پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
جرنیل، جج، سیاستدان اور ریاست پاکستان
نہ جانے عمران خان نے کیسے جادوگر پاس رکھے ہیں کہ جو بھی اس کے قریب جاتا ہے تو اس کا گرویدہ ہوکر اس کی خاطر اپنی تو کیا اپنے اداروں تک کی عزت کو بھی دائو پر لگا دیتا ہے اور نہ جانے ان کے ہاں کونسی ایسی نحوست پائی جاتی ہے کہ جس نے بھی ان پر احسان کیا ، وہ انہی کے ہاتھوں رسوا اور بے عزت ہوا۔ جنرل کیانی کے دور میں جنرل پاشا نے عمرانی پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا لیکن پھر اسی عمران خان نے جنرل کیانی کے خلاف بیانات دئیے اور پوری حکومت میں جنرل پاشا کو پوچھا تک نہیں ۔ جنرل راحیل شریف نہایت شریف مشہور تھے لیکن جب ان کے دور میں عمران خان کی خاطر پہلے ڈی جی آئی ایس آئی ظہیرالاسلام نے لندن پلان کے تحت طاہرالقادری ، چودھری برادران اور عمران خان کو جمع کرکے دھرنوں کا پلان بنایا تو ان کی ساری نیک نامی بدنامی میں بدل گئی ۔ نئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اچھے بھلے فوجی افسر تھے لیکن جب انہوں نے عمراندار بن کر عمران خان کے لئے لاک ڈائون کرایا تو ان سے ایسے اعمال سرزد ہوئے کہ وہ عمران خان ہی کے محسن نمبرون جنرل قمرجاوید باجوہ کے ہاتھوں فوج سے قبل ازوقت رخصت ہوئے۔جنرل قمر جاوید سے میری جب پہلی ملاقات ہوئی اور جمہوریت، افغانستان، انڈیا اور خارجہ پالیسی سے متعلق ان کے خیالات سنےتو میں ششدر رہ گیا کہ فوج میں ایسا ہیرا بھی کہیں پڑا ہوا تھا لیکن جب باجوہ صاحب بوجوہ عمراندارجرنیل بن گئے تو عمران خان کی خاطر وہ کچھ کیا کہ اپنی ساکھ تو کیا فوج کی ساکھ بھی دائو پر لگا دی ۔اسی طرح جنرل عاصم باجوہ جی او سی وزیرستان اور پھر ڈی جی آئی ایس پی آر کے طور پر سب سے خوش گفتار اور ہر کسی کا دل موہ لینے والےفوجی مشہور تھے لیکن جب عمرانی حکومت کا حصہ بن کر پوری طرح عمراندار بنے تو ان کے خلاف ایسے اسکینڈلز سامنے آئے کہ انہیں گوشہ نشینی اختیار کرنی پڑی۔جنرل فیض حمید جب جی اوسی پنوں عاقل تھے تو کسی نے غلط حوالے سے ان کا نام نہیں سنا تھا۔ اسی طرح پی آر کے ماہر جنرل آصف غفور بھی جی او سی سوات کے وقت اچھے الفاظ سے یاد کئے جاتے تھے لیکن عمراندار بن جانے کے بعد ان دونوں نے عمران خان کی خاطر جو کچھ کیا، اس کا پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کے ہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جنرل باجوہ کی قیادت میں ان دونوں نے آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کو جس بھیانک طریقے سے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے اور ان کے نقادوں کو نمونہ عبرت بنانے کے لئے استعمال کیا، وہ ناقابل تصور تھا ۔ان دو اداروں نے مل کرعمران خان کی محبت میں میڈیا، عدلیہ اور نیب کو بے وقعت اور تقسیم کیا۔اپنے ریٹائرڈ جرنیلوں تک کو استعمال کیا۔ ان میں سے بعض یوں بے وقار کئے گئے کہ انہیں آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی میڈیا ونگ سے نوازا جاتا رہا ۔ آج یہی ریٹائرڈ جرنیل صاحبان ہیں کہ جن کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے اور وہ اپنی فوج اور قوم کے ذہنوں میں یہ غلط بات پھیلارہے ہیں کہ فوج اور عوام کے مابین فاصلہ عمران خان کے اقتدار سے باہر کئے جانے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام اور فوج کے مابین فاصلے ملٹری آپریشنز، مسنگ پرسنز اور پھر سب سے بڑھ کر عمرانی پروجیکٹ کے لئے تمام جینوئن سیاستدانوں اور صحافیوں کو ٹھکانے لگانے، ہر عمران مخالف سیاستدان ،جج اور صحافی کے خلاف فوجی وسائل اور طاقت استعمال کرنے اور ہر بات پر ہاں کرنے والے ابن الوقت بونوں کو ڈنڈے اور پیسے کے زور پر سیاستدان،جج اور صحافی بنانے کی وجہ سے فوج اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے ۔ ہمارے شعبے کی مثال لے لیجئے۔ اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ بیشتر جینوئن صحافیوں کو منظر سے آئوٹ کیا گیا اور آئی ایس پی آر کے اشاروں پر چلنے والے نووارداتیوں کو ہیرو بنا دیا گیا۔ حامد میر صاحب اور ارشاد بھٹی صاحب گواہ ہیں کہ 2018ء کے الیکشن سے چند روزپہلے ایک نشست میں جب جنرل باجوہ صاحب مجھے عمران خان کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے تھے تو میں نے ان سے التجائیں کیں کہ عمران خان کی خاطر آپ لوگ جو کچھ کررہے ، وہ نہ کریں ورنہ بعد میں اس پر آپ پچھتائیں گے ۔ تب وہ عشق عمران میں اس قدر مبتلا تھے کہ میری کسی بات سے اتفاق نہیں کیا۔ جب تباہیوں کا کچھ احساس ہوا تو بطور ادارہ نیوٹرل بننے کا فیصلہ کیا لیکن افسوس کہ اس کے بعد بھی نیوٹرل نہ بن سکے بلکہ ریٹائرمنٹ تک وہ عمران خان کو رعایتیں دلواتے رہے ۔ فوج کواس وقت جومشکلات درپیش ہیں اس کی بڑی وجہ عمران خان کے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بھی جنرل باجوہ کا ان کے لئے نرم گوشہ تھا لیکن آج عمران خان نے انہیں نمبرون نشانہ بنایا ہوا ہے اور میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ وہ جلد جنرل فیض حمید اور جنرل آصف غفور کے ساتھ بھی یہی کچھ کریں گے۔
المیہ یہ ہے کہ اب یہ سیاست، صحافت یا عدالت کا معاملہ نہیں رہا بلکہ ریاست کی بقا کا معاملہ بن گیا ہے۔ سیاست میں تقسیم پہلے بھی رہی لیکن ریاستی ادارے فیصلہ کن موڑ پر ریاست بچا لیتےتھے۔اب کی بار عمران خان، عمراندار جرنیلوں ، عمراندار ججز اور عمراندار میڈیا پرسنز کے ذریعے جو پولرائزڈماحول پیدا کیا گیا ہے، اس کی وجہ سے ریاست کو ایک رکھنے والے اداروں کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ سب سے زیادہ معلومات رکھنے والے ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم نے بھی پارلیمنٹ کے سامنے بریفنگ اور کئی دیگر مواقع پر ذمہ داران کے سامنے ان خدشات کا اظہار کیا اور سب سے یہ کہا کہ معاملات کو سیاست نہیں بلکہ ریاست اور ریاستی اداروں کو درپیش خطرات کے آئینے میں دیکھیں کیونکہ پاکستانی ریاست کو خطرہ بیرونی دشمنوں سے کم اور اندرونی خلفشار سے زیادہ ہے ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے اس تجزیے کے تناظر میں ہر طبقے اور شہری کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ صرف سیاست،پاپولرز م اور عصبیت کی عینک اتار کر موجودہ حالات کو ریاست اور ریاستی اداروں میں پیدا کردہ تقسیم کے آئینے میں دیکھے کیونکہ جب تک پچھلے دس سالوں میں کئے گئے ان بھیانک بیلنڈرز کی تلافی نہیں کی جاتی اور عدل کے تقاضوں کے طور پر ہر فرد اور ادارے کو اس مقام پر نہیں لایا جاتا جس پر وہ پہلے بیٹھا تھا یا پھر جو اس کا آئینی مقام ہے تو اس ریاست کے وجود کو سنگین ترین خطرات لاحق رہیں گے۔یوں صرف اہل سیاست اور اہل صحافت نہیں بلکہ ججز ، حاضر سروس فوجیوں اور بالخصوص ریٹائرڈ جرنیلوں سے بھی التجا ہے کہ اگر انہیں یہ ریاست چاہئے تو وہ اپنے مفادات اور تعصبات کی عینکیں اتار کر اس قضیے کو ریاست کے آئینے میں دیکھیں ورنہ خاکم بدہن کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