اپنا اپنا فلسفہ

نام کیا لکھنا‘ ہم دونوں چالیس سال پرانے دوست ہیں۔ یہ زمانہ طالب علمی کی دوستی ہے اور گزشتہ چار عشروں سے کسی قسم کے وقفے یا رابطہ ٹوٹے بغیر بڑے مزے سے چل رہی ہے۔ ہم صرف کلاس فیلو ہی نہیں بلکہ کلاس میں جو پانچ چھ قریبی دوستوں کا گروپ تھا‘ ہم اس میں تھے۔ میرے برعکس وہ خاصا پڑھاکو اور محنتی طالب علم تھا جبکہ میں سمسٹر سسٹم کے طفیل آخری رات سن کر پاس ہونے والوں میں سے تھا۔ یہ جو میں نے سن کر پاس ہونے والا لکھا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخری رات بھی میں پڑھنے کے بجائے سن رہا ہوتا تھا۔ ہم پانچ چھ دوستوں کا جو گروپ تھا‘ وہ امتحان سے پہلی رات امتحانی سلیبس کی دہرائی کرتا تھا اور اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ سب دوست امتحانی سلیبس کے ابواب (چیپٹرز) کو پانچ پر تقسیم کر لیتے تھے اور ہر بندہ اپنے ذمے والے چیپٹرز کو دہراتا تھا اور باقی دوستوں کو سمجھاتا بھی تھا۔ اس گروپ میں فدوی واحد ایسا فرد تھا جس کے ذمے کبھی کچھ نہیں لگایا گیا تھا کیونکہ سب کو علم تھا کہ میں نے صرف اور صرف سننا ہے‘ سنانا کچھ نہیں۔
تب ایم بی اے کی کتابیں اول تو مارکیٹ میں ملتی ہی نہیں تھیں اور اگر ملتی بھی تھیں تو اتنی مہنگی ہوتی تھیں کہ کسی عام آدمی کے لیے ان کا خریدنا ہی ممکن نہ تھا۔ ہمیں کورس کی کتابیں لائبریری سے ملتی تھیں تاہم وہاں بھی کتابیں طالب علموں کی تعداد کی نسبت بہت ہی کم ہوتی تھیں‘ اس لیے چار یا پانچ طالب علموں کا ایک گروپ بنا کر ان کو ایک ایک کتاب جاری کردی جاتی تھی۔ میں کلاس کا ایسا طالب علم تھا جس کی ان گروپس میں بڑی ڈیمانڈ تھی کہ سب کو علم تھا کہ میں نے گروپ کے دیگر ارکان سے کتاب نہیں مانگنی۔ اس کے عوض یہ طے تھا کہ وہ امتحان سے پہلی رات مجھے سارا کورس سنا دیا کریں گے۔ اس گروپ میں دو دوست کافی پڑھاکو تھے اور یہ ان میں سے ایک تھا۔ ایم بی اے کے بعد وہ ایک سرکاری کارپوریشن میں ملازم ہو گیا اور اپنی محنتی طبیعت اور معاملات کو بخوبی سرانجام دینے کی صلاحیت کے طفیل ترقی کرتا ہوا بڑے اچھے عہدے تک پہنچا۔ دو اڑھائی سال پہلے وہ ریٹائر ہوا‘ تاہم وہ فارغ نہیں ہے بلکہ دو چار کام پکڑ کر اپنے لیے مصروفیت نکال لیتا ہے۔ بچوں کی شادی کر چکا ہے اور اب اس پر بظاہر کوئی ذمہ داری نہیں۔ اسلام آباد کے پوش علاقے میں رہائش پذیر ہے اور بظاہر اتنا خوش باش‘ خوشحال اور آسودہ ہے کہ لگتا ہے اسے نہ کوئی فکر ہے اور نہ ہی کوئی پریشانی لاحق ہے اور ظاہر ہے ہم ایسا سوچنے میں حق بجانب بھی ہیں کہ سب کچھ اچھا ہی نہیں بلکہ بہت اچھا چل رہا ہے۔
سکردو سے واپسی پر اسلام آباد میں دو روز رُکا تو اسے ملنے چلا گیا۔ ایسی گپ شپ ہوئی کہ سفر کی ساری تھکاوٹ اُڑن چھو ہو گئی۔ ہم دونوں کافی پی رہے تھے جب اس نے مجھ سے اچانک سوال کیا کہ میں باہر کی امیگریشن کب لے رہا ہوں؟ میں اس کا سوال سن کر باقاعدہ ہکا بکا رہ گیا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ بھلا میں کیوں امیگریشن لوں گا؟ اور ویسے بھی اب اس عمر میں امیگریشن لینے کا کیا تُک بنتا ہے؟ وہ کہنے لگا تمہاری دو بیٹیاں باہر ہیں اور تم ان کی بنیاد پر آسانی سے امیگریشن لے سکتے ہو۔ میری اپنی امیگریشن کا کیس بھی بس منظور ہونے والا ہے۔ میرے لیے یہ بات پہلے سے بھی زیادہ حیران کن تھی۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ بھلا اسے اس عمر میں امیگریشن لینے کی کیا سوجھی ہے؟ یہاں اس کے پاس شاندار گھر ہے‘ بچے ماشاء اللہ سیٹ ہیں۔ مالی حوالے سے اسے کوئی پریشانی نہیں بلکہ باقاعدہ خوشحال ہے اور یہاں سارے یار دوست ہیں۔ کمپنی ہے‘ وسیع سوشل سرکل ہے اور معاشرے میں خاصا نام ہے۔ بھلا اسے یہ سب کچھ اس عمر میں باہر جا کر کہاں ملے گا؟ وہ کہنے لگا: اس کی بیٹی نے چند سال قبل امریکہ میں اس کی امیگریشن کا پراسیس شروع کیا تھا اور اب اس کا کیس بس فائنل ہونے والا ہے۔ پھر مجھے کہنے لگا: میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ تم بھی وہاں آ جاؤ گے تو اچھی کمپنی رہے گی۔
