پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
شہباز شریف ہی مجرم کیوں؟
میاں شہباز شریف کے بارے میں زیرنظر تجزیہ کافی دنوں سے دل میں تھا لیکن ان کی وزارت عظمیٰ میں نہیں لکھ سکا کہ کہیں اسے خوشامد نہ سمجھا جائے ۔ پہلے تو یہ بڑا اعزاز ان کے حصے میں آیا ہے کہ وہ باعزت طریقے سے وزیراعظم ہائوس سے رخصت ہوگئے کیونکہ بہت کم لوگ یہاں سے رسوا ہوئے بغیر رخصت ہوتے ہیں۔ عموما یہاں سے لوگ نکلتے نہیں بلکہ نکالے جاتے ہیں اور اکثر نکالے جانے کے ساتھ سیدھے جیل بھی چلے جاتے ہیں۔ لیکن میاں شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ انہیں گارڈ آف آنردے کر رخصت کیا گیا اور ان کی جگہ لینے والے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ان کے لئے گاڑی کا دروازہ تک کھولا۔وزیراعلیٰ کے بعد اب انہوں نے بطور وزیراعظم بھی ثابت کیا کہ وہ انتہائی محنتی اور بہترین منتظم ہیں۔ بطور وزیراعلیٰ انکے مزاج میں سختی زیادہ تھی اور پارٹی متعلقین یا بیوروکریٹ اس کی شکایت کیا کرتے تھے لیکن بطور وزیراعظم وہ اس خامی پر بھی بڑی حد تک قابو پاچکے تھے ۔آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے انہوں نے منت ترلہ تک کیا جس کا لوگوں نے مذاق اڑایا حالانکہ اس ملک میں اپنے لئے منت ترلہ ہر بندہ کررہا ہوتا ہے لیکن ملک و قوم کے لئے نہیں کرتا۔
کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ میاں شہباز شریف فرشتے ہیں ۔ ان کی ذات، طرز سیاست اور طرز حکومت میں بھی درجنوں خامیاں ہیں۔ لیکن جس طرح مسلم لیگ (ن) ، پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ غلطیوں کیلئے صرف شہباز شریف کو پنچنگ بیگ بنایا گیا ہے، میرے نزدیک یہ زیادتی ہے۔ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ علانیہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بناکے رکھنا چاہئے جبکہ باقی سب دوغلے پن سے کام لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے سولہ ماہ میں حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے درمیان اسٹیبلشمنٹ کی خوشامد اور اس کی سرپرستی حاصل کرنے کا مقابلہ رہا۔ اسٹیبلشمنٹ کی خوشی کے لئے جتنے بھی فیصلے ہوئے اس میں زرداری، مولانا، مینگل اور دیگر سب شریک رہے لیکن الزام صرف شہباز شریف کو دیا جارہا ہے۔ شہباز شریف کا شروع دن سے یہ بیانیہ رہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے مخالفت مول نہیں لینی چاہئے اور زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے لیکن اس بیانیے کی وجہ سے انہوں نے کبھی اپنے بھائی سے یا پارٹی سے بے وفائی نہیں کی۔ انہیں جنرل مشرف نے بھی یہ پیشکش کی اور جنرل باجوہ سے بھی کی کہ وہ اگر اپنے بھائی کو چھوڑ دیں تو انہیں وزیراعظم بنادیا جائے گا لیکن انہوں نے وزارت عظمیٰ لینے کی بجائے بھائی کے ساتھ وفاداری کی خاطر جیل جانے کو ترجیح دی ۔
وہ کوئی بڑا فیصلہ میاں نواز شریف کی مرضی کے خلاف کرتے ہیں اور نہ کرسکتے ہیں ۔ مثلا جب پیپلز پارٹی وغیرہ کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم اتحادبنایا گیا تو میاں شہباز شریف نے اس کی مزاحمت نہیں کی ۔ پی ڈی ایم توڑنے کا فیصلہ شہباز شریف نے نہیں کیا تھا بلکہ اس وقت کی فوجی قیادت کے ایما پر پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب نے ڈیل کرکے پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ لیکن زرداری جمہوریت کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں جبکہ میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے بندے ۔ اسی طرح 2018 کے بعد جعلی اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ پیپلز پارٹی کے ایما پر سب نے مشترکہ طور پر کیا اور یہ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ہورہا تھا لیکن پھر بھی وہ جمہوریت پسند اور شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے بندے قرار پائے۔ اسی طرح جب میاں نواز شریف کو بیماری کے وقت ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جارہی تھی تو یہ ساری بات چیت میاں صاحب کی براہ راست ہوئی تھی اور اس میں شہباز شریف کا کوئی کردار نہیں ۔ پھر جنرل قمرجاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کی حمایت کا فیصلہ بھی شہباز شریف کا نہیں بلکہ میاں نواز شریف کا تھا جس کے لئے سہولت کاری خواجہ آصف کررہے تھے ۔ جب اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی سہولت کاری سے تائب ہوگئی تو اسمبلی توڑنے کی بجائے اپنی حکومت بنانے کا فیصلہ تنہا شہباز شریف کا تھا اور نہ وہ ایسا کرسکتے تھے ۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لاکر اپنی حکومت بنانے کا فیصلہ شہباز شریف کا نہیں بلکہ میاں نواز شریف ،آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل اور باپ پارٹی کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ شہباز شریف بڑی پارٹی کا سربراہ ہونے کے ناطے وزیراعظم ضرور تھے لیکن اس حکومت میں زرداری سے لیکر مولانا تک اور اختر مینگل سے لیکر ایم کیوایم تک سب یکساں مستفید ہوتے رہے ۔ اس حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کی خوشی کیلئے جتنے بھی اقدامات کئے اس میں یہ سب یکساں حصہ دار تھے ۔ جتنی بھی ناخوشگوار قانون سازی ہوئی ، اس کی پہلے کابینہ منظوری دیتی رہی جس میں بلاول بھٹو ، اسد محمود اور دیگر کے علاوہ اختر مینگل کے نمائندے بھی بیٹھے رہے ۔ اس سیٹ اپ میں این ڈی ایم کے محسن داوڑ بھی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین تھے جن کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہوتا ہے۔ یوں اگر کسی کو حکومت کے کسی اقدام پر اعتراض ہوتا تو وہ ہمت کرکے حکومت سے الگ ہوجاتا لیکن مزے لوٹنے کے بعد اب ہر ایک میدان میں آکر کہہ رہا ہے کہ فلاں کام غلط ہوا اور فلاں فیصلے سے نقصان ہوا ۔نگران وزیراعظم کے لئے جو مشاورتی میٹنگ ہوئی اس میں مولانا فضل الرحمان، سردار اختر مینگل ، محسن داوڑ ، اے این پی اور حکومتی اتحاد میں شامل سب جماعتوں کے نمائندے شامل تھے ۔ ان سب نے مل کر میاں شہباز شریف کو اختیار دے دیا ۔یہ اعلان انوارالحق کاکڑ کے نام پر اتفاق سے پہلے میاں شہباز شریف نے پچاس سے زیادہ صحافیوں کے سامنے کیا تھا ۔ اگر وہ غلط کہہ رہے تھے تو کسی نے یہ وضاحت کیوں نہیں کی کہ انہوں نے میاں شہباز شریف کو اختیار نہیں دیا۔ پھر جب ان کے سامنے انوارالحق کاکڑ کا نام آیا توانہوں نے اس پر ہاں کردی ۔
اب جن لوگوں نے انہیں اختیار دیا تھا تو پھر اعتراض اور میاں شہباز شریف پر انگلی اٹھانے کا کیا جواز؟ ۔ یہ حقیقت بھی مدنظر رہے کہ اس نام پر ہاں انہوں نے میاں نواز شریف کی مرضی کے بغیر نہیں کی ہوگی ۔ اس تناظر میں دیکھیں تو میاں شہباز شریف ، دوسروں سے اس لئے اچھے قرار پاتے ہیں کہ وہ زمینی حقائق کو تسلیم کرکے دوغلے پن سے کام نہیں لیتے اور کھل کر اسٹیبلشمنٹ کو حقیقت مانتے ہیں جبکہ دوسری طرف باقی سب کا رویہ شہباز شریف والا ہے لیکن لوگوں کے سامنے ایسا جھوٹا تاثر دیتے ہیں کہ جیسے وہ تو بڑے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ حکومتی مزوں سے سب مستفید ہوئے لیکن اب جب حکومتی مزے ختم ہوئے تو اگر مگر سے کام لے کر سارا ملبہ شہباز شریف کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف نے جو کچھ کیا ،ہر چھوٹے بڑے معاملے میں میاں نواز شریف کی اجازت کو مدنظر رکھ کر کیا اور جو بھی حکومتی اقدامات اٹھائے ان میں یہ تیرہ جماعتیں برابر کی شریک رہیں۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ اس بات پر شہباز شریف کو تمغہ ملنا چاہئے کہ وہ سولہ ماہ تک پی پی پی، جے یو آئی، ایم کیوایم، بی این پی، باپ پارٹی اور دیگر کو ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب رہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی خواہشات اور مطالبات کا پہاڑ مارگلہ سے بلند ہے۔