معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا!
آپ نے وہ کہانی سن رکھی ہوگی کہ اسحق ڈار 7سال لند ن میں جس قاضی خاندان کے گھر رہ کر پڑھتے رہے ، سیاست ،پارلیمنٹ میں آنے کے بعد اسی قاضی خاندان کے شناختی کارڈوں پر انہوں نے شریف خاندان کیلئے جعلی بینک اکاؤنٹس کھولے ،قرضے لئے ،منی لانڈرنگ کی ، آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہو گی کہ مشرف مارشل لا کے بعد کیسے ڈار صاحب حدیبیہ پیپر مل کیس میں شریفوں کیخلاف وعدہ معاف گواہ بنے ،کیسے 45صفحاتی اعترافی بیان میں سے 17صفحات اپنے ہاتھ سے لکھے ، جن کا لب لباب یہ کہ ’’ میں نے ساری منی لانڈرنگ شریفوں کے کہنے پر کی ‘‘ یہ علیحدہ بات کہ بعد میں وہ اس اعترافی بیان سے مکر گئے ، لیکن یہ وہی اعترافی بیان کہ جس کے بارے میں اسحق ڈار کے وکیل نے جب سپریم کورٹ میں کہا کہ ’’اسحق ڈار کا اعترافی بیان محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ‘‘ تو جسٹس کھوسہ بولے’’ یہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں وہ ثبوت جس کی کبھی تحقیق ہی نہیں کی گئی ‘‘خیر اس اعترافی بیان کی کیا تحقیق ہونا تھی، جب حدیبیہ پیپر مل کیس کا ہی مکو ٹھپ دیا گیا۔آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی جب ڈار صاحب سے ان کی بے شمار دولت، جائیدادوں کا پوچھا گیا تو یہ ایک عربی شیخ کا “To whom it may concern”ٹائٹل والا خط لے آئے، جس میں عربی شیخ فرمائیں ’’اسحق ڈار جون 2004سے جون 2005تک ایک سال کیلئے میرے مشیر رہے اور میں نے انہیں 83کروڑ فیس دی‘‘ یہ علیحدہ بات اس 83کروڑ کنسلٹنسی فیس کا کوئی بینک ڈیپازٹ ریکارڈ نہ کوئی بینک رسید، بس عربی شیخ کا ایک خط، اللّٰہ اللّٰہ خیرسلا ، آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی کہ ڈار صاحب کے آئی ایم ایف سے جھوٹ بولنے ،جعلی اعدادوشمار پیش کرنے پر پاکستان کو ساڑھے 5ملین ڈالر جرمانہ کیا گیا، جوبعد میں مشرف حکومت نے بھرا، آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی کہ کیسے ایک دن قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر اسحق ڈار نے کہا کہ ’’پاکستانیوں کے دو سوارب ڈالر سوئس بینکوں میںپڑے ہوئے اور یہی نہیں بلکہ اسحق ڈارنے قومی اسمبلی میں 40صفحاتی دستاویز لہرا لہرا کر پیپلز پارٹی والوں کو دکھا دکھا کر کہا کہ ہم سوئس بینکوں میں پڑا پاکستانیوں کا کالاد ھن واپس لانے کیلئے سوئٹزر لینڈ سے معاہدہ کرنے جارہے ،سوئس حکومت تمام معلومات دینے ،معاہدہ کرنے پر راضی ہوچکی ،یہ علیحدہ بات جب عمران ،قادری دھرنے شروع ہوئے، مسلم لیگ حکومت کو پیپلز پارٹی کی ضرورت پڑی تودوسو ارب ڈالر اور پاک سوئس معاہدہ پتا نہیں کہاں چلے گئے۔
آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی کہ 2016میں اسحق ڈار نے قوم کو یہ خوش خبری سنائی کہ ’’آئی ایم ایف کے اخبار ایمرجنگ مارکیٹس نے مجھے ایشیاکا ’’فنانس منسٹر آف دا ائیر‘‘ قرار دیا ہے مگر آئی ایم ایف بولا، اس اخبار سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں ، آپ نے بی بی سی کا پروگرام ’ہارڈ ٹاک ‘ بھی دیکھا ہوگا جس میں میزبان نے جب ڈارصاحب سے پوچھا کہ آپ اور آپکے خاندان کی دنیا بھر میں کتنی جائیدادیں تو ڈار صاحب بولے صرف ایک گھر لاہور میں ، میزبان نے کہا دبئی میں کوئی جائیداد نہیں ،بولے، ارے ہاں ایک گھر میرے بچوں کا دبئی میں بھی ہے، ڈار صاحب نہ صرف بیٹوں کے دبئی میں مبینہ پلازے بھول گئے بلکہ نیب کے کھاتوں میں موجود اپنے الفلاح ہاؤسنگ میں 3پلاٹ، اسلام آباد میں 6ایکڑ کا پلاٹ ، پارلیمنٹرین انکلیو میں دوکنال کا پلاٹ ، سینیٹ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک پلاٹ اورایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک پلاٹ بھی بھول گئے، آپ نے وہ کہانی بھی سن رکھی ہوگی کہ کیسے ڈار صاحب نے ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کیلئے کروڑوں ڈالر مارکیٹ میں جھونک دیئے، کیسے انہوں نے مہنگے ترین قرضے لئے ،اسکے علاوہ وہ ڈالر ڈار لطیفے، وہ 5سو ملین یورو سوا آٹھ فیصد سو د پر اوروہ اُس سعید احمد کو ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک لگانا، جس کے بارے میں اسحق ڈار نے نیب کو اپنے اعترافی بیان میں بتایا کہ وہ ان کے منی لانڈرنگ فیلو(وہی اعترافی بیان جس سے ڈار صاحب مکرچکے )۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کہانیاں جو پہلے کئی دفعہ سنی ،سنائی جا چکیں ، آج پھر سے کیوں یاد آگئیں ، یہ اس لئےیاد آگئیں کہ2017میں احتساب عدالت کے آمدن سے زیادہ اثاثے کیس میں فردِجرم عائد ہونے کے چند دنوں بعد لندن بذریعہ سعودی عرب جانے والے ڈار صاحب اب خیر سے واپس آرہے، مزے کی بات وہ بحیثیت وزیر خزانہ لندن گئے ،بیمار ہوئے، شاہد خاقان عباسی حکومت نے انہیں 3ماہ کی چھٹی دی ،وہیں وزارت سے مستعفی ہوگئے ، مزے کی بات لندن سے ہی ڈار صاحب سینیٹر منتخب ہوئے، مطلب وہ لندن میں بیٹھ کر اور اشتہاری ہوکر بھی سینیٹر منتخب ہوئے ، غریب آدمی بینک نہ جائے تو اس کا اکاؤنٹ نہیں کھلتا ، لیکن وہ لندن سے سینیٹر منتخب ہوگئے، مزے کی بات سینٹ آف پاکستان نے کمال حوصلے، صبرسے ان کا انتظار کیا کہ وہ تسلی سے اپنے سب کام نبٹاکر آئیں اورحلف اٹھا لیں ، مزے کی بات حالات بدلتے ہی عدالت نے انکے وارنٹ گرفتاری معطل کر دیئے اور اب وہ ملک وقوم کے درد میں ڈوبتی معیشت کو بچانے آرہے، مزے کی بات وہ سب جو 2018سے 2022کے دوران بتاتے ،سمجھاتے رہے کہ معیشت کا سواستیاناس اسحق ڈار کر گئے، آج وہی سب خوشی سے پھولے نہیں سمارہے کہ ڈار صاحب معیشت سنبھالنے آرہے، مزے کی بات مشکل ترین فیصلے مفتاح اسماعیل سے کروا لئے گئے مطلب قوم کو ذبح کروایا گیا مفتاح اسماعیل سے، اب گوشت بانٹیں گے ڈار صاحب اور مزے کی بات ڈار صاحب کی واپسی کو نواز شریف کی واپسی سے پہلے Testerسمجھاجارہا، خیر سب کہانیاں جھوٹی سمجھیں اور سب مزے چھوڑ کر یہ مزا لیجئے کہ جس پر جس دن فردِجرم عائد ہونا تھی وہ اسی دن وزیراعظم بن گیا، عدالتی مفرورآرمی چیف لگانے کا فیصلہ کررہااور اپنے ڈار صاحب واپس آرہے،آخر میں استادِ محترم افتخار عارف کے یہ دوشعر سن لیں ، باقی آپ جانیں اورآپ کا ملک جانے!
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا