پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
”الخدمت“ کی خدمات
نفرت اور پولرائزیشن کے اس ماحول میں مردان شہر میں الخدمت فائونڈیشن کے زیراہتمام یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے لئے قائم کئے جانے والے ادارے (آغوش) کی ڈونر کانفرنس میں شرکت میرے لئے روحانی بالیدگی اور امید کا وسیلہ ثابت ہوئی۔ میں چونکہ جماعت اسلامی کے تمام اداروں میں سب سے زیادہ الخدمت کی خدمات کامعترف ہوں اور دامے درمے سخنے اس کے کام میں حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں اس لئے جہاں سیاسی اور سماجی تقریبات میں شرکت سے گریز کرتا ہوں، وہاں میری کوشش رہتی ہے کہ الخدمت، اخوت، سیلانی فائونڈیشن، دارالسلام ٹرسٹ اور اسی طرح کی انسانی خدمت اور قومی تعمیر کے لئے سرگرم عمل دیگر تنظیموں کی تقریبات میں شریک ہوسکوں۔ اگرچہ صحافتی مزدوری اور اس سے منسلک مصروفیات کی وجہ سے بہت مشکل ہوتا ہے لیکن جہاں ممکن ہو، میں وقت نکالنے کی ضرور کوشش کرتا ہوں۔ مردان نے چونکہ مجھے بچپن اور جوانی میں آغوش دی، اس لئے اس کا نسبتاً اپنے اوپر زیادہ حق سمجھتا ہوں اور پچھلے سال کی طرح اس سال بھی الخدمت فائونڈیشن مردان کی ڈونرز کانفرنس میں شرکت کے لئے گیا۔کرکٹر فخرزمان (جو آغوش کے اعزازی سفیر بھی ہیں) اور راقم اس تقریب میں مہمان تھے لیکن جب میں نے وہاں اے این پی سے تعلق رکھنے والے سابق ایم این اے اور موجودہ مئیر حمایت اللہ مایار کو موجود پایا تو میری خوشی دیدنی تھی۔ ان کی یہاں موجودگی اس بات کی علامت تھی کہ جہاں سیاست اورصحافت قوم کو ٹکڑوں میں بانٹ رہی ہے وہاں خدمت اسے جوڑبھی رہی ہے۔جہاں سیاست اور صحافت نفرتیں پیدا کررہی ہیں وہاں خدمت محبتوں کو جنم دیتی ہے۔ یہاں جماعت اﷰسلامی اور اے این پی کے رہنمائوں کا ایک نیک کام کے لئے ایک اسٹیج پر بیٹھنا اور ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات کا اظہار کرنا دراصل ہمارے پاکستانی روایتی کلچر کا اظہار تھا اور پی ٹی آئی یا پھر اس کے سرپرستوں کے ذریعے پولرائز کئے گئے ماحول میں یہ بیٹھک اپنے اصل کی طرف واپسی کی ایک علامت تھی۔ اس سے بڑی بات کیاہوسکتی ہے کہ اے این پی کے حمایت اللہ مایار نے نہ صرف الخدمت فائونڈیشن کے منصوبے”آغوش“ کے لئے بیس کنال زمین فراہم کی ہے بلکہ یہاں پر دیگر لوگوں سے الخدمت کے ساتھ تعاون کی اپیل بھی کی(واضح رہے کہ شوکت خانم پشاور کے لئے زمین اے این پی کے امیر حیدر ہوتی نے دی تھی)۔ دوسری طرف مایا رصاحب یہ اعلان بھی کرتے رہے کہ وہ ایک ورکر کی طرح الخدمت کے اس نیک کام میں تعاون کریں گے ۔ جواب میں الخدمت کے منتظمین (جن کا بنیادی تعلق جماعت اسلامی سے ہے) نے اپنے رہنمائوں کی اتنی عزت افزائی نہیں کی جتنی کہ اے این پی کے حمایت اللہ مایار کی کی ۔ اسی طرح دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور مردان کی تاجر برادری کے روح رواں احسان باچا بھی پروگرام میں مہمان نہیں بلکہ میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔سب سے منفرد بات یہ تھی کہ مردان کے ٹرانس جینڈرز کی تنظیم کے سربراہ بھی موجود تھے جو خود بھی خدمت خلق کا کام کرتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن کے کاموں کو سیاسی تفریق سے بالاتر رکھنے پر اس کے ذمہ داران خراج تحسین کے مستحق ہیں اور جواب میں حمایت اللہ مایار جیسے جولوگ جماعت اسلامی کا ذیلی ادارہ ہونے کے باوجود الخدمت فائونڈیشن کے ساتھ اس طرح تعاون کررہے ہیں، اس پر ان کی اس فراخدلی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔
اس روح پرور تقریب جس میں الخدمت کے زیر کفالت سینکڑوں یتیم بچے بھی موجود تھے، کے موقع پر جو گفتگو کی اس کے بنیادی نکات کچھ یوں تھے۔
زکوۃ، انفاق فی سبیل اللّٰہ اورمحروم طبقات کے ساتھ تعاون کی تلقین ہمارے دین نے کی ہے جب کہ مواخات کی مثال ہمارے نبی ﷺ نے قائم کی تھی لیکن افسوس کہ آج مغرب نے ہمارے اس وصف کو اپنا لیا ہے جب کہ ہم نے چھوڑدیا ہے ۔ مغرب کی ترقی کا اصل عامل یہ ہے کہ وہاں کے اہل ثروت نہ صرف ٹیکس کی صورت میں عوام تک اپنی دولت کا ایک حصہ منتقل کرتے ہیں بلکہ اکثر صاحبانِ ثروت نے چیریٹی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ نماز کے بعد قرآن میں زیادہ تلقین زکوۃ اور انفاق کی کی گئی ہے لیکن افسوس کہ آج چیریٹی کے لفظ کا آغاز مسیحیت سے منسوب ہو چکاہے ۔ مغرب کے بل گیٹس کی چیریٹی پاکستان تک پہنچتی ہے جب کہ پاکستان کے کھرب پتی کاروباری لوگ، سیاستدان، جج اورجرنیل ہل من المزید کا نعرہ لگارہے ہیں ۔ اس ملک میں دولت کی کمی نہیں بلکہ اس کی غیرمنصفانہ تقسیم مسئلہ ہے اور اگر ہمارے صاحبانِ ثروت غریبوں کو ان کا حق لوٹا دیں تو یہاں کوئی غریب نہیں رہے گا۔میں ایک غریب گھرانے سے اٹھا اور ملک یا دنیا بھر کے امیروں کے طرز زندگی کو دیکھا لیکن اللّٰہ گواہ ہے کہ مجھے ان میں سے کسی کی زندگی پر رشک نہیں آتا۔ مجھے رشک آتا ہے تو عبدالستار ایدھی پر آتا ہے ، اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب پر آتا ہے ، الخدمت کے خالد وقاص چمکنی اور تاج ملوک جیسے لوگوں پر آتا ہے کیونکہ ہم اہل سیاست اور اہل صحافت قوم کو تقسیم کررہے ہیں جب کہ یہ لوگ قوم کی تعمیر کررہے ہیں ۔ ہم الزام تراشی اور غیبت یا انسانوں کی حق تلفی کے ذریعے گناہ کمارہے ہیں جب کہ یہ لوگ ایک ایک انسان کی زندگی کی تعمیر کی صورت میں جنت میں گھر بنارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کی خدمت نہ صرف آخرت میں سرخروئی کا ذریعہ ہے بلکہ دنیا میں بھی عزت کا وسیلہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کا سب سے سادہ انسان عبدالستار ایدھی توپوں کی سلامی کے ساتھ دفن کیاگیا۔یوں تو پاکستان میں بہت سے فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں اور بہت سارے لوگ انفرادی حیثیت میں بھی خدمت خلق کاکام کررہے ہیں اور جس صاحب ثروت کا جس تنظیم یا جس فرد پر اعتماد ہو، اسے اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے لیکن الخدمت فائونڈیشن کئی حوالوں سے منفرد ہے ۔ باقی ادارے یا افراد کسی خاص شعبے میں کام کرتے ہیں لیکن الخدمت کا کام کئی شعبوں کا احاطہ کرتا ہے ۔ دوسری انفرادیت یہ ہے کہ الخدمت کے پاس قربانی کے جذبے سے سرشار ہزاروں خدائی خدمت گار ہیں جو سیلاب اور زلزلے جیسی آفات کی صورتوں میں اپنی زندگیاں دائو پر لگا کر ایک جذبے اور مشن کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ڈونر کو یہ شرح صدر حاصل ہونا چاہئے کہ اس کی دی ہوئی رقم میں کوئی گڑبڑ نہیں ہوگی بلکہ یہ متعلقہ ضرورت مندوں تک بھی پہنچے گی اور اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے گا۔