یوسف اور محمد کے لیے

میں گیارہ مارچ کو پیرس سے لاہور کے لیے روانہ ہوا‘ ترکش ائیرلائین کی فلائیٹ تھی‘ استنبول میں اس دن برفانی طوفان آ گیااور فلائیٹس کا شیڈول درہم برہم ہو گیا۔

ہماری فلائیٹ پیرس سے لیٹ روانہ ہوئی تھی‘ یہ جب استنبول پہنچی تو لاہور کی فلائیٹ روانہ ہو چکی تھی‘ میں پریشان ہو گیا اور پریشانی میں ترکش ائیرلائین کے ایک ڈیسک سے دوسرے ڈیسک مارا مارا پھرنے لگا لیکن کوئی میری بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔

دو گھنٹوں کی مارا ماری اور گیارہ ڈیسکوں کی خواری کے بعد اگلے دن کی فلائیٹ ملی اور وہ بھی اکانومی تھی‘ میں نے یہ آپشن قبول کر لیا‘ اب سوال یہ تھا میں رہوں گا کہاں؟ مجھے بتایا گیا ترکش ائیرلائین آپ کی رہائش کا بندوبست کرے گی لیکن اس سے پہلے آپ کو امیگریشن کے پورے پراسیس سے گزرنا ہو گا‘ میں امیگریشن کائونٹر پر چلا گیا‘ مجھے بتایا گیا ’’آپ کو امیگریشن سے گزرنے کے لیے ویزہ چاہیے اور ویزے کے دو آپشن ہیں‘ آپ اسلام آباد ایمبیسی سے ویزہ حاصل کریں یا پھر شینجن ویزے کی بنیاد پر آن لائین ویزہ لے لیں‘‘۔

مجھے اب آن لائن ویزے کے لیے کمپیوٹر چاہیے تھا‘ بتایا گیا یہ آپ کو بزنس کلاس لائونج سے ملے گا‘ میں بزنس کلاس لائونج چلا گیا‘مجھے وہاں بتایا گیا آپ کل جس فلائیٹ سے جا رہے ہیں اس میں آپ کی بکنگ اکانومی میں ہے لہٰذا آپ لائونج استعمال نہیں کر سکتے‘ میں نے انھیں پیرس سے استنبول اور استنبول سے لاہور کا پرانا بورڈنگ کارڈ دکھایا‘ بزنس کلاس کا ٹکٹ بھی پیش کیالیکن ان کا جواب تھا آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں‘ آپ کے ساتھ زیادتی بھی ہو رہی ہے لیکن پروسیجر از پروسیجر ‘ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔

پاکستان میں اس وقت تک رات کے دو بج چکے تھے‘ میرے پاس لوکل سم بھی نہیں تھی اور لائونج سے باہر ہونے کی وجہ سے وائی فائی کی سہولت بھی دستیاب نہیں تھی‘ میں نے پریشانی میں ڈیوٹی فری کے ایک دکان دارسے سم کے لیے مشورہ کیا‘ اس نے بتایا ‘آپ کو سم کارڈ کے لیے امیگریشن سے گزر کر باہر جانا پڑے گا‘ میری ہنسی نکل گئی کیوں کہ اس کے لیے ویزہ چاہیے تھا اور سارا سیاپا ہی ویزے کا تھا‘ میں نے اسے صورت حال بتائی‘ اس کی بھی ہنسی نکل گئی اور پھر اس نے مجھ پر ترس کھا کر مجھے ہاٹ اسپاٹ کے ذریعے وائی فائی دے دیا۔

میں نے پاکستان رابطہ کیا‘ بیٹے کو اٹھایا اور اسے آن لائین ویزے پر لگا دیا‘ بیٹے نے تھوڑی دیر بعد جواب دیا‘ آن لائین ویزے کی ویب سائیٹ ڈائون ہے‘ یہ کریڈٹ کارڈز قبول نہیں کر رہی یوں میں چوبیس گھنٹے کے لیے ائیرپورٹ پر پھنس گیا‘ میں خود کو ابھی ائیرپورٹ پر ایڈجسٹ کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ دکان دار نے مجھے یہ بتا کر مزید پریشان کر دیا برف باری کا یہ طوفان مزید دو دن چلے گا لہٰذا اگلے دو دن کوئی فلائیٹ استنبول آ سکے گی اور نہ جا سکے گی۔

اتوار کو لاہور میں میرا سیشن تھا‘ میرا وہاں پہنچنا ضروری تھا لہٰذا میری پریشانی آسمان کو چھونے لگی‘ میں نے کافی لی اور سانس کی ایکسرسائز کرنے لگا‘ دو گھنٹے بعد بیٹے کا پیغام آیا‘ ہم نے چائنا کے ایک بینک سے ارجنٹ کریڈٹ کارڈ لے کر آپ کی پے منٹ کر دی ہے‘ دس منٹ میں ویزہ آ جائے گا‘ میں نے شکر ادا کیا اور لمبی سانس لی۔

