چینی سائنسدانوں نے کمپیوٹر کو ’سرکاری وکیل‘ بنا دیا

شنگھائی: چینی ماہرین نے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ایک ایسا نظام بنا لیا ہے جو بالکل کسی سرکاری وکیل کی طرح کام کرتے ہوئے ملزم کے خلاف ریاست کی طرف سے بھرپور وکالت کرتا ہے۔

شنگھائی کے محکمہ قانون میں ابتدائی آزمائشوں کے دوران اس نظام نے 97 فیصد درستگی کا مظاہرہ کیا، جسے اطمینان بخش قرار دیا جارہا ہے۔

تفتیش کی غرض سے اس نظام کو کسی فوجداری (کریمنل) مقدمے کی تمام تفصیلات فراہم کی جاتی ہیں جنہیں کھنگالنے کے بعد یہ ’’سب سے زیادہ مشکوک ملزم‘‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔

’’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘‘ کے مطابق یہ خودکار نظام فراڈ، جوئے، جان بوجھ کر حملے، چوری، کارِ سرکار میں مداخلت اور خطرناک ڈرائیونگ سمیت آٹھ اقسام کے جرائم شناخت کرسکتا ہے جبکہ اسی حساب سے مشکوک ترین ملزم اور جرم کی نوعیت کی نشاندہی بھی کرسکتا ہے۔

اس بارے میں چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ سرکاری وکیل کی جگہ نہیں لے گا، البتہ مقدمات کی کارروائی میں ان کی مدد اور رہنمائی ضرور کرے گا۔

واضح رہے کہ چین میں سرکاری وکلاء پہلے ہی مختلف مقدمات میں ’’سسٹم 206‘‘ کے نام سے شہرت رکھنے والے ایک سافٹ ویئر سے مدد لے رہے ہیں جو مصنوعی ذہانت سے لیس ہے۔

نیا نظام اسی سافٹ ویئر میں بہتری اور اضافہ جات کرکے تیار کیا گیا ہے جو کسی بھی کیس کی باریک ترین تفصیلات (پولیس رپورٹس، گواہوں کے بیانات اور شہادتوں وغیرہ) کو بڑی تیزی اور احتیاط سے ’’پڑھ‘‘ کر ان میں سے متعلقہ نکات منتخب کرتا ہے، ان کا تجزیہ کرتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ ملزم کو مجرم قرار دیا جائے یا نہیں۔

اس خبر کی اشاعت پر مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات سے وابستہ ماہرین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ اگر اس نظام نے غلطی سے کسی بے گناہ کو مجرم قرار دے دیا تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟

سرِدست یہ نظام آزمائشی مرحلے پر ہے جسے کئی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ہی بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے گا۔ ایسا کب ہوگا؟ فی الحال اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