پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
پاکستان کا المیہ کیا ہے؟
میں نے ہرمینس (Hermanus) کا ذکر کیا تھا‘ یہ شہر کیپ ٹاؤن سے 115 کلومیٹر کے فاصلے پر سمندر کے کنارے آباد ہے‘ اسے ڈچ کسان ہرمینس پیٹرز نے 1805 میں آباد کیا تھا‘آج بھی اس کی 80فیصد آبادی گوروں پر مشتمل ہے.
ہرمینس وہیل مچھلیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ اکتوبر میں روس میں سردیاں شروع ہوتی ہیں تو ساؤتھ افریقہ میں گرمیوں کا آغاز ہو جاتا ہے چناں چہ ٹھنڈے سمندروں کی وہیل مچھلیاں ہجرت کرتی ہیں اور ہرمینس پہنچ جاتی ہیں‘ یہ اگلے چھ ماہ یہاں قیام کرتی ہیں‘ہرمینس میں انڈے دیتی ہیں‘ بچے پیدا کرتی ہیں اور روس میں برف پگھلنے کا موسم شروع ہوتے ہی بچوں کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کر دیتی ہیں۔
وہیل کے بچے ماؤں کے ساتھ روس واپس جاتے ہیں لہٰذا یہ اپنی ہجرت کا راستہ پہچان لیتے ہیں اورباقی زندگی اکیلے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آتے جاتے رہتے ہیں‘ دنیا میں ہر سال پرندوں‘ جانوروں اور مچھلیوں کی چار بڑی ہجرتیں ہوتی ہیں‘ سردیوں کے پرندے لاکھوں کی تعداد میں ہر سال سائبیریا سے پاکستان کے صحرائی علاقوں میں آتے ہیں اور گرمیاں شروع ہوتے ہی واپس چلے جاتے ہیں۔
افریقہ میں ہر سال 30 لاکھ جانور جنوب سے سینٹر کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں‘ یہ ریوڑوں کی صورت میں نکلتے ہیں اور سرحدوں کو روندتے ہوئے کینیا پہنچ کر رک جاتے ہیں‘ یہ جب دوڑتے ہیں تو ان کے قدموں کی آواز سے دھرتی کانپتی ہے‘دنیا بھر سے ہزاروں سیاح ہر سال یہ منظر دیکھنے افریقہ جاتے ہیں‘ تیسری ہجرت سارڈین مچھلیوں کی ہوتی ہے‘ سارڈین مچھلیاں بھی کروڑوں کی تعداد میں ہر سال اٹلانٹک اور پیسفک اوشن سے ساؤتھ افریقہ کے شہر ڈربن آتی ہیں اور چوتھی نقل مکانی وہیل مچھلیوں کی ہوتی ہے اور یہ سلسلہ سیکڑوں یا پھر ہزاروں سال سے جاری اور ساری ہے یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے جانور‘ پرندے اور مچھلیاں کیوں ہجرت کرتی ہیں؟
اس ہجرت کی تین وجوہات ہوتی ہیں‘ موسم‘ خوراک اور تحفظ‘ دنیا کے تمام جانور‘ پرندے اور مچھلیاں جانتی ہیں موسم زندگی کا سب سے بڑا قاتل ہوتا ہے‘ہم نے اس قاتل سے بچنا ہے‘ دوسرا یہ خوراک کے اتارچڑھاؤ کو بھی جانتے ہیں اور تیسرا یہ اپنے اپنے بچوں کے تحفظ کو بھی سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں چناں چہ یہ بریڈنگ اور بچوں کی افزائش نسل کے لیے محفوظ ٹھکانے کی طرف نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔
ہم پاکستانیوں کے لیے اس سسٹم میں دنیا کی بہت بڑی سچائی چھپی ہوئی ہے اور وہ سچائی یہ ہے کہ جانور‘ پرندے اور مچھلیاں بھی موسم‘ خوراک اور سیکیورٹی کے لیے باقاعدہ پلاننگ کرتی ہیں‘ یہ زندگی کے چیلنجز کے مطابق اپنے اور اپنے بچوں کو ٹرینڈ کرتی یا کرتے ہیں‘ یہ موسم بدلنے سے پہلے نقل مکانی کرتے ہیں اور وہاں جاتے ہیں جہاں ان کی ضرورت کے مطابق خوراک ہوتی ہے‘ یہ وہاں انڈے اور بچے دیتے ہیں جہاں انھیں خطرہ نہیں ہوتا مگر ہم شاید من حیث القوم جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں‘ ہم موسم کی منصوبہ بندی کرتے ہیں‘ خوراک کی اور نہ ہی اپنی سیکیورٹی کی‘ ہمیں 75 برس ہو چکے ہیں مگر ہم نے ان 75 برسوں میں کسی بھی شعبے کے لیے پلاننگ نہیں کی‘ ہم میں اگرپلاننگ کی اہلیت ہوتی تو کیا آج ہماری یہ پوزیشن ہوتی؟ کیا ہمیں آج یوں در در بھیک مانگنی پڑتی؟