مجھے دس منٹ بعد ویزہ مل گیا لیکن اس کے بعد خواری کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا‘ میں نے ویزہ دکھا کر امیگریشن کراس کی‘ سامان کی بیلٹ پر گیا تو پتا چلا سامان لاکرز میں جمع ہو گیا ہے اور یہ اب مجھے اگلی فلائیٹ کے ذریعے پاکستان ملے گا‘ میرے پاس اس وقت شولڈر بیگ کے سوا کچھ نہیں تھا اور اس میں بھی صرف چارجر اور کتاب تھی‘ کپڑوں کے نام پر ایک ٹرائوزر اور ٹی شرٹ تھی اور باہر طوفانی برف باری ہو رہی تھی‘ میں نے انھیں اپنی صورت حال بتائی لیکن وہ لوگ کندھے اچکا کر آگے بڑھ گئے۔

بہرحال قصہ مختصر میں ہوٹل کے لیے ایک بار پھر ترکش ائیر لائین کے کائونٹر پر پہنچ گیا‘ مجھے انھوں نے اگلے کائونٹر‘ اس کائونٹر نے ایک اور کائونٹر اور اس نے تیسرے کائونٹر پر بھجوا دیا‘ میں بالآخر خوار ہوتا ہوا متعلقہ کائونٹر پر پہنچ گیا‘ میں نے انھیں اپنے ٹکٹس اور بورڈنگ کارڈز دکھائے‘ میرا پاسپورٹ مانگا گیا‘ پاسپورٹ دیکھتے ہی خاتون نے مسکرا کر فرمایا‘ ہمارے پاس ہوٹلز نہیں ہیں‘ آپ لیٹ ہو گئے ہیں‘ میں نے اسے بتایا‘ آپ نے ابھی میرے سامنے ایک امریکی جوڑے کو ہوٹل اور گاڑی کا بندوبست کر کے دیا اور وہ بزنس کلاس کے مسافر بھی نہیں تھے۔

خاتون کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ اس نے انگلی کے اشارے سے ایک منٹ مانگا‘ کائونٹر سے نکلی اور غائب ہو گئی‘ وہ اس کے بعد واپس نہیں آئی‘ میں آدھا گھنٹہ اس کا انتظارکرتا رہا لیکن وہ واپس نہیں آئی‘ ہوٹل میرا استحقاق تھا لیکن مجھے میرے پاسپورٹ کی وجہ سے وہ استحقاق نہ مل سکا‘ مجھے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا دنیا میں پاسپورٹ کا رنگ اور شہریت بہرحال اہم ہوتی ہے اور ’’برادر اسلامی ملک‘‘ جیسا کوئی رشتہ نہیں ہوتا‘ کائونٹر پر سردی تھی‘ میں زیادہ دیر سردی برداشت نہ کر سکا۔

میں باہر نکلا‘ سم لی‘ موبائل آن کیا اور بیٹے کو دوسری بار جگا کر ہوٹل اور ٹیکسی کا بندوبست کیا‘ باہر گھٹنے گھٹنے برف تھی اور درجہ حرارت منفی سات تھا اور میں عام لائیٹ سے کپڑوں میں سکڑتا‘ سسکتا ہوا ٹیکسی میں بیٹھا تھا‘ وہ رات اور وہ سفر عجیب تھا لیکن میں تکلیف کے باوجود انجوائے بھی کر رہا تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ اس میں نئی لرننگ تھی۔

میں بہرحال ہوٹل پہنچ گیا‘ ساری رات برف باری ہوتی رہی‘ اگلے دن بھی طوفانی برف باری تھی‘ تمام فلائیٹس منسوخ ہو گئیں‘ ہزاروں مسافر ائیرپورٹ اور شہر میں پھنس گئے‘ صبح ناشتے کے وقت میرے ساتھ ایک اور عجیب واقعہ پیش آیا‘ ہوٹل کا ایک ترکش ویٹر میرے پاس آیا اور میرا نام لے کر میرا حال احوال پوچھنے لگا‘ میں نے سوچا شاید اس نے ہوٹل کے ریکارڈ سے میرا نام لیا ہو یا پھر میں پورے ہال میں واحد دیسی ہوں اور یہ اس انفرادیت کی وجہ سے میری طرف متوجہ ہو گیا ہو لیکن اس نے ایک نئی کہانی سنا دی۔

اس نے بتایا‘ آپ دو سال پہلے گروپ کے ساتھ اس ہوٹل میں ٹھہرے تھے‘ لوگ آپ کے ساتھ تصویریں بنا رہے تھے‘ آپ کوئی تقریر بھی کر رہے تھے اور لوگ وہ بھی غور سے سن رہے تھے‘ میں نے یہ بھی نوٹ کیا آپ ہمارے عملے کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آتے تھے‘ آپ نے پورے گروپ کو ویٹر کوبلانے‘ آرڈر دینے اور ان سے عزت کے ساتھ پیش آنے کاطریقہ بھی بتایا تھا‘ مجھے یہ سب کچھ اچھا لگا۔

