امدانی برادران: نوجوان سرمایہ کار جن کا منفرد کاروباری تصور دنیا میں مقبول ہوا

’میرا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔ ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے امریکہ گیا تو وہاں پر پہلے ایک کمپنی بنائی مگر سرمایہ کی کمی کی وجہ سے چل نہ سکی۔ دوسری کمپنی بنائی تو اس کے لیے بھی سرمایہ کی ضرورت تھی۔ پھر میں نے پاکستانی بھائیوں کی کمپنی ’اڈیپٹ وینچر‘ کو تجویز بھیجی تو انھوں نے قبول کر لی۔ اب میری کمپنی آگے بڑھ رہی ہے۔‘

بنگلہ دیش کے ظہیر موسیٰ، جو کچھ عرصہ قبل امریکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے گئے تھے لیکن اب دو پاکستانی نژاد بھائیوں کی مدد سے اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔

ظہیر موسی بتاتے ہیں کہ ’پہلی کمپنی کی ناکامی کے بعد میں نے ہمت نہیں ہاری۔ ایک اور کمپنی بنائی جس کا خیال کافی مختلف اور نیا تھا۔ ہم ان لوگوں کو، جو مختلف کمپنیوں میں کام کرتے ہیں لیکن انھیں نہیں پتا ہوتا کہ ان کی اصل تنخواہ کیا ہے، گائیڈ لائن فراہم کرتے ہیں۔‘

’اس کے علاوہ ہم انھیں تنخواہ اور مراعات کے حوالے سے بات چیت کرنے کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کرتے ہیں۔‘

’آئیڈیا مختلف ہونے کی وجہ اس کمپنی کے لیے بھی سرمایہ کا حصول مشکل ہو رہا تھا مگر ’اڈیپٹ وینچر‘ کے مالک بھائیوں محمد اور عمار امدانی کو میرا یہ منصوبہ بہت پسند آیا اور آج میری کمپنی آگے ہی بڑھتی جا رہی ہے۔‘

امدانی برادران نے صرف ظہیر موسیٰ کی کمپنی ہی کو سرمایہ فراہم نہیں کیا بلکہ انھوں نے تقریبا اڑھائی سال کے عرصے میں 40 مختلف کمپنیوں میں کامیاب سرمایہ کاری کی ہے۔ اتنے کم عرصے میں اتنی زیادہ کمپنیوں پر سرمایہ کاری کو غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے۔

یہ سرمایہ کاری زیادہ تر ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ نقل مکانی کرنے والے نوجوانوں کو فراہم کی گئی۔

امدانی بھائیوں کی اس منفرد کاروباری سوجھ بوجھ پر اس سال فوربز نے انھیں اپنے 30 سال سے کم عمر کاروباری افراد کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

محمد امدانی کہتے ہیں کہ ’ہم نے نقل مکانی کرنے والوں پر ٹیکنالوجی کے میدان میں سوچ سمجھ کر سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا جس کے اچھے نتائج نکلتے ہے۔ ایسا ہمارا ذاتی اور خاندانی تجربہ بھی ہے۔‘

پہلے ملازمت پھر کاروبار

امدانی بھائیوں کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے۔ محمد امدانی بتاتے ہیں کہ ’ہمارے والدین امریکہ منتقل ہوئے تھے۔ ہماری جڑیں اب بھی کراچی میں ہیں۔ کراچی میں ہمارے رشتہ دار اور دوست ہیں۔ ہم اکثر کراچی جاتے رہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے والدین مختلف کاروبار سے منسلک رہے جس میں صنعت کاری بھی شامل ہے مگر ہم بھائیوں کا آغاز ہی سے ذہن مختلف تھا۔ بچپن ہی میں ہم بھائیوں کی بات ہوتی تھی کہ ہم کچھ مختلف کاروبار کریں گے جس میں کمپنیوں میں سرمایہ کاری شامل تھی۔‘

محمد امدانی کہتے ہیں کہ ’ہم دونوں بھائیوں نے کم عمری ہی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کر لی تھی۔ میں نے لندن میں ایک سرمایہ کار کمپنی میں ملازمت اختیار کی جبکہ عمار نے امریکہ میں ایک اور سرمایہ کار کمپنی میں نوکری شروع کی۔‘

محمد امدانی کہتے ہیں کہ ’کسی سرمایہ کار کمپنی میں کام کرنا اور وہاں سے انفرادی طور پر نتائج حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

’عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نئے کام کا آغاز کرنے والوں کو کم از کم ایک سے دو سال کا وقت چاہیے ہوتا ہے اس سے پہلے کہ وہ کسی بھی آئیڈیا پر پہلی سرمایہ کاری کامیابی سے کروا سکیں مگر ہمارے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔‘

عمار امدانی کہتے ہیں کہ ’ہم لوگوں نے اپنی اپنی کمپنیوں میں آغاز ہی سے اچھے نتائج دینا شروع کر دیے تھے۔ کچھ ہی عرصے میں، میں نے بہت ہی کامیابی سے چار پانچ سرمایہ کاری کروالی تھیں جبکہ محمد نے اس سے بھی زیادہ کروالی تھیں۔ ہمارے نتائج بہت شاندار تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بہت چھوٹی عمر میں ان نتائج نے ہماری کمپنیوں میں ہماری اعلیٰ افسران کو بھی حیرت میں ڈال دیا تھا مگر ہمارے لیے یہ سب مشکل نہیں تھا کیونکہ ہم دونوں بچپن ہی سے اس پر بات کرتے رہتے تھے۔‘

