پروجیکٹ عمران کا سبق

تاریخ کا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ ہماری طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے بھٹو کو تخلیق کیا جو بعد میں ان کے مقابلے میں آئے۔ پھر نواز شریف کو تخلیق کیا اور ان سے بھی تصادم ہوگیا۔عسکری اور جہادی تنظیمیں تخلیق کیں جو اس کیلئے وبال جان بن گئیں ۔ ویسے تو سب فوجی سربراہان کے اپنے اپنے حصے کے سیاسی گناہ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں لیکن جنرل محمد ضیاالحق کا پلڑا بہت بھاری ہے ۔ جنرل ضیا کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انہوں نے سیاستدانوں کو کرپشن کے راستے پر لگایا اور اس وقت ہم سیاستدانوں کی جس کرپشن کا رونا رو رہے ہیں، اس کا راستہ انہوں نے اسمبلی ممبران کیلئے فنڈز کا اجرا کرکے کھول دیا لیکن یہ کہنا بھی بالکل غلط ہے کہ عمران خان کو میدان میں اتارنے والے جرنیلوں نے کرپشن کی وجہ سے زرداری اور نواز شریف کو آئوٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کرپشن ہمارے فوجی جرنیلوں کا سیاستدانوں کو دبانے کیلئے ایک ہتھیار ضرور ہے لیکن ان کا مسئلہ نمبرون ہر گز نہیں ۔ کیونکہ اس حمام میں اب ہماری سوسائٹی کے سارے طبقات یکساں عریاں ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے سیاستدانوں کو مار پڑوانے اور بلیک میل کرنے کیلئے یہ فلسفہ گھڑ لیا تھا کہ کرپشن کی وجہ سے ان کی دہشت گردی کی جنگ متاثر ہورہی ہے لیکن بعدازاں وقت نے ثابت کردیا کہ ان کے دور میں جرنیلوں کی کرپشن بھی اپنی مثال آپ تھی ۔ زرداری کے ساتھ بھی اصل تنازع ان کی مبینہ کرپشن کا نہیں بلکہ یہ تھا کہ وہ سچ مچ حکمران بننا اور خارجہ پالیسی کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہ رہے تھے جبکہ نواز شریف کے ساتھ بھی اصل مسئلہ یہی تھا کہ وہ سچ مچ وزیراعظم بننا چاہتے تھے۔ کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ(ن) یا دیگر جماعتیں کرپٹ نہیں بلکہ کہنا یہ مقصود ہے کہ سیاستدانوں سے اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کرپشن کی تھی ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں کو کرپشن کے راستے پر ضیا الحق جیسے جرنیلوں نے لگایا ۔اگر یہ وجہ ہوتی تو نواز شریف کو ہٹا کر جنرل مشرف قاف لیگ اور ایم کیوایم کی سرپرستی کیوں کرتے؟ اگر یہ وجہ تھی تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور دیگر جماعتوں سے کرپٹ ترین لوگوں کو جمع کرکے جرنیلوں نے عمران خان کے ساتھ شامل کیوں کروایا؟۔ ملک کی تمام مافیاز(پراپرٹی مافیا، شوگرمافیا، کراچی کے کارپوریٹ سیکٹر کا مافیا اور لاہور و فیصل آباد کے صنعتی مافیاز کو کیوں ان کے ساتھ ملایا گیا؟ زرداری پر الزام یہ تھا کہ وہ حسین حقانی کے ذریعے امریکہ کے ساتھ مل کر اپنی حکومت کی بقا کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سازش کررہے ہیں لیکن اگر یہی وجہ تھی تو پھر سنتیا رچی جیسی مشکوک امریکیوں اور امریکہ ، برطانیہ ، کینیڈا اور سپین وغیرہ کی وفاداری کا حلف لینے والے انیل مسرت اور زلفی بخاری جیسے لوگوں کو عمران خان کے گرد کیوں جمع کیا گیا؟ حسین حقانی کے ساتھ امریکی عہدیداروں کے رابطوں پر معترض جرنیلوںنے زلفی جیسے بندے کے اسرائیل کے سب سے بڑے سرپرست اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کروشنر کے ساتھ براہ راست واٹس ایپ رابطوں پر انگلی کیوں نہ اٹھائی۔ نواز شریف پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ انڈیا کے ساتھ یاری لگا بیٹھا ہے لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ وہ سب بہانے تھے۔ مودی کے دورہ لاہورپر اعتراض تھا لیکن عمران خان کی طرف سے مودی کے دوبارہ منتخب ہونے کی تمنا پر اعتراض نہیں تھا۔جہاں تک ڈان لیکس کا تعلق ہے تو میں نے اس وقت بھی اسے من گھڑت ڈرامہ قرار دیا تھا اور آج بھی قرار دے رہا ہوں ۔ مختصر یہ کہ کرپشن، ڈان لیکس ، میمو گیٹس وغیرہ سب بہانے تھے، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور عوام میں جڑیں رکھنے والی جماعتیں نشانہ تھیں اور عمران خان کی صورت میں اپنے ایک کٹھ پتلی کو لاکر ہائبریڈ نظام لانا مقصد تھا۔ ویسے تو ہر سیاسی پروجیکٹ کی اسٹیبلشمنٹ نے کوئی نہ کوئی قیمت ادا کی لیکن عمرانی پروجیکٹ کیلئے سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ تمام سیاسی ، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگا دیا گیا اور یہ جو فوج اور عوام کی دوری ہے یہ دراصل پچھلے دو عشروں میں پیدا ہوئی ہے جسے عمران خان نے صرف کیش کیا۔ پھر عمرانی پروجیکٹ کیلئے میڈیا، عدلیہ اور نیب کی کریڈبیلٹی خاک میں ملا دی گئی۔لیکن تین سال میں اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ جس پروجیکٹ کیلئے انہوں نے سب سے بھاری قیمت دی ہے ، وہ ملک کیلئے بھٹو، نواز لیگ اور قاف لیگ وغیرہ سب سے بھاری ثابت ہورہا ہے ۔ چنانچہ اس کی غیرآئینی اور غیرقانونی سرپرستی ترک کردی گئی اور یوں ناجائز فوجی بیساکھیوں پر کھڑی ان کی حکومت دھڑام سے گر گئی لیکن جواب میں عمران خان نے وہ کچھ کیا جو جنرل باجوہ تو کیا جنرل فیض حمید وغیرہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ میچ فکسنگ کرکے پہلے یہ جھوٹ پھیلایا کہ میری حکومت فوج نے امریکہ کے ایما پر ختم کی اور اب اسی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ذریعے پاکستانی فوج کو بلیک میل کررہا ہے۔ پاکستان مخالف انڈین ریٹائرڈ میجر گوریو آریا نے کئی ماہ قبل کہہ دیا تھا کہ انڈین را اور فوج نے مل کر پاکستانی فوج کو ستر سال میں وہ نقصان نہیں پہنچایا جو عمران خان پہنچا رہا ہے۔ پہلے تو ہم سمجھ رہے تھے کہ شاید ان کی بات میں مبالغہ ہے لیکن دو روز قبل گرفتاری کے ردعمل میں عمران خان کے لوگوں نے ایک منظم منصوبے کے تحت جس طرح جی ایچ کیو،کورکمانڈر ہائوس اور سب سے بڑھ کر شہدا کی یادگاروں پر حملے کئے، اس نے نہ صرف انڈین میجر کی باتوں کو درست ثابت کیا بلکہ خود افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ ”جو کام ملک کے ابدی دشمن 75 سال میں نہ کرسکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے اس گروہ نے کر دکھایا “۔بہر حال یہ سبق ہے ہماری فوج کیلئے کہ وہ عمرانی پروجیکٹ کو بند کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سیاسی انجینئرنگ سے تائب ہوجائے۔عمرانی پروجیکٹ کیلئےانہوں نے جو گناہ کئے ،ان کی ممکن حد تک تلافی کرکے اپنے آئینی دائرے میں چلی جائے۔ سیاستدانوں کو بھی یہ توبہ کرنی پڑے گی کہ وہ کرپشن اور نااہلی کے ذریعے اپنے آپ کو دیگر ریاستی اداروں کیلئےترنوالہ بنائیں گے اور نہ ان کے کاندھوں کو استعمال کریں گے۔ اسی طرح ان صحافیوں، اینکرز، میڈیا مالکان اور ججز کو بھی توبہ کرنی ہو گی جو عمرانی پروجیکٹ کیلئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوئے۔ یہ توبہ کا وقت ہے، سب کیلئے اور توبہ قبول تب ہوتی ہے جب پہلے کئے گئے گناہ کی تلافی کی جائے۔ اسلئے توبہ کرکے پہلے فوج، ججز اور میڈیا کو اپنے اپنے حصے کی تلافی کرنا ہوگی۔