کام ہے؟ انتظامیہ کا بنیادی کام بروقت درست فیصلے کرنا اور پھر ان پر عملدرآمد کروانا ہے۔ ان درست اور بروقت فیصلوں کا دائرہ کار تمام تر ریاستی اداروں پر محیط ہے۔ نیک نیتی سے اور سوچ سمجھ کر کیے گئے بعض فیصلے بھی غلط ہو سکتے ہیں اور ان سے اختلاف بھی ممکن ہے لیکن فیصلوں میں تاخیر ایک ناقابلِ معافی انتظامی نالائقی ہے اور اس کا کوئی بھی جواز قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ خصوصاً ایسے فیصلے جن کا تعلق اداروں کے انتظامی امور سے براہِ راست ہو۔
یہ صرف حالیہ حکمرانوں کی نالائقی یا بدانتظامی نہیں بلکہ یہ گزشتہ کئی عشروں سے ہمارے حکمرانوں کا طرہ ٔامتیاز بن چکی ہے اور ہمارے اَن گنت سرکاری ادارے برسوں سے اپنے کُل وقتی سربراہوں سے محروم ہیں اور سارے کام ایڈہاک بنیادوں پر یا ایڈیشنل چارج پر رکھے گئے ان اداروں کے سربراہوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں اور بقول شاہ جی یہ صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ عارضی بنیادوں پر کام کرنے والا ادارے کا سربراہ ہر حکومتی حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے اسے فوراً سے پیشتر مان لیتا ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی اس عارضی سربراہی کو جاری رکھنا چاہتا ہے اور اس کیلئے وہ ہر جائز یا ناجائز حکومتی حکم کو من و عن مان کر اپنی تابعداری کا مظاہرہ کر کے حکومتی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح حکومت اور عارضی سربراہِ ادارہ انجمنِ امدادِ باہمی کے سنہری اصولوں کے تحت مل جل کر کام کرتے ہیں اور اس سارے بندوبست میں دراصل کوئی بھی مثبت کام نہیں ہوتا۔ صرف حکومتی ہدایات پر عمل ہوتا ہے اور یہ ساری ہدایات انتظامی بنیادوں کے بجائے سیاسی بنیادوں پر دی جاتی ہیں جس سے سیاستدان خوش رہتے ہیں‘ ادارے کا سربراہ اپنی نوکری کے مزے لیتا ہے اور ادارے کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے۔

شاہ جی کے بقول ملکِ عزیز میں صرف ایک ادارے کے سربراہ کی تقرری یا توسیع کے معاملے میں ہی پھرتیاں اور فکر مندیاں دیکھنے کو ملتی ہیں وگرنہ صورتحال یہ ہے کہ کئی ادارے سال ہا سال سے کل وقتی سربراہ سے محروم ہیں۔ نہ پچھلی حکومتوں کو اس قسم کی کوئی فکر لاحق تھی کہ ان لاوارث اداروں کے کل وقتی سربراہ مقرر کیے جائیں اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں کو اس قسم کی کوئی فکر ہے۔ اس پر وہی پرانا شعر یاد آ جاتا ہے کہ ”نہ انجن کی خوبی‘ نہ کمالِ ڈرائیور۔ چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے‘‘۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے اکادمیٔ ادبیات پاکستان سے ماہانہ وظیفہ حاصل کرنیوالے چند بزرگ ادیبوں سے ملاقات ہوئی تو انہیں اپنے ماہانہ وظیفے کی عدم فراہمی کے بارے میں خاصا پریشان پایا۔ اس قدر شدید مہنگائی میں جبکہ اچھے بھلے خوشحال لوگ تنگ و پریشان ہیں‘ بھلا چند ہزار روپے وظیفہ پانیوالے کا گزارہ کس طرح ہوتا اور پھر اوپر سے عالم یہ ہو کہ اسے یہ دس بارہ ہزار روپے ماہوار والا وظیفہ بھی نہ مل رہا ہو۔ پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ اکیڈمی کے تین سالہ کنٹریکٹ پر کام کرنیوالے کل وقتی چیئرمین ڈاکٹر محمد یوسف خشک کی تعیناتی کا دورانیہ ختم ہو چکا ہے اور وہ مورخہ تین مارچ 2023ء سے گھر جا چکے ہیں اور اب چیئرمین اکیڈمی آف لیٹرز کی پوسٹ گزشتہ تقریباً دو ماہ سے خالی ہے۔

