ایک اور بھارتی استاد نے مسلمان طلبا کو نفرت کا نشانہ بنا ڈالا

دہلی کے ایک سرکاری اسکول کے چار طلباء نے اپنے ٹیچر پر فرقہ وارانہ تبصرہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ چاروں کا کہنا ہے کہ استاد نے اُن سے پوچھا کہ تقسیم ہند کے دوران ان کے اہلخانہ پاکستان کیوں نہیں گئے۔

دہلی پولیس نے طالب علموں کے اہل خانہ کی طرف سے درج کرائی گئی شکایتوں کی بنیاد پر سرودیا بال ودیالیہ ٹیچر ہیما گلاٹی کے خلاف کیس رجسٹرڈ کیا ہے اور فی الحال معاملے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

جمعہ 25 اگست کو دائر کی گئی شکایت میں کہا گیا ہے کہ ہیما گلاٹی نے بدھ کے روز مکہ مکرمہ میں واقع اسلام کے مقدس ترین مقام اور کتاب قرآن اور خانہ کعبہ پر تنقید کرتے ہوئے توہین آمیز تبصرہ کیا۔

شکایت میں ٹیچر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انہوں نے کہا، ’تقسیم ہند کے دوران آپ پاکستان نہیں گئے تھے۔ آپ ہندوستان میں ہی رہے۔ آپ کا ہندوستان کی آزادی میں کوئی حصہ نہیں ہے‘۔

طالب علموں کے اہل خانہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے اس طرح کے تبصرے اسکول کے اندر اختلافات کا باعث بن سکتے ہیں۔ انہوں نے ٹیچر کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔

اسکول میں دو طالب علموں کے والدین نے اے این آئی کو بتایا، ’اگر اس ٹیچر کو سزا نہیں دی جاتی ہے، تو دوسروں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ ان سے کہا جانا چاہئے کہ وہ صرف تعلیم دیں اور ان معاملات پر بات نہ کریں جن کے بارے میں انہیں علم نہیں ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ٹیچر کو اسکول سے ہٹایا جائے‘۔

ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق ’ہمیں شکایت ملی اور ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس معاملے کی جانچ جاری ہے، اب تک کی جانچ میں کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی ہے اور متاثرہ نے ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا ہے‘۔

گاندھی نگر اسمبلی حلقہ کے ایم ایل اے انیل باجپائی نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی اور تعلیمی حکام سے ٹیچر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے کا وعدہ کیا۔

دہلی کا یہ واقعہ اتر پردیش کے مظفر نگر میں اسی طرح کے ایک واقعہ سے مماثلت رکھتا ہے جہاں ایک وائرل ویڈیو میں اسکول ٹیچر اپنے طلباء کو ایک مسلمان لڑکے کو تھپڑ مارنے کے لیے کہہ رہی ہے اور مسلم کمیونٹی کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ بھی کر رہی ہیں۔۔

ٹیچر ترپتا تیاگی کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 323 (جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کی سزا) اور 504 (امن کو خراب کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین کرنا) کے تحت لڑکے کے اہل خانہ کی شکایت پر معاملہ درج کیا جاچکا ہے۔