میں نے اس وقت سوچا‘ میں ڈیوٹی آف ہونے کے بعد آپ سے ملوں گا اور آپ سے گپ شپ کروں گا لیکن آپ اس دن واپس چلے گئے‘ میں نے اس کے بعد آپ کا پروفائل نکال کر پڑھا اور مجھے آپ سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس ہونے لگا‘ اس دوران جب بھی کوئی پاکستانی یہاں آتا تھا‘ میں اس سے آپ کے بارے میں پوچھتا تھا‘ میں دو سال سے آپ کو فراموش نہیں کر سکا اور آج میری آپ سے ایک بار پھر ملاقات ہو گئی۔

مجھے یہ سارا قصہ فرضی سا محسوس ہوا اور میں مشکوک نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا لیکن پھر اس نے میری گروپس کے ساتھ تصویریں بھی دکھائیں اور پروفائل کے اسکرین شارٹس بھی‘ اس کا نام یوسف دورددنز تھا‘ میں نے اس کے ساتھ کافی پی اور سارا دن ہوٹل کی کھڑکیوں سے برف دیکھ کر گزار دیا‘ وہ ایک اچھی کمپنی تھا‘ دوسرے دن بھی برف باری تھی‘ میں نے اپنے ترکش دوست ظفر کو بلایا اور میں اس کے ساتھ برستی برف باری میں چار سمبا (Carsamba) چلا گیا۔

چار سمبا استنبول کا قدیم محلہ ہے‘ اس کے تمام مرد باریش ہوتے ہیں اور خواتین برقعہ پہنتی ہیں‘ پورے محلے میں قدامت پرست مسلمان بستے ہیں‘ تصویر نہیں بنانے دیتے اور اذان ہوتے ہی دکانیں کھلی چھوڑ کر مسجد چلے جاتے ہیں‘ خوش اخلاقی سے ملتے ہیں اور لین دین کے کھرے ہیں‘ ہم وہاں پھرتے رہے اور پھر وہاں سے استنبول کی قدیم دیوار کے وزٹ کے لیے چلے گئے‘ وہاں ایک دوسرا واقعہ پیش آگیا‘ گلی میں سات آٹھ سال کے ایک بچے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا‘ وہ ترکی کی زبان میں کچھ کہہ رہا تھا‘ میں نے ظفر سے مطلب پوچھا۔

اس نے بتایا‘ یہ کہہ رہا ہے ’’مجھے بھوک لگی ہے‘‘ میں لڑکے کو بھکاری سمجھ کر آگے بڑھنے لگا لیکن پھر نہ چاہتے ہوئے بھی واپس مڑگیا‘ بچے کو شوارمے کی دکان پر لے گیا‘ کھانا لے کر دیا اور اسے میز پر بٹھا کر آگے نکل گیا‘ بچے کا نام محمد تھا اور وہ شامی تھا‘آپ کو شاید یقین نہیں آئیگا بچے نے جوں ہی کھانا شروع کیا‘ برف باری رک گئی اور تھوڑی دیر بعد سورج چمکنے لگا‘ میں نے ترکش ائیرلائین سے رابطہ کیا‘ ان کا جواب تھا ’’آج فلائیٹ جائے گی‘‘ اور میں وہاں سے سیدھا ائیرپورٹ روانہ ہوگیا۔

یہ دونوں بظاہر انتہائی چھوٹے سے واقعات ہیں‘ یہ محض اتفاق بھی ہو سکتے ہیں لیکن میں آج دو ہفتے بعد جب بھی اپنے آپ سے پوچھتا ہوں میں لاہور جا رہا تھا‘ قدرت نے مجھے دو دن کے لیے استنبول کیوں پھنسا دیا تو یوسف اور محمد کا چہرہ میرے سامنے آ جاتا ہے اور میں بے اختیار سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں قدرت نے شاید یوسف کے ساتھ کافی پینے اور اس بچے کے ایک شوارمے کے لیے میرا راستہ بدل دیا تھا۔

استنبول میری اسکیم میں تھا ہی نہیں لیکن اسکیم بنانے والے نے ساری ترتیب بدل کر مجھے یوسف اور محمد کی دہلیز پر لا کھڑا کیا اور جونہی یہ دونوں کام مکمل ہو گئے‘ بادل چھٹے اور فلائیٹ کا نوٹی فکیشن آ گیا ۔ میں سائنسی ذہن کا پریکٹیکل انسان ہوں لیکن یہ واقعہ مجھے روز بتاتا ہے اﷲ نے رزق کو جگہوں اور ملاقاتوں میں پرو رکھا ہے‘ آپ جب تک ساری ملاقاتیں‘ ساری جگہیں اور اپنے حصے کا سارا رزق بھگتا نہیں لیتے آپ اس وقت تک دنیا سے رخصت نہیں ہوتے۔