میں ہنسا اور اسے کہا کہ میں ملتان ہوتا ہوں اور تم اسلام آباد ہوتے ہو۔ ٹیلی فون کے رابطے اور ایم بی اے کے دوستوں پر مشتمل واٹس ایپ گروپ کی وساطت سے ہونے والے مستقل رابطے کے علاوہ ہم چھ‘ چھ ماہ ایک دوسرے سے یہاں نہیں مل سکتے تو بھلا امریکہ میں کہاں ملیں گے جہاں کی زندگی بالکل مختلف ہے۔ وقت ہمارا پابند نہیں اور فاصلے اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ پھر بھلا ہم امریکہ جا کر کیا کریں گے؟ ہم نہ وہاں فارغ رہ سکتے اور نہ ہی کام کے قابل ہیں۔ میری بیٹی نے ایک بار مجھ سے کہا کہ بابا جان! میں کچھ عرصے تک آپ کے گرین کارڈ کے لیے اپلائی کر دوں گی۔ میں نے کہا: مجھے اس گرین کارڈ کا کیا فائدہ ہوگا؟ میں نے کون سا یہاں آکر رہنا ہے؟ میں تو ادھر رہ ہی نہیں سکتا۔ میری عادات‘ میرے دوست‘ میرا زندگی گزارنے کا ڈھب اور میری سیلانی طبیعت بھلا یہاں رہنے کی کیسے متحمل ہو سکتی ہے؟ پھر میں یہاں آکر کروں گا کیا؟ میں تو زندگی بھر ملتان کو چھوڑ کر لاہور یا اسلام آباد رہنے کیلئے تیار نہیں ہوا تو ادھر کیسے رہ سکتا ہوں؟ تم ہسپتال چلی جاؤگی‘ بچے سکول چلے جائیں گے تو میں اس گھرمیں کیا کروں گا؟ ادھر امریکہ میں اعجاز بھائی‘ شفیق اور خالد منیر کے پاس جا کر بھلا کتنے دن گزار سکتا ہوں؟ صبح سے شام تک آپ لوگوں کی واپسی کے انتظار میں ادھر کھیتوں اور درختوں کے جھنڈ میں کتنا گھوم پھر سکتا ہوں؟ میں اگر ادھر آ گیا تو بمشکل چھ ماہ ہی جی پاؤں گا۔ ایک دن تم میلبورن سارہ کو فون پر بتاؤ گی کہ بابا جان رات بالکل خاموشی سے چلے گئے ہیں۔ سارہ گھبرا کر پوچھے گی کہ کہاں چلے گئے ہیں۔ پھر تم رونا شروع کر دو گی اور اسے کہو گی کہ وہ ہمیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اب بتاؤ ان کو کب پاکستان لے کر جانا ہے۔ ان کی وصیت تھی کہ ان کو پاک مائی کے قبرستان میں دادی اماں کے پاؤں کی طرف ماما کی قبر کے بائیں پہلو میں خالی جگہ پر دفن کرنا ہے۔
میں نے کہا کہ میں اپنے لیے ایمان کی سلامتی کے بعد سکون‘ قناعت اور محتاجی سے پناہ کی دعا مانگتا ہوں۔ اس محتاجی میں پیسے اور جسمانی محتاجی سے امان مانگتا ہوں۔ پاسپورٹ پر لمبی مدت کے ویزے لگے ہوئے ہیں‘ ٹکٹ کے پیسے ہوں اور سفر کی ہمت ہو تو بھلا امیگریشن لینے کی کیا ضرورت ہے؟ جب چاہوں آ سکتا ہوں اور جب چاہے کپڑے جھاڑ کر واپس جا سکتا ہوں۔ میرے دوست نے میری ساری بات بڑی تسلی سے سنی پھر کہنے لگا۔ امریکہ عالمِ کفر میں ہے اور ریاستیں کفر سے باقی تو رہ سکتی ہیں لیکن ظلم اور ناانصافی سے قائم نہیں رہ سکتیں۔ اس ملک میں رہنے کا بھی اب کوئی حال ہے؟ جن لوگوں پر عدل و انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے ان کے گھروں میں مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور ان کا ضمیر نہیں جاگتا۔ کسی عام آدمی کو نہ تحفظ ہے اور نہ حقوق حاصل ہیں‘ نہ انصاف میسر ہے اور نہ عزت و آبرو سلامت ہے۔ نہ سچ کہنے کی آزادی ہے اور نہ سچ بولنے کی سہولت باقی ہے۔ حتیٰ کہ اپنے نمائندے اپنی مرضی سے منتخب کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اچھا مکان‘ خوشحال زندگی اور فراغت جیسی نعمت اپنی جگہ لیکن انسان کو اس کے علاوہ بھی کچھ چاہیے جو یہاں میسر بھی نہیں اور اس کے حصول کے امکانات روز بروز مزید کم ہوتے جا رہے ہیں۔ زندگی کے آخری سال سکون کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں جو یہاں کسی طور ممکن نہیں۔ تم مرنے کے بعد اپنی مرضی کی جگہ پر سکون سے دفن ہونے کے خواہشمند ہو جبکہ میں زندگی کے میسر بقیہ ماہ و سال سکون سے جینا چاہتا ہوں۔ تمہاری باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہوں گی مگر امید ہے تم سے اگلی ملاقات ادھر اسلام آباد میں شاید نہ ہو۔ تمہارا اپنا فلسفہ ہے جبکہ میرا اپنا فلسفہ ہے۔