ہمیں ماننا ہوگا ہم بحیثیت قوم فیل ہو چکے ہیں‘ ہم خود کو دنیا کی عقل مند ترین قوم کہتے اور سمجھتے ہیں لیکن ہم میں سیلاب کی منصوبہ بندی کی بھی اہلیت نہیں ہے‘ہمیں ان سردیوں میں کتنی بجلی اور کتنی گیس درکار ہوگی‘ کیا ہمارے پاس اگلے سال کے لیے گندم‘ دالیں‘ چاول اور چینی موجود ہو گی اور ہمیں اگلے مہینے کتنی پیناڈول چاہیے ہوگی ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا‘ مجھے پچھلے دو ماہ میں ملک کی اہم شخصیات سے ملاقات کا موقع ملا‘ میری پچھلے ہفتے لندن میں میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار سے بھی دوسری ملاقات ہوئی‘ یہ بھی ملک کے بارے میں متفکر تھے‘ مجھے یہ فکر شہباز شریف‘ عمران خان‘ آصف علی زرداری‘ چوہدری شجاعت اور فوج کے اعلیٰ قائدین میں بھی دکھائی دیتی ہے لیکن ملک کو چلانا کیسے ہے؟
اس کے بارے میں کسی کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے‘ ہم نیچے سے لے کر اوپر تک کنفیوژ ہو چکے ہیں‘آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ ملک کے طاقتور ترین شخص سے دو سوال پوچھ لیں‘ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور آگے کا راستہ کیا ہے؟ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں اس کے پاس بھی ان دونوں سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہو گا؟ اسٹیبلشمنٹ ملک کا مضبوط ترین ستون ہے‘ کیا اس کے پاس ان دونوں سوالوں کا جواب ہے؟ کیا صدر‘ چیف جسٹس‘ وزیراعظم‘ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکرقومی اسمبلی جانتے ہیں ملک میں کیا ہو رہا ہے اور اس ملک کو مزید آگے کیسے چلایا جا سکتا ہے؟ کیا گورنر اسٹیٹ بینک‘ وزیرخزانہ اور وزیرخارجہ کچھ جانتے ہیں؟ میں دعوے سے کہتا ہوں ملک میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
ہم عمران خان سے اسٹارٹ کر لیتے ہیں‘ یہ نئے الیکشن چاہتے ہیں‘ سوال یہ ہے ان کے پاس کے پی اور پنجاب دو صوبوں میں حکومت ہے‘ یہ آج دونوں حکومتیں اور اسمبلیاں توڑ دیں‘ ملک میں نئے الیکشن ہو جائیں گے‘ یہ سیدھا راستہ اختیار کیوں نہیں کرتے؟ دوسرا ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے‘ ہم فرض کر لیتے ہیں وفاقی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ عمران خان کا مطالبہ مان لیتی ہے اور حکومت توڑ دی جاتی ہے تو سیلاب زدہ علاقوں میں فوری الیکشن کیسے ہوں گے اور اگر سال یا چھ مہینے تک یہ علاقے الیکشن کے قابل نہیں ہوتے تو اس دوران ملک کون چلائے گا؟ کیا ہم ایک طویل کیئر ٹیکر حکومت بنائیں گے اگر ہاں تو پھر آئی ایم ایف کے پیکیج کا کیا بنے گا؟
یہ فوراً معطل ہو جائے گا چناں چہ ملکی معیشت مزید ڈاؤن ہوجائے گی اور ملک ڈیفالٹ کر جائے گا‘دوسرا سوال کیا عمران خان موجودہ الیکشن کمیشن کے ذریعے الیکشن قبول کر لیں گے؟ اگر نہیں تو نیا الیکشن کمیشن کیسے بنے گا؟ اور اگر یہ سب کچھ بھی ہو جائے‘ نئے الیکشن بھی ہو جائیں اور عمران خان دوبارہ اقتدار میں بھی آ جائیں تو بھی یہ اتنی بڑی اپوزیشن‘ اسٹیبلشمنٹ سے شدید اختلافات اور گلوبل ری سیشن کے ساتھ ملک کیسے چلائیں گے؟ کیا عمران خان کے پاس ان سوالوں کے جواب ہیں؟