’ظاہر ہے جب ہم اپنے والدین سے ایسے منصوبے کی بات کرتے تو یہ ان کو عجیب سا لگتا تھا مگر ہم جانتے تھے کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔‘

’پھر ہم نے اپنی کمپنی قائم کرنے کا فیصلہ کرکے اس پر فوراً ہی کام شروع کر دیا تھا۔ ہمارا منصوبہ واضح تھا۔ ہمیں پتا تھا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔‘

نقل مکانی کرنے والوں کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری

محمد امدانی کہتے ہیں کہ ’سرمایہ کار کمپنیاں اور سرمایہ کار عموماً نوجوانوں کی کمپنیوں کو ترجیح نہیں دیتے۔ نئے خیالات اور آئیڈیاز بھی پسند نہیں آتے۔ نقل مکانی کرنے والوں پر اعتماد بھی مشکل سے کیا جاتا ہے۔‘

’مگر ہم نے کچھ بنیادی اصول طے کر لیے تھے کہ ہم کن کمپنیوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ہمارا پہلا ٹارگٹ نوجوانوں کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے قائم کردہ کمپنیاں تھیں۔‘

محمد امدانی کہتے ہیں کہ ’ہمارے والدین کو امریکہ پہنچ کر کافی مشکلات اٹھانا پڑی تھیں۔‘

’عموماً کسی بھی ملک میں نقل مکانی کرکے جانے والے وہاں کے مقامی لوگوں سے کئی گنا زیادہ محنت کرتے ہیں۔ وہ اپنے کام، کاروبار پر تن من دھن لگا دیتے ہیں۔‘

اسی لیے امدانی برادران نے ایسے نوجوانوں کو ترجیح دی جو نقل مکانی کر چکے تھے۔ ’ہماری 85 فیصد سرمایہ کاری نقل مکانی کرنے والوں کی کمپنیوں ہی میں ہے۔‘

عمار امدانی کہتے ہیں کہ ’بنیادی اصول کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ آئیڈیا کیا ہے۔ اس آئیڈیا کو پرکھتے ہیں کہ کیا مستقبل میں اس کے بہتر نتائج نکلنے کا امکان ہے کہ نہیں۔‘

’دوسرا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آئیڈیا اور کمپنی کتنے زیادہ کاروبار دوست ہیں۔ اس کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ کمپنی کس طرح معاشرے میں بہتر اثرات چھوڑ سکتی ہے۔ ایسے کمپنی جو معاشرے میں بہت اچھے اثرات نہ چھوڑ سکے، ہم ان کے ساتھ کام نہیں کرتے۔‘

’ہم ایسی کمپنیوں کے ساتھ بھی کام نہیں کرتے جو تیزی سے آگے بڑھنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوں۔ اس وقت ہماری سرمایہ کاری سے 40 کمپنیوں میں تقریباً دو ہزار سے زائد لوگوں کو روزگار حاصل ہے۔ یہ معاشرے پر ایک مثبت اثر ہے۔‘

محمد امدانی کہتے ہیں کہ ’کسی بھی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا ایک مشکل اور پرخطر کاروبار ہے۔‘

’ایک غلط فیصلے سے سرمایہ ڈوب جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ہم بہت محتاط ہوتے ہیں۔ ہمیں تجاویز موصول ہوتی ہیں جن کا جائزہ لیا جاتا ہے اور شارٹ لسٹ کرتے ہیں۔ اگر کوئی سوالات ہوں تو وہ کرتے ہیں۔‘

’اس کے بعد کمپنی قائم کرنے والے سے ملاقات ہوتی ہے۔ ان کو سنتے اور سمجھتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو دوبارہ میٹنگ کرتے ہیں۔ ماہرین کی رائے بھی پوچھتے ہیں۔ پھر حتمی فیصلہ ہم دونوں بھائی مل کرتے ہیں۔‘

محمد امدانی کہتے ہیں کہ ’ہمیں سرمایہ کاری کے لیے پیسے مختلف سرمایہ کار فراہم کرتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم نے ملازمتوں کے دوران شاندار کارگردگی دکھائی اور پھر اس کے بعد اپنی کمپنی کے آغاز ہی سے ہمارے فیصلے نے صنعت میں بہتر نتائج دیے تو سرمایہ کاروں کا ہم پر اعتماد بڑھا اور وہ اپنے سرمایہ کو تحفظ دینے اور اس سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے ہماری کمپنی پر اعتماد کرتے ہیں۔‘

عمار امدانی کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔‘

’میرٹ ہمارے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے معاشرے پر مثبت نتائج ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ جس وجہ سے مارکیٹ میں ہم پر اعتماد بڑھتا جارہا ہے۔‘

محمد امدانی کہتے ہیں کہ ’ ابھی تک ہم نے پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کی مگر پاکستان ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ ہم چاہیں گے کہ مستقبل میں پاکستان میں بھی سرمایہ کاری کریں۔‘