ہوا میں اُڑنے والی دیوقامت مسافر بردار کشتی

روم: اٹلی کے ’لازارینی ڈیزائن اسٹوڈیو‘ نے ایک ایسی پرآسائش اور دیوقامت کشتی کا ڈیزائن پیش کیا ہے جو ہوا میں اُڑے گی اور پانی پر اُتر سکے گی۔ اسے ’ایئر یاٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

بنیادی طور پر یہ دو ایئرشپس کا مجموعہ ہوگی جنہیں درمیان میں ایک مرکزی ڈھانچے (hull) کے ساتھ جوڑا جائے گا۔

ان میں سے ہر ایئرشپ میں 2 لاکھ مکعب میٹر ہیلیم گیس بھری ہوگی جو اسے فضا میں بلند رکھنے میں مددگار ہوگی۔

دورانِ پرواز رفتار یا سمت تبدیل کرنے کےلیے اس میں چار بڑے پنکھے (روٹر) بھی نصب ہوں گے جو ایئر شپس میں لگی ہوئی بیٹریوں سے بجلی حاصل کریں گے جبکہ بیٹریوں کو ان ایئر شپس کی چھتوں پر نصب وسیع شمسی پینلوں سے چارج کیا جائے گا۔

لازارینی ڈیزائن اسٹوڈیو کے مطابق، اس ’ایئر یاٹ‘ میں 22 مسافر بہت آرام سے رہ سکیں گے۔

ایئر یاٹ کو ہوا میں بلند کرنے کےلیے اس میں بھری ہیلیم گیس کو پھیلنے دیا جائے گا جو ہوا سے ہلکی ہوکر اسے آہستہ آہستہ اوپر اٹھا لے گی۔

اس کے برعکس، جب یہ ہیلیم دباکر اس کی کثافت بڑھائی جائے گی تو ایئر یاٹ بھی بتدریج نیچے اترتی جائے گی۔

ایئر یاٹ کو ہلکے پھلکے لیکن مضبوط فائبر سے تیار کیا جائے گا جبکہ اس کے دائیں بائیں والی ایئر شپس کو آٹھ ’سرنگوں‘ کے ذریعے مرکزی حصے سے جوڑا جائے گا۔

جسامت کی بات کریں تو ایئر یاٹ میں ایئر شپس والے حصے کی لمبائی 492 میٹر ہوگی جبکہ درمیانی حصہ 262 فٹ لمبا ہوگا، جس کی چوڑائی 33 فٹ رکھی جائے گی۔

ایئر یاٹ دائیں اور بائیں حصوں میں مسافروں کےلیے پر آسائش کمرے ہوں گے جہاں وہ آرام کرنے کے علاوہ بڑی بڑی کھڑکیوں سے آسمان اور سمندر کا نظارہ بھی کرسکیں گے۔

درمیان والا حصہ شفاف ہوگا جس میں ماسٹر کیبن، عارضی آرام گاہ اور ڈائننگ ایریا ہوں گے جہاں سمندر سے آسمان تک 360 ڈگری کا مکمل منظر دیکھا جاسکے گا۔

ایئر یاٹ زیادہ سے زیادہ 111 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرسکے گی جبکہ اس کی بیٹریوں کو دو دن (48 گھنٹے) بعد چارج کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

البتہ، سمندر کی سطح پر اترنے کے بعد اس کی رفتار صرف 9 کلومیٹر فی گھنٹہ رہ جائے گی۔

ایئر یاٹ کے مسافر اگر چاہیں گے تو کشتی کے ذریعے ساحل تک جاسکیں گے اور اگر انہیں جلدی ہو تو اس کےلیے ایئر یاٹ کے مرکزی حصے کی چھت پر ایک عدد ہیلی پیڈ بھی موجود ہوگا جہاں سے وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر اپنی منزلِ مقصود کی طرف تیزی سے پرواز کرسکیں گے۔

اپنی تمام خوبیوں اور ماحول دوست خصوصیات کے باوجود، ایئر یاٹ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا خاصا مشکل ہوسکتا ہے کیونکہ آج بھی بیسویں صدی کے آغاز میں ایئر شپ ’ہنڈنبرگ‘ کے خوفناک حادثے کی یادیں کسی آسیب کی طرح مسلط ہیں۔

1937 کے اس سانحے میں جرمنی کی مشہور ایئر شپ ’ہنڈنبرگ‘ میں اچانک آگ لگ گئی تھی اور اس میں سوار 36 مسافر دیکھتے ہی دیکھتے جل کر خاک ہوگئے تھے۔

ایئر یاٹ کی راہ میں دوسرا بڑا چیلنج اس کا تفریحی مقصد اور پرواز کی لاگت ہے جو ممکنہ طور پر عام فضائی سفر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگی۔

اس وقت مختلف ادارے ایسی طاقتور اور ماحول دوست ’کارگو ایئرشپس‘ پر کام کررہے ہیں جو تجارتی سامان کو موجودہ بحری جہازوں کے مقابلے میں صرف 25 فیصد لاگت پر ایک سے دوسری جگہ پہنچاسکیں گی۔

کیا ایسی صورتِ حال میں کوئی شخص محض تفریح کی خاطر ایئر یاٹ میں سفر پر ہزاروں ڈالر خرچ کرے گا؟ فی الحال اس سوال کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