آپ اب میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے بھی پوچھیں آپ لوگوں کے غلط فیصلوں نے وفاقی حکومت کو 27 کلومیٹر تک محدود کر دیا ہے اور آپ اب صوبوں کی مدد کے بغیر وفاق کیسے چلائیں گے؟ دوسرا آپ ڈالر تک کنٹرول نہیں کر پارہے‘ آٹے‘ چینی اور کوکنگ آئل کی قیمتیں کنٹرول میں نہیں ہیں‘ پٹرول‘ بجلی اور گیس اب اپرکلاس بھی افورڈ نہیں کر پا رہی‘ سیلاب نے بھی رہی سہی کسر پوری کر دی ہے اور جنوری میں عوام پر بے روزگاری اور مہنگائی کا نیا تودا بھی گرے گا لہٰذا آپ اس صورت حال میں ملک کو آگے کیسے لے کر جائیں گے؟
آپ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ‘ عدلیہ اور پارلیمنٹ سے بھی یہ پوچھ لیں‘ کیا ملک اس وقت بند گلی میں نہیں ہے اور ہم اسے اس بندگلی سے کیسے نکال سکتے ہیں؟ میرا دعویٰ ہے ان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہو گا چناں چہ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن ہم بری طرح پھنس چکے ہیں‘ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔
ہمارے پاس اس صورت حال سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے آئین اور قانون کی حکمرانی‘ ہم آج فیصلہ کریں‘ کل کریں یا پھر مکمل تباہی کے بعد کریں لیکن ہمیں بہرحال اکٹھا بھی بیٹھنا ہوگا اور کسی ایک متفقہ لائحہ عمل کو حلف بھی بنانا ہوگا چناں چہ میری آخری درخواست ہے آپ گرینڈ ڈائیلاگ کریں‘ فوج سیاسی جماعتوں‘ عدلیہ اور بیوروکریسی کے ساتھ بیٹھے اور ملک کا اگلا بیس سال کا روڈ میپ طے کر دے‘ چپڑاسی سے لے کر آرمی چیف تک پاکستان کی ہر پوزیشن کے لیے ایس اوپیز طے کر دیے جائیں۔
عدلیہ‘ نیب‘ الیکشن کمیشن‘ ایف آئی اے اور پولیس کو مکمل خومختار بنا دیا جائے‘ یہ ادارے ریاستی اور سیاسی مداخلت سے مکمل پاک ہوں اور صدر‘ آرمی چیف اور وزیراعظم سمیت ملک کا ہر شخص ان کے سامنے جواب دہ ہو‘ کسی کو کسی قسم کا استثنیٰ حاصل نہیں ہونا چاہیے اور ہم اس کے ساتھ ہی ملک کو کاروبار کے لیے بھی اوپن کر دیں‘ ملک میں جو بھی شخص چاہے کمپنی بنائے‘ کاروبار کرے‘ ٹیکس دے اور کوئی ادارہ‘ کوئی شخص اس کو ڈسٹرب نہ کرے۔
آپ یقین کریں یہ ملک بچ جائے گا ورنہ ہم ہر تین سال بعد اسی صورت حال کا شکار ہوں گے‘ ملک کی ہر حکومت اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا چاہے گی اور اپوزیشن اپنی مرضی کا نام اٹھا کر عوامی جلسے کر رہی ہو گی اور ملک دلدل میں دھنستا چلا جائے گا لہٰذا ہمارے پاس صرف ایک ہی حل ہے‘ہم اکٹھے بیٹھیں اور ایک ہی بار سارے فیصلے کر لیں ورنہ آپ یقین کریں یہ ملک صرف ایک چنگاری کے فاصلے پر کھڑا ہے‘ صرف ایک گالی یا پتھر کی دیر ہے اور یہ ملک بکھر جائے گا‘ ہمیں ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔
ہم اگر انسان نہیں بنتے تو نہ بنیں لیکن ہمیں کم از کم وہیل مچھلیوں اور سائبیریا کے پرندوں سے تو بہتر ہونا چاہیے‘ یہ بھی اپنے اور اپنے بچوں کے بارے میں ہم سے بہتر فیصلے کر رہے ہیں جب کہ ہم پورے ملک کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ کر تماشا دیکھ رہے ہیں اور یہ اس وقت اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے اور یہ المیہ بھی روزانہ کی بنیاد پر ناسور بنتا چلا جا رہا ہے لہٰذا خدا خوفی کریں جناب! اب تو قدرت کی برداشت بھی جواب دے رہی ہے۔