ہو بھی گیا تو کچھ نہیں ہو گا

مولانا ابو الکلام آزاد نے سید احمد شاہ بخاری کے ہاں کھانے پر مسلمانوں میں روح عمل کے فقدان پر بات کرتے ہوئے کوزے میں دریانہیں سمندر بند کر دیا ۔فرمایا،

’’تصوف کی کتابیں اور اولیا کے تذکرے پڑھو تو اس قسم کے واقعات اکثر نظر آئیں گے کہ ایک بزرگ محفل سمع میں بیٹھے تھے ۔مطرب نے یہ شعر پڑھا

کُشتگان خنجر تسلیم را

ہر زماں ازغیب جانے دیگراست

حضرت نے سن کر نعرہ مارا اور بیہوش ہو گئے۔ حضرت بایزید بسطامی بازار میں سے گزر رہے تھے۔ شام کا وقت تھا ایک امرود فروش کی ٹوکری میں صرف ایک امرود باقی رہ گیا تھا اور وہ اس کو اٹھا کر صدا لگا رہا تھا۔

’’لم یبقی الاالواحد، لم یبقی الا الواحد‘‘….. حضرت بسطامی نے نعرہ مارا اور بیہوش ہو گئے۔ حضرت فلاں نے ایک طوائف کو تائب ہونے کی تلقین کی تو جواباً اس نے یہ شعر پڑھا

درکوئے نیک نامی مارا گزر نداوند

گر تونمی پسندی تغیر کن قضارا

حضرت نے نعرہ مارا اور بیہوش ہو گئے۔ مولانا آزاد نے فرمایا ’’ایک زمانہ تھا کہ مسلمان نعرہ مارتا تھا تو دشمن بیہوش ہو جاتے تھے۔ پھر ایسا زمانہ آیا کہ مسلمان خود ہی نعرہ مارتا تھا اور پھر خود ہی بیہوش ہو جاتا تھا‘‘

یہ تو ہوگئی ہماری روحانیات کی ایک جھلک جو عشروں پہلے مولانا آزاد نے ہمیں دکھائی۔ باقی رہ گئی اقتصادیات، اخلاقیات تو اس میں ہمارے دیوالیہ پن و کنگالی سے کون واقف نہیں ؟ نجاسیات المعروف سیاسیات بھی جس طرح چوکڑیاں بھرتے ہوئے آئندہ نسلوں یعنی اقبال کے شاہینوں کی تربیت کر رہی ہے سب کے سامنے ہے ’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی‘‘….. اور اگر روشنی نہ بھی ہوئی تو ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ والا کیس تو سو فیصد پکا سمجھیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کیلئے لفظوں کے لانگڑی عموماً یہ تین لفظ استعمال کرتے ہیں ۔

قائدین ….رہنما….لیڈرز

واہ حکومت اور اپوزیشن، دونوں بڑھ چڑھ کر کیسے کیسے قوم کی تربیت نہیں فرما رہے ؟ جیسی روحیں ویسے فرشتے، جیسے منہ ویسی چپیڑیں، جیسے چیلے ویسے گورو، نجانے کون احمق بات بات پر بیچارے یہودوہنود کو بیچ میں گھسیٹ لاتے ہیں حالانکہ ان جیسوں کی موجودگی میں دشمنوں کی ضرورت کس کو ہے ۔نام ہی کافی ہیں ۔

نہ مائوں ،بہنوں، بیٹیوں کی پروانہ زندوں اور مردوں میں کوئی تمیز۔

اور یہ سب کچھ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہی نہیں ہو رہا بلکہ بکنی پہنے ہوئے جمہوریت کا حسن و جمال بھی ہے ’’اللہ کرے زور زباں اور زیادہ ‘‘ جسے دیکھو زبان سے اپنا شجرہ نسب بیان کر رہا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ ’’بیچارہ سیاست دان سافٹ ٹارگٹ ہے ‘‘ بندہ ان گائودیوں سے پوچھے کہ کیا صرف اور صرف سیاست دان ہی وہ اکلوتی مخلوق نہیں جس کا اکلوتا ’’ کلیم ٹو گلوری‘‘ ہے ہی ووٹ ورنہ باقی ہر کوئی اپنے بل بوتے پر آگے آتا ہے ۔کوئی جج ہو یا جرنیل، مصور ہو یا شاعر، ادیب ہو یا سنگتراش، وکیل ہو یا انجینئر، سائنس دان ہو یا ڈاکٹر، گلو کار ہو یا اداکار ، بیوروکریٹ ہو یا ٹیکنوکریٹ، پلمبر ہو یا الیکٹریشن، مستری ہو یا ترکھان غرضیکہ ہر کسی کی کوئی نہ کوئی کوالیفیکیشن ہوتی ہے اور یہ صرف سیاست دان ہی ہوتا ہے جس کے پلے سوائے ’’ووٹ‘‘ کے کچھ بھی نہیں ہوتا، یہاں تک کہ دیہہ جماعتاں پاس ہونا بھی ضروری نہیں اور اگر ہو تو ’’ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی‘‘ اس لئے سیاست دان کو ہی ’’ٹارگٹ‘‘ بھی ہونا چاہئے ۔

کان نمک میں جو گھستا ہے نمک کے ڈھیلے میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔شہباز گل پڑھا لکھا نفیس آدمی بلاول کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی، ماں، باپ، پھوپھی، کو کرپٹ اور اس کے مرحوم نانا کو غدار قرار دے رہا ہے ۔مرحومین کو ہی سپیئر کر دیتے، ادھربلاول خاتون اول سے لیکر علیمہ خان سے کم پر رکنے کو تیار نہیں تو مریم نواز کیوں پیچھے رہے ’’غصہ، اشتعال، دھمکیاں، گالیاں، زبان درازی …گھبرا گئے ہوناں؟‘‘ یہ ہے لیڈروں کی نئی نسل جو نئی نسلیں تیار کرے گی۔

یہ ہیں وہ لوگ ،وہ نابغے، وہ جمہوریئے، وہ قائدین، رہنما اور لیڈرز جن کے بارے غیوروباشعور عوام کا خیال ہے کہ انہیں منزل مقصود تک پہنچائیں گے ۔ترس آتا ہے ان لوگوں پر جن کا گمان ہے کہ گھمسان کا یہ رن ختم ہونے پر پاکستان میں حالات نارمل ہو جائیں گے۔ اللّٰہ کرے ایسا ہی ہو لیکن مجھے تو سنو بالنگ کے سوا کچھ اور ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

جیسے بہت سے باورچی کھانے کا حشر نشر کر دیتے ہیں، اسی طرح بہت سے مسخرہ نما مسیحا بھی مریض کیلئے بوسہ مرگ سے کسی طرح بھی کم نہیں ہوتے۔

کچھ ہو بھی گیا تو کچھ نہیں ہو گا زیادہ سے زیادہ یہی کہ فلم الٹی چلنے لگے گی۔