پراسرار ’بھوت ذرّہ‘ کتنا بھاری ہے… آخرکار معلوم ہوگیا!

برلن: سائنسدانوں کی ایک عالمی ٹیم نے ’نیوٹرائنو‘ ذرّے کی کمیت معلوم کرلی ہے جسے ’بھوت ذرّہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس سے پہلے تک نیوٹرائنو کی کمیت (مادّے کی مقدار) کے بارے میں صرف اندازے ہی لگائے گئے تھے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جب اس ذرّے کی کمیت پورے احتیاط اور درستگی سے معلوم کی گئی ہے۔

حساس اور محتاط مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ نیوٹرائنو کی کمیت صرف 0.8 الیکٹرون وولٹ (0.8 eV/c^2)، یعنی الیکٹرون کے مقابلے میں پانچ لاکھ گنا سے بھی کم ہے۔

بتاتے چلیں کہ اس ذرّے کی پیش گوئی آج سے 90 سال پہلے جرمن ماہرِ طبیعیات وولف گینگ پالی اور امریکی سائنسدان اینریکو فرمی نے کی تھی۔

یہ اہم دریافت ’’کارلسروہے ٹرائٹیم نیوٹرائنو ایکسپیریمنٹ‘‘ (KATRIN) کے عنوان سے جرمنی میں جاری ایک عالمی تحقیقی منصوبے کے تحت کی ہوئی ہے جس میں جرمنی، امریکا اور برطانیہ سمیت چھ ممالک شریک ہیں۔

ادھورے نظریات اور بھوت ذرّہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ نیوٹرائنو کی کمیت معلوم کیے بغیر کائنات کے بارے میں ہمارے سائنسی نظریات بھی ادھورے رہیں گے۔

نیوٹرائنو کو ’’بھوت ذرّہ‘‘ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عام مادّے کے ساتھ لگ بھگ نہ ہونے کے برابر ہی عمل (انٹریکشن) کرتا ہے۔

آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ نیوٹرائنو کچھ اس طرح ہماری زمین سے آرپار گزر سکتے ہیں کہ جیسے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ موجود ہی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا براہِ راست مشاہدہ ہمارے لیے ناممکن ہے۔

البتہ، اینریکو فرمی نے پیش گوئی کی تھی کہ ایٹمی مرکزوں (اٹامک نیوکلیائی) میں ٹوٹ پھوٹ یعنی انحطاط (decay) کے نتیجے میں الیکٹرون کے ساتھ ساتھ نیوٹرائنو بھی خارج ہوتے ہیں جن کی وجہ سے الیکٹرون کی کمیت میں بے حد معمولی کمی واقع ہوتی ہے۔

یہ کمی اس قدر معمولی ہوتی ہے کہ انتہائی درست اور حساس آلات (ڈٹیکٹرز) ہی اس کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ یعنی ان آلات کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ایٹمی مرکزے میں انحطاط سے خارج ہونے والے الیکٹرونوں کی کمیت میں کروڑویں حصے جتنا فرق بھی معلوم کرسکیں۔

فرمی کی یہی پیش گوئی مدنظر رکھتے ہوئے جرمن شہر کارلسروہے کے نزدیک ’کیترن‘ (KATRIN) نامی منصوبے پر 2000 میں کام شروع کیا گیا جو عالمی تعاون و اشتراک سے آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔

خاص اور ناپائیدار ہائیڈروجن

اس منصوبے کے تحت سائنسدانوں نے ایک خاص قسم کی ہائیڈروجن استعمال کی جسے ’’ٹریٹیم‘‘ (Tritium) کہا جاتا ہے۔ اس کے مرکزے (نیوکلیئس) میں ایک پروٹون کے ساتھ دو نیوٹرون بھی موجود ہوتے ہیں۔

عام ہائیڈروجن، جس کے مرکزے میں صرف ایک پروٹون ہوتا ہے، بے حد پائیدار ہے جو مناسب حالات میں اربوں سال تک خود کو برقرار رