بائیں ہاتھ والوں سے جڑے دلچسپ مفروضات وحقائق

دنیا میں ہر فرد اپنی انفرادی حیثیت رکھتا ہے اور یہی انفرادیت تنوع پیدا کرتی ہے جو کہ زندگی کا حسن ہے۔

ہمارے اردگر اکثر لوگ یکسانیت کا احساس دلاتے ہیں لیکن کچھ لوگ قدرتی طور پہ ہی انفرادیت لے کر پیدا ہوتے ہیں، جنھیں دیکھ کر ہی بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ الگ ہیں۔ آپ نے اکثریت کو اپنا دایاں ہاتھ لکھنے اور کام کرنے کے لئے استعمال کرتے دیکھا ہوگا۔حیران کن طور پر اعدادو شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا کی صرف دس فیصد آبادی ایسے لوگوں پہ مشتمل ہے جو بائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔

بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے افراد کے حوالے سے چند دلچسپ قصے کہانیاں منسوب ہیں۔ پرانے وقتوں میں انھیں برائی کی علامت سمجھا جاتا تھا اورقدیم یونانی تو انھیں عفریت اور چڑیل جیسے ناموں سے منسوب کرتے تھے۔گو کہ اب پرانے وقتوں کی طرح بائیں باتھ والوں کو برا اور غلط نہیں سمجھا جاتا مگر اب بھی ان کے حوالے سے کچھ من گھڑت مفروضات لوگوں کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں اور ان مین سے کچھ حقائق کی جانب اشارہ بھی کرتے ہیں تو چلیئے ہم آپ کو ان کے متعلق بتاتے ہیں۔

تخلیقی صلاحیتیں
ایسے لوگ جو بائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں ان کے حوالے سے یہ مشہور ہے کہ وہ دائیں ہاتھ والوںکی نسبت زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں والے افراد میں مماثلت ہوتی ہے لیکن یہ مماثلت بائیں ہاتھ سے کام کرنے کی نہیں۔ یہ ایک مفروضہ ہی ہے کہ بائیں ہاتھ والے زیادہ تخلیقی ہوتے ہیں ، جو کہ عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے

۔سن 1995میں ایک تحقیق کی گئی جس کے نتیجے میں معلوم ہوا کے بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے مرد مشکل صورت حال میں زیادہ تخلیقی انداز میں سوچتے ہیں تاہم دائیں اور بائیں ہاتھ سے کام کرنے والی خواتین میں ایسا کوئی فرق معلوم نہیں ہو سکا۔ایک سائنسی جریدے کو انٹرویودیتے ہوئے معروف ماہر نفسیات کا کہنا تھا کہ جب آپ حقیقی معنوں میں تخلیقیت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اس کے بائیں ہاتھ والوں سے منسوب ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملتے۔

قائدین
آپ نے شاید یہ بھی سن رکھا ہو کہ بائیں ہاتھ والے افراد میں قائدانہ صلاحیتیں ہوتی ہیں۔اور بعض افراد تو اس لئے بھی اس من گھرٹ بات کو سچ ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ اس کی کچھ مثالیں مل جاتی ہیں جیسے امریکہ کے سابق بارہ صدور میں سے چھ بائیں ہاتھ والے تھے۔لیکن اس کے کوئی بھی سائنسی شواہد موجود نہیں۔اس کی بنیادی وجوہات دراصل لیڈروں اور ان کی تاریخی حیثیت سے متصل ہیں۔ماہرین نفسیات کے خیال میں اس کی ایک وجہ یہی ہوسکتی ہے وہ کامیاب لوگوں اور ان کے ہاتھ کے استعمال کو فرضی طور پر جوڑنے کی کوشش ہے۔

ذہانت
ذہانت کسی کی میراث نہیں ۔ یہ توخالق کی عطا ہے جسے چاہے اسے نواز دے مگر کچھ من گھڑت قصہ کہانیاں اس سے بھی منسوب ہیں ۔ جیسا کہ لوگوں کے خیال میں بائیں ہاتھ والے ذیادہ ذہین ہوتے ہیں، جو کے ماہرین کی نگاہ میں سراسر غلط ہے۔

ستر کی دہائی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں سات ہزار سکول جانے والے بچوں کا مشاہدہ کیا گیا جس میں دائیں اور بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی صلاحیتوں میں کوئی فرق واضح نہیں ہوا۔گو کہ بائیں ہاتھ والے مختلف انداز میں سوچتے ہیں کیونکہ دنیا ان کے لئے زیادہ دوستانہ جگہ نہیں، برتن، قینچی اور روزمرہ استعمال کی مختلف اشیاء دائیں ہاتھ والوں کے لئے استعمال میں آسان ہوتی ہیں مگر بائیں والوں کے لئے نہیں۔ سو وہ اپنے اندر لچک پیدا کر کے چیزوں کو اپنی سہولت سے استعمال کرنے کا سوچتے ہیں۔

خود میں مگن
ایک اور دلچسپ مفروضہ یہ بھی ہے کے بائیں ہاتھ کا استعمال کرنے والے دائیں ہاتھ والوں کی نسبت خود میں زیادہ مگن رہنا پسند کرتے ہیں۔سن 2013میں نیوزی لینڈ میں ایک تحقیق کی گئی جس میں دائیں اور بائیں ہاتھ والوںکی شخصیت کو جانچنے کے پانچ پیمانوں پہ جانچا گیامگر دونوں میں کوئی واضح فرق سامنے نہیں آیا۔ یہ فرسودہ دعوی کے دائیں ہاتھ والوں کی نسبت بائیں ہاتھ والے خود میں مگن رہنا پسند کرتے ہیںبے بنیاد ہی ہے۔

داہنے دماغ والے
جیسا کہ دائیں ہاتھ والے لوگ مختلف چیزوں مثلاً زبان کو سمجھنے کے لئے اپنے ذہن کا بائیاں حصہ استعمال کرتے ہیں تو لوگوں کا خیال ہے کے بائیں ہاتھ والے اس کے الٹ ہوتے ہیں اور وہ اپنے ذہن کا دائیاںحصہ استعمال کرتے ہیں۔ماہرین نے اس پہ تحقیق کی اور یہ نتائج سامنے آئے کے دائیں ہاتھ والے اپنے ذہن کا بائیاں حصہ 98فیصد استعمال کرتے ہیں تو 70فیصد بائیں ہاتھ والے بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ دونوں کے لئے دماغ کے حصہ مخصوص نہیں۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ بائیں ہاتھ والے بچے تب پیدا ہوتے ہیں جب مائیں دوران حمل زیادہ ذہنی دبائو کا شکار رہتی ہیں۔جبکہ سائنسدان تاحال یہ پتہ لگانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں کہ لوگ ایک کے بجائے دوسرے کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔بعض ریسرچز سے پتا چلتا ہے کہ حمل کے دوران ذہنی دبائو اور ماں کی عمر کا اس میں کچھ حد تک عمل دخل ہوتا ہے جیسا کہ جین ، ریڑھ کی ہڈی اور معاشرتی دبائو وغیرہ۔

کیابائیں ہاتھ والے ہمیشہ بیمار رہتے ہیں؟

حقائق:نیند
بائیں ہاتھ والوں کے حوالے سے یہ بھی منسوب ہے کہ انھیں نیند کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک چھوٹے پیمانے پر کی گئی تحقیق میں دائیں اور بائیں ہاتھ کا استعمال کرنے والوں کی نیند اور اس سے جڑے مسائل کا مشاہدہ کیا گیا۔ اور معلوم ہوا کے بائیں ہاتھ والوںکو دوران نیند 94 فیصد تک جبکہ دائیں والوں کو 69 فیصد نیند کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

ذہنی امراض
آپ نے یہ بھی سن رکھا ہوگا کہ دائیں ہاتھ والوں کی نسبت بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کو زیادہ تر ذہنی امراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک تحقیق سے معلوم ہوا کے ایسے افراد جو ذہنی ابتری، نفسایتی مسائل جیسا کہ، موڈ ڈس آرڈر، ڈپریشن، بائی پولر ڈس آرڈراور شیزوفرینیا کا شکار ہوتے ہیں عموماً بائیں ہاتھ والے ہوتے ہیں۔

محقیقن نے ایسے افراد کے گروہوں کا مشاہدہ کیا جو کے نفسیاتی مسائل کے لئے مختلف کلینکس پہ آتے تھے اور ان میں سے شیزوفرینیا کا شکار 40فیصد افراد بائیں ہاتھ والے تھے۔تاہم محقیقین تاحال سے اس سے مزیدکھوج کرنے کے خواہش مند ہیں۔

جڑواں بچے زیادہ تر بائیں ہاتھ کا استعمال کرنے والے ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جڑواں اور ہم شکل بچے بائیں ہاتھ والے ہوتے ہیں

بائیں ہاتھ والے کھیلوں میں تیز ہوتے ہیں ، خصوصاً ٹینس اوربیس بال میں مضبوطی سے جم کر کھیلتے ہیں۔

یہ جلد بیماریوںکا شکار ہوسکتے ہیں۔
ہمہ جہتی سے کام لے سکتے ہیں۔

ان سب باتوں سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ چاہے کوئی سیدھے ہاتھ سے کام کرنے والا ہو یا الٹے ہاتھ سے وہ اللہ کی تخلیق ہے۔ اور خالق اپنی تخلیق کو بہترین بناتا ہے۔ ہر ایک کو کسی نہ کسی خاصیت سے نوازتا ہے۔ بحثیت انسان ہمیں ہر ایک کو قابل عزت جاننا چاہیئے۔کیونکہ تغیر سے ہی کائنات کا حسن برقرار ہے!