اردن سے انسانی نقوش والے ہزاروں سال قدیم پتھر دریافت

اردن: اردن کے ایک بے آب و گیاہ اور دورافتادہ علاقے سے اردنی اور فرانسیسی ماہرین نے انسانی نقوش والے پتھروں کا سب سے بڑا مجموعہ دریافت کیا ہے جسے ایک غیرمعمولی واقعہ قرار دیا گیا ہے۔

اردن کی وزارتِ آثاراور کے مطابق یہ نیولیتھک (یا جدید حجری عہد) کے آثار ہیں اور ایک بڑے رقبے پر پتھروں اور چٹانوں پر انسانی چہرے اور نقوش بنائے گئے ہیں اور یہ جنوب مشرقی اردن کے ایک لق و دق ریگستان میں دریافت ہوئے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک شکارگاہ تھی اور یہاں انسانی ہیولے کسی مذہبی رسم کے طور پر بنائے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقام کو قدیم انسانی مجسموں کا سب سے بڑا مجموعہ بھی کہا جاسکتا ہے۔

سب سے پہلے آثار اکتوبر 2021 میں دریافت ہوئے تھے جنہیں اردنی ماہرین محمد تراوینےاور وائل ابوعزیزے نے مشترکہ طور پر دیکھا تھا۔ دونوں ماہرین دس برس سے اس علاقے میں تحقیق کررہے ہیں۔

ان کے متعلق ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی کیا گیا ہے کہ شکاری تیزرفتار جانوروں کو یہاں دھیکتے تھے اور ان ہرن اور غزال وغیرہ یہاں آکر پھنس جاتے تھے یا ان کی رفتار سست ہوجاتی تھی اور وہ شکار کرلئے جاتے تھے۔ اسی علاقے سے پہلے شکاریوں کا سامان، اوزار اور برتن وغیرہ بھی ملے ہیں۔

یہاں کے بلند ترین مجسموں کو غسان اور ابو غسان کا نام دیا گیا ہے جن میں سے ایک کی بلندی 112 سینٹی میٹر اور دوسرے کی 70 سینٹی میٹر ہے۔ یہ علاقہ قدیم باشندوں کی ایک شکار گاہ بھی تھا۔ اس مقام پر ایک اور بڑی چٹان ملی ہے جس پر سمندری جانوروں کے 150 فاسلز چپکائے گئے ہیں اور اس پر جانوروں کی اشکال بھی بنائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اطراف میں ہی پتھر کے خنجر اور نوکیلے اوزار بھی ملے ہیں۔

اس دریافت کو مشرقِ وسطیٰ میں پتھروں پرکندہ سب سے قدیم دریافت قرار دیا گیا ہے۔