معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ضرور سوچئے گا!
کون کہتا ہے ہم نے ترقی نہیں کی ،ہم نے 75سال میں ایسے ترقی کی کہ کما ل کر دیا ،1947میں ایک ملک تھا ،ہم نے دوبنا دیئے، ہمارے پاس ایک قائداعظم تھا ،اب ہر جماعت کے پاس اپنا اپنا قائداعظم ،ہماری آبادی 4کروڑ تھی ،آج 24کروڑ ،پاکستان بنا ڈالر ساڑھے 3روپے کا ،آج 240 روپے کا ،ہماری پہلی کابینہ گورنر جنرل قائداعظم ،وزیراعظم لیاقت علی خان سمیت 11وزیروں پر مشتمل ( تب مغربی ،مشرقی پاکستان ایک تھا، مطلب آج کا بنگلہ دیش بھی پاکستان تھا) آج آدھے پاکستان کی کابینہ 70وزیروں ،مشیروں پر مشتمل ،پاکستان بنا ملک پر قرضہ صفر آج قرضہ 50 ہزار ارب سے زیادہ، پاکستان بننے کے11سال بعد ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے ،آج 22ویں مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس پہنچے ہوئے ۔پاکستان بنا ہم صرف پاکستانی تھے ، آج ہم سندھی ، پنجابی، بلوچی ،پٹھان اور نجانے کیا کیا، آسان لفظوں میں 1947میں ایک قوم کو ملک کی تلاش تھی آج ایک ملک کو قوم کی تلاش، کبھی ہماری عدلیہ دنیا میں 20ویں نمبر پر تھی آج 140ملکوں میں 128 ویں نمبر پر، کبھی ہمارا پاسپورٹ 30 ویں نمبر پر تھا، آج چوتھے نمبر پر، یہ علیحدہ بات نیچے سے چوتھے نمبر ، کبھی ہم جرمنی کو قرضہ دیتے تھے، سعودی عرب کی مشکل وقت میں مددکرتے تھے ، بینکاری میں چین کو مشورے دیتے تھے، عرب ممالک صلاح مشورے کیلئے ہمارے پاس آتے تھے، اسلامی ممالک کے سربراہ بادشاہی مسجد لاہور میں بیٹھے ملتے تھے، آج ہماری شہرت کے یوں ڈنکے بج رہے کہ ہمارا حکمراںکسی دوست ملک کو فون کرلے تو بقول وزیراعظم شہباز شریف وہ دوست یہ سوچ کر فوراً چوکنا ہوجاتا ہے کہ ایہہ فیر کچھ منگے گا(یہ پھر کچھ مانگے گا)۔
کون کہتا ہے ہم نے ترقی نہیں کی ،ہم نے توایسے ترقی کی کمال کر دیا، کبھی عربی شیخ گھومنے ،شاپنگ کرنے کراچی آیا کرتے تھے ،آج ہم گھومنے، شاپنگ کرنے عربی شیخوں کے ہاں جاتے ہیں ، کبھی پی آئی اے دوسرے ملکوں کی ائیر لائنیں بنا، چلا رہی تھی، آج پی آئی اے خود کو نہیں چلا پارہی ، آسان لفظوں میں کبھی دنیا اس پر سفر کیا کرتی ،آج مجبوری نہ ہوتو پاکستانی اس پر سفرنہیں کرتے ، کبھی سب پاکستانیوں کا سب کچھ پاکستان میں تھا، آج ہر دوسرے صاحبِ حیثیت پاکستانی کا سب کچھ باہر، کبھی ہمارے حکمراں محمد علی جناح بیمارہوئے تو زیارت میں قیام کیا، آج ہمارے حکمراںکو نزلہ، زکام بھی ہو جائے توقیام وطعام ،علاج سب باہر ، کبھی ہمارے بیوروکریٹ صرف پاکستانی تھے، آج خیر سے 22ہزار کے قریب وہ بیوروکریٹس جن کے پاس دوسرےملکوں کی شہریت بھی اور ہاں دنیا بھر میں کہیں بادشاہت ،کہیں صدارتی نظام ، کہیں پارلیمانی نظام ،ہم نے 75سال میں صدارتی نظام ،پارلیمانی نظام ،مارشل لاء سب کچھ بھگتا لئے، ہمیں بادشاہت کی کمی اس لئے محسوس نہ ہوئی کیونکہ خیر سے ایک آدھ کو چھوڑ کر ہمارا جو جمہورا ،اقتدار میں آیا اس نے ہمیں بادشاہت کی کمی محسوس نہ ہونے دی، کبھی ہم صرف سرکارِ برطانیہ کے غلام تھے، آج ہم امریکہ، چین ،سعودی عرب ،آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک اور نجانے کس کس کے حسب ِ قرضہ ،حسب ِ امداد ، حسب ِ خیرات غلام ،کبھی کرپشن میں ہمارا نمبر 50واں ، آج ہم کرپشن میں 180ممالک میں سے 140ویں نمبرپر، کبھی ہم گندم ،چاول ،چینی ایکسپورٹ کرتے تھے آج ہم گندم ،چاول،چینی دالیں اور نجانے کیا کیا باہر سے منگوا رہے ، اسی طرح آپ سوچتے جائیں ،آپ کو ہر شعبہ ،ہر ادارہ ترقیوں کی انتہا پر ملے گا، لہٰذا ناشکرا پن نہیں ، شکرکریں جو ترقی ہم نے 75سال میں کر لی ، وہ دوسرے ملک سینکڑوںبرسوں میں بھی نہیں کر سکے بلکہ سچ پوچھیں تو کوئی ملک ایسی ذائقے دار ترقی کا سوچ بھی نہیں سکتا !کو ن کہتا ہے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ہمارے پاس 60فیصد نوجوان ، ہم نیوکلیئر طاقت ، ہمارے پاس دنیا کی چھٹی مضبوط، طاقتور فوج، ہمارے پاس 4موسم، ہمارے پاس ،سمندر،دریا ،نہریں ،زرخیز زمین ،ہمارے پاس صحرا ،پہاڑ ،درخت ،جھیلیں ، ہمارے پاس کوئلہ ،گیس ، سونا ،تانبا ، قیمتی دھاتیں ،ہمارے پاس موہنجوداڑو،ہڑپہ ،پنجہ صاحب،کرتار پور، ہمارے پاس گوادر، ہمارے پاس کے ٹو، ہمارے پاس فیصل آباد ،سیالکوٹ جیسے صنعتی شہر،ہمارے پاس دنیا کا بہترین جغرافیائی محل وقوع ، ہمارے پاس دنیا کے جانے مانے چاول ،مالٹے ،آم ،ہمارے پاس ریکوڈک جیسی سونے کی کان، ہمارے پاس نمک کی کانیں ،ہمارے پاس 11سو کلومیٹر سے زیادہ سمندر کی پٹی، کون کہتاہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ،اقلیت کو نکال کر ہمارے پاس کرپٹ ترین حکمراں ، ہمارے پاس نااہل ،نالائق،نکمی قیادت، ہمارے پاس ٹیکس چور، ذخیرہ اندوز تاجر ، اقلیت کو نکال کر ہمارے پاس جعلسازی ،دونمبری کی چیمپئن قوم ،ہمارے پاس آبادی بم آسان لفظوں میں ایک کمانے والا دس کھانے والے اور آسان لفظوں میں یہاں ہر پانچ سکینڈ بعد بچہ پیدا ہوجائے ، ہمارے پاس بے پیندے کی معیشت مطلب ہماری معیشت وہ برتن جس کا پیندا ہی نہیں ، ہمارے پاس اتنے قرضے کہ جو پید انہیں ہوئے ہم نے ان کا بھی ایڈوانس پکڑ لیا، ہمارے پاس ویژن لیس، کنفیوژ فیصلہ ساز ،ہمارے پاس اوپر سے نیچے تک ہر ادارہ ،ہر شعبہ بیڈ گورننس ،بیڈ پرفارمنس اور مس مینجمنٹ کے شاہکاروں سے بھرا ہوا، ہمارے پاس بڑے بڑے عہدوں پر بونے بیٹھے ہوئے، ہمارے پاس نا انصافی ،ظلم ،خواری، ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا کشکول ،ہمارے پاس طاقتوروں کی محافظ پولیس ،ہمارے پاس پیسے والوں کیلئے نظام انصاف ، ہمارے پاس چند گھروں اور چند جسموں میںسمٹی وہ جمہوریت جو ایک سطح سے نیچے آکر بانجھ ہوجائے، آسان لفظوں میں ہمارے پاس وہ جمہوریت جو ایک مخصوص طبقے کو ہی انڈے بچے دے، ہمارے پاس ایسا نظام جس میں عوام کیلئے ایک اچھا اسپتال نہیں ، ایک اچھا تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ یہ سب چھوڑ یں ، ہمارے پاس ایسانظام کہ 75سال بعد بھی عام آدمی کیلئے پینے کا صاف پانی نہیں ، لہٰذا کون کہتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ،ناشکرا پن نہ کریں ، شکر کریں ،ہمارے پاس تو وہ کچھ جو کہیں اور نہیں ،آخر پر بس اتنا کہنا 75 سال سے جس طرح کی ترقی ہم کررہے، کیا اسی طرح کی ترقی آگے بھی کرنی ہے اور جو کچھ ہمارے پاس کیا اسے ایسے ہی استعمال کرنا ہے، سوچئے گا اور ہاں اسلامی جمہوری پاکستان میں آج کتنا اسلام اور کتنی جمہوریت ،اس پر بھی سوچئے گا۔