وزیر اعظم کی تازہ تقریر

وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے سے لیکر اب تک کتنی تقریریں کی ہیں ؟ اتنی جتنی یاد رکھنا ممکن نہیں کیونکہ یوں بھی مہنگائی نے عوام کی مت مار رکھی ہے اور یاد داشت تو ان بیچاروں کی روز اول سے ہی کمزور ہوتی ہے لیکن سبز پرچم کے پہلو میں نیلا کوٹ قمیض پہن کر جو حالیہ یعنی تازہ تقریر کی گئی وہ واقعی دلپذیر، متوازن اور مدلل تھی جس میں ’’غصہ‘‘ کی مقدار بھی اتنی ہی تھی جتنی کھانے میں نمک کی ہوتی ہے ۔

عوامی عینک سے دیکھا جائے تو اس تقریر کی ہائی لائٹس میں ڈیزل اور پٹرول کا دس روپے فی لٹر سستا ہونا، بجلی فی یونٹ میں 5روپے کی کمی، احساس پروگرام وظیفہ میں 2000روپے کا اضافہ، کسانوں کو بغیر سود قرض، آئی ٹی سیکٹر کو ٹیکس کی چھوٹ، گریجویٹس کے لئے 30ہزار کی انٹرن شپ اور انڈسٹری لگانے والوں سے سوال نہ پوچھنا وغیرہ شامل ہیں ۔یہ بھرپور قسم کا پیکیج عوام کیلئے تھپکی، چند خواص کیلئے تھپڑ، اکثریت کیلئے قابل تعریف ریلیف اور ایک جونک نما اقلیت کیلئے باعث تکلیف ہو گا لیکن اس تاریخی پیکیج کے اہم ترین پہلو ہیں چین اور روس کے ساتھ تعلقات یعنی بیجنگ کے ساتھ سی پیک کے دوسرے مرحلہ پر اہم معاہدے

اور روس سے گندم اور گیس کی درآمد جن کے بارے وزیراعظم نے کہا کہ ان معاہدوں کے نتائج جلد ہی عوام کے سامنے آجائیں گے ۔حقیقت یہ کہ روس اور چین کے ساتھ یہ معاہدے عوامی ریلیف پیکیج سے بھی کہیں زیادہ اہم اور نتیجہ خیز ہوں گے لیکن اہم اور فیصلہ کن ترین بات جس کا حوالہ عمران خان نے دیا صرف اتنی سی ہے کہ ……

’’جن حکمرانوں کی دولت بیرون ملک پڑی ہو وہ کبھی آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتے ‘‘ مطلب یہ کہ جو آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتے وہ عوام دوست داخلہ پالیسیز بھی نہیں بنا سکتے ۔بظاہر بات بہت معمولی ہے خصوصاً ان لوگوں کیلئے جو اس قسم کی خودکشیانہ تھیوریوں پر یقین رکھتے ہیں کہ …’’اگر کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں ‘‘ کھانے اور لگانے کا یہ فلسفہ انتہائی احمقانہ اور اپنی آئندہ نسلوں کے ساتھ دشمنی اور غداری کے مترادف ہے کیونکہ ملکی وسائل لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں، بینک بیلنس اور سرمایہ کاریاں ملک کے ایک ایک عضو پر ضرب کاری کے برابر ہے جو ’’خودمختاری ‘‘ پر سمجھوتوں پر ختم ہوتی ہے اور پھر سب کچھ ہی ختم ہو جاتا ہے ۔عمران خان کو چاہئے تھا کہ اس کثیر الجہتی ’’واردات‘‘ کی تفصیلات سے عوام کو خبردار کرتا کہ ’’کھانے اور لگانے‘‘ والا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنی سادگی سے بیان کر دیا جاتا ہے لیکن خیر آج نہیں تو کل سہی ۔

پی ٹی آئی کے لوگ اکثر ملنے آتے رہتے ہیں اور میں ان سے یہ دو باتیں کرنا کبھی نہیں بھولتا کہ ان کا پہلا جرم یا غلطی بلکہ سنگین ترین بلنڈر یہ ہے کہ پارٹی نے ’’ہوم ورک‘‘ پر کو ئی توجہ نہیں دی اور آپ لوگ دھرنوں، احتجاجوں، جلسوں، مارچوں اور کنٹینروں کو ہی ’’کُل کام ‘‘ سمجھتے رہے جبکہ یہ جدوجہد کا صرف ایک حصہ تھا ۔دوسری غلطی یہ ہوئی کہ اقتدار کے بعد عمران خان کو چاہئے تھا کہ اعدادو شمار کے ساتھ پاکستانی عوام کو پوری طرح اعتماد میں لیتے ہوئے انہیں تفصیل کے ساتھ سادہ ترین انداز میں بتاتا کہ سابقہ حکمران پاکستان کے ساتھ کیا کیا کچھ کر گئے ہیں اور آج پاکستان کہاں کھڑا ہے ۔نہ صرف یہ کہ پہلی تقریر کا ’’مرکزی خیال ‘‘ ہی ملک کا ’’حال‘‘ ہوتا بلکہ اس پیغام کا ’’فالو اپ ‘‘ بھی یقینی بنایا جاتا ۔اس بات کو مختلف انداز سے دہرایا اور ہیمر کیا جاتا لیکن حکومت ادھر ادھر کی ہانکتی اور ’’چور ، ڈاکو، لٹیرے‘‘ کی خالی خولی تکرار اور گردان کرتی رہی، اصل بات ابھی تک باقی یا ادھوری ہے۔

تازہ ترین تقریر میں بھی عمران خان نے چند اشارے ہی دیئے ہیں جو نامکمل، ناکافی اور ادھورے ہیں۔ عوام بیچارے سادہ اور بھولے ہیں، مغز سے نہیں معدے سے سوچنے پر مجبور ضرور ہیں لیکن اتنے بھی بھولے نہیں کہ ’’فیکٹ شیٹ‘‘ سامنے ہونے پر بھی سیاہ و سفید کا فرق محسوس نہ کر سکیں ۔مجھے یقین ہے کہ اگر اس پر فوکس کر لیا جائے تو عوام اپوزیشن کی شکلوں سے ہی نہیں ناموں سے بھی الرجک ہو جائیں گے ۔

اور اب آخر پہ RUDYARD KIPLINGکا ایک ناقابل فراموش جملہ

“WORDS ARE THE MOST POWERFUL DRUG USED BY MANKIND

اور اگر ’’الفاظ‘‘ حقائق اور اعدادو شمار میں لپٹے ہوں تو ذرا اندازہ لگائیے ان کے اثرات کتنے دوررس اور گہرے ہوں گے۔