چلیں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ ملک ِعزیز کا ایک ادارہ گزشتہ دو ماہ سے چیئرمین سے محروم ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ مستحق ادیبوں کو ملنے والا وظیفہ جو ہر تین ماہ بعد دیا جاتا ہے‘ پانچ ماہ سے انہیں نہیں ملا کیونکہ چیئرمین موجود نہیں تھا‘ لہٰذا ان وظائف کی ادائیگی کیلئے چیک پر دستخط کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ادیب اپنے وظیفے سے محروم ہیں بلکہ اکیڈمی کے کنٹریکٹ پر کام کرنیوالے ملازمین بھی دو ماہ سے اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں۔ اس مہنگائی کے دور میں اس بات کاا ندازہ لگانا یقینا مشکل نہیں کہ متاثرین جو کہ پہلے ہی نہایت مالی تنگی کا شکار ہیں‘ اس تاخیر کے باعث کس پریشانی کے عالم میں ہوں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین اچانک ہی بلا بتائے دفتر چھوڑ کر غائب ہو گئے ہیں جو سرکار کو ابھی تک اس عہدے کیلئے کوئی دوسرا شخص نہیں ملا؟ ظاہر ہے جب ڈاکٹر محمد یوسف خشک کی تین سال قبل مورخہ چار مارچ 2020ء کو اس عہدے پر تقرری ہوئی تھی تو سب کو علم تھا کہ وہ مورخہ تین مارچ 2023ء کو یہ عہدہ چھوڑ جائیں گے۔ اس کام کیلئے حکومت نے پورا ایک عدد محکمہ اور ڈویژن بنا رکھا ہے لیکن عالم یہ ہے کہ کئی ماہ پہلے اس عہدے کیلئے اشتہار دیا گیا اور درخواستیں طلب کی گئیں مگر اس کے بعد راوی خاموش ہے۔ درخواستیں دفتروں کی فائلوں میں پڑی سڑ رہی ہیں اور کسی نئے کل وقتی سربراہ کی تقرری کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں اور ادارے کے کنٹریکٹ والے ملازمین اور وظیفہ لینے والے ادیب اس حکومتی نااہلی کے سبب مالی مشکل کا شکار ہیں۔ اول تو حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر ادارے کے سربراہ کی مدت ِملازمت ختم ہونے سے پہلے ہی نئے سربراہ کے بروقت تقرر کا بندوبست کرے۔ سب کو علم ہے کہ نئے سربراہ کی تقرری کیلئے کتنا عرصہ درکار ہے اور وہ اس کے مطابق اپنا سارا پراسس بروقت شروع کریں۔ یہ نہ تو کوئی راکٹ سائنس ہے اور نہ ہی کوئی خفیہ فارمولا جو انہیں معلوم نہیں۔ اگر کسی صورت میں بروقت تقرری نہیں ہو سکتی تو پھر اس ادارے کے کل وقتی سربراہ کو اس وقت تک اس عہدے پر کام کرنے دیا جائے جب تک نیا سربراہ آ کر ادارے کی باگ ڈور نہیں سنبھال لیتا۔ جہاں تک پاکستان اکادمی ادبیات کا تعلق ہے اس کے کل وقتی سربراہ کے جانے کی بیورو کریسی کو بڑی خوشی ہوتی ہے اور کوئی نہ کوئی بیورو کریٹ اس دوران آ کر اس کرسی پر بیٹھ جاتا ہے اور مزے کرتا ہے۔ 1976ء میں قائم ہونے والے اس ادارے کے جز وقتی بیورو کریٹ سربراہوں کی تعداد اگر اس ادارے کے کل وقتی سربراہوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ بیورو کریٹس کے اس ملک میں مزے لگے ہوئے ہیں۔

اس وقت عالم یہ ہے کہ ملک کی درجن بھر سے زائد یونیورسٹیوں کے کل وقتی وائس چانسلر موجود نہیں۔ کئی جامعات تو سال ہا سال سے کل وقتی وائس چانسلرز سے محروم ہیں اور اس کی وجہ انتظامی بدانتظامی کے ساتھ ساتھ سیاسی بدانتظامی بھی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک میں ہر تعیناتی کے پیچھے سیاست ہے اور وائس چانسلر تو بہت بڑا عہدہ ہے۔ عالم یہ ہے کہ ملک میں اس وقت کسی سرکاری ادارے میں چپڑاسی کی نوکری کا حصول بھی سیاسی مداخلت کے بغیر ناممکن ہو چکا ہے۔ ایک طرف عالم یہ ہے کہ درجنوں جامعات وائس چانسلرز سے محروم ہیں اور ان کے تقرر کا سارا عمل انتظامی نااہلی اور نالائقی کے سبب رکا ہواہے‘کہیں اس عمل کو آگے چلانے کیلئے درکار سرچ کمیٹی نہیں بن سکی اور کہیں اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہیں ہو رہا۔ تاہم زور آوروں کے مزے ہیں۔ پاکستان کی ایک قدیم ترین اور بہت بڑی یونیورسٹی میں ایسا وائس چانسلر بھی ہے جو 2008ء سے یعنی گزشتہ پندرہ سال سے وائس چانسلر چلا آ رہا ہے اور سپریم کورٹ کے واضح حکم کے برعکس پینسٹھ سال تک ری ایمپلائمنٹ کی حد پانچ سال پہلے عبور کرنے کے باوجود اپنی سیٹ پر براجمان ہے۔ شنید ہے کہ اس کی مزید ایک ٹرم جو چار سالہ مدت پر مشتمل ہوتی ہے کیلئے فائل سیکرٹری زراعت پنجاب کو بھیجی گئی تھی لیکن ا س نے اس فائل پر دستخط کرنے کے بجائے اعتراض لگا دیا۔ ایک واقفِ حال نے بتایا کہ اس کے عزیز تگڑے ہیں لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ وائس چانسلر صاحب تو اپنے دفتر میں موجود ہیں لیکن سیکرٹری زراعت کا تبادلہ کر دیا گیا۔ یہ ملک آئین‘ قانون‘ قاعدے اور ضابطے کے بجائے زور آوروں کے دھکے سے چل رہا ہے۔ ماڑے بندے کی اس ملک میں کوئی جگہ باقی نہیں بچی۔ سمجھ نہیں آتی کہ ماڑا بندہ کہاں جائے؟