کراچی کہانی اور بھینس کے آگے بین

کچھ دوستوں کو یہ شکایت رہی کہ میں کراچی کےبارے میں کبھی نہیں لکھتا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ مطلوبہ اعداد و شمار و تفصیلات موجود نہ تھیں اور اصل بات یہ کہ مجھے بچپن میں ہی سمجھا،بتا دیا گیاتھا کہ بھینسوں کے آگے بین بجانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہوتا ہے لیکن کسی مہربان نے ایک ’’فیکٹ شیٹ‘‘ بھجوائی ہے جو بہت الارمنگ اور شرمناک ہے۔

اس ’’فیکٹ شیٹ‘‘ کےمطابق سٹریٹ کرائم میں تیزی سے اضافہ جاری ہے۔پاکستان کے اِس اقتصادی مرکز میں ڈکیتیاں، رہزنیاں، لوٹ مار اورمار دھاڑ کے کیسز میں اندھا دھند اضافہ جاری ہے۔ پچھلے ڈیڑھ دو ماہ میں ڈکیتیوں کے 11000 واقعات ریکارڈ پر ہیں یعنی اوسطاً 245 ڈکیتیاں روزانہ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 3845 موبائل فون، 672 موٹر سائیکلیں، 20 کاریں چھینی جا چکیں۔ جرائم پیشہ لوگوں کے سامنے مزاحمت کے نتیجہ میں 80 لوگ زخمی ہوئے جبکہ پندرہ انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اطہر متین جیسے صحافی کو اس وقت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جب وہ بچوں کو سکول چھوڑ کرگھر واپس جا رہاتھا۔ شاہ رخ سلیم کو اس کے گھر کے آگے والدہ اور ہمشیرہ کی موجودگی میں نشانہ بنایاگیا اور بعدازاں معلوم ہوا کہ قاتل پولیس اہلکار تھا۔ مین کورنگی ہائے وے پر دن دہاڑے تقریباً 100 شہریوں کو لوٹا گیا۔

پچھلے سال کے اعداد وشمار بھی پریشان کن ہیں کہ ہزاروں موبائل اور بائیکس جبکہ سینکڑوں کاریں چھینی گئیں۔ جولاء اینڈ آرڈر کے چیچک زدہ چہرے پر بھر پور تھپڑ ہیں۔ ان تمام کیسز میں ’’ریکوری‘‘ کا تناسب بھی انتہائی شرمناک ہے۔ 2094 میں سے صرف 528 فوروہیلرز ریکور ہوئے اور 50841 میں سے صرف 2993 موٹر سائیکل بازیاب کرائے جا سکے۔

یاد رہے کہ اس طرح کے جرائم کے آفٹر اور سائیڈ ایفکٹس بھی انتہائی خطرناک ہوتے ہیں جن میں نفسیاتی اور سماجی زخم بھی شامل ہوتے ہیں جو حادثہ کے بعد بھی مدتوں برقرار رہتے ہیں۔ خوف، غصہ، تشویش، عدم تحفظ، خوداعتمادی کی ارزانی POST-TRAUMATIC STRESS DISORDER اور جذباتی عدم توازن جیسے گھمبیر اور پیچیدہ مسائل پورے معاشرے پر انتہائی منفی انداز میں اثر انداز ہوتے اور ہم جیسے ’’لاوارث‘‘ معاشروں میں ان کا علاج بھی ممکن نہیں ہوتا کیونکہ بیشتر حادثات کا شکار ہونے والے خود بھی نہیں جانتے کہ ان کی شخصیتوں میں کیسے کیسے گھائو لگ چکے ہیں۔ نتیجتاً کمیونٹیز کا سوشل بیلنس برباد ہوتا چلا جاتا ہے جو اقتصادی سرگرمیوں تک کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔

لاء اینڈ آرڈر کسی بھی صوبائی حکومت کا اولین فرض ہے جس میں ناکامی اس کے ہر کام کو داغدار کردیتی ہے۔ جہاں ماحول ہی سکون سے محروم، غیر یقینی پن کا شکار ہو وہاں پیداواری سرگرمیوں اور صلاحیتوں کو بھی زنگ لگنے لگتا ہے۔ اگر پولیس ہی اپنے بنیادی ترین فرائض میں بری طرح ناکام ہوتی دکھائی دے تو ظاہر ہے انجام کے بارے میں کسی پیش گوئی کی کوئی ضرورت نہیں۔ پولیس اگر صرف اشرافیہ کے پروٹوکول، خدمت اور حفاظت کا ہی نام ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے جبکہ یہاں تو خود چوکیدار بھی چوروں والے کاموں میں مصروف پائے جاتے ہیں۔ جرائم اور مجرموں کی سرکوبی کرنے والے ہی ان کی سرپرستی شروع کردیں تو وہی کچھ ہوتا ہے جو روشنیوں کے اس شہر کا مقدر بنتا چلا گیا۔

اس سے پہلے کہ مرض بلکہ امراض لاعلاج ہو جائیں اور ’’حکیم لقمان‘‘ بھی ہاتھ کھڑے کردے تو حکمرانوں کے لئے ضروری ہوگا کہ مندرجہ ذیل چند اقدامات پر غور فرمائیں۔

1: تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ان کے ساتھ مشاورت کویقینی بنایا جائے۔

2:مقامی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دے کر ان کی معاونت حاصل کی جائے۔

3:CPLC کو مضبوط اور ری ایکٹیویٹ کرنا بھی اشد ضروری ہوگا۔

4: بیرون شہر سے ’’امپورٹ‘‘ کئے گئے پولیس افسران اور اہلکاروں کی بھی سکروٹنی ہونی چاہیے۔

5: مقامی پولیس انٹیلی جنس کوبھی پوری طرح متحرک کرنا ہوگا۔

6: پولیس کی سپیشل برانچ کو بھی ٹائم لائن کے ساتھ اہداف دیئے جائیں۔ (خاص طور پر ریفیوجی کیمپوں کے حوالہ سے) اس کے علاوہ کچی آبادیوں کی مانیٹرنگ پر بھی خصوصی توجہ انتہائی اہم ہوگی۔

7:متعلقہ اداروں کو جدید تکنیکی سپورٹ کی سہولتیں یقینی بنائی جائیں اور اس سپورٹ کو تھانوں کی سطح تک پہنچایا جائے۔

8: CCTV نیٹ ورک کی توسیع اور مضبوطی کے بغیر کراچی جیسے شہر کا امن و امان بہتر کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔

9: غیر قانونی مہاجرین کو کیمپس تک محدود رکھنا اگر ممکن نہ ہو تو انکی کڑی نگرانی کو فول پروف بنایا جائے۔

10: جن عادی جرائم پیشہ لوگوں کی ضمانتیں ہو جاتی ہیں انہیں سختی سے مانیٹر کیا جائے۔

میں مختلف حوالوں سے کئی بار یہ عرض کر چکا ہوں کہ جہاں انسان ہوں گے وہاں جرائم اور گناہ بھی ہوں گے۔ ہدف ان کا مکمل خاتمہ نہیں کہ یہ ایک لاحاصل سعی ہوگی۔ اصل مقصد یہ ہے کہ جرائم کو پوری طرح سے کینڈے، کنٹرول میں رکھا جائے . . . . . یہ نہیں کہ جرائم پیشہ افراد مادر پدر آزاد،ٹوٹے ہوئے چھتروں کی طرح شتر بے مہار کی مانند بڑھتے ہی چلے جائیں۔

بے سُری ہی سہی، میں نے بھینس کے آگے بین بجا دی اور ایک بار پھر ان دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے فیکٹ شیٹ سے نوازا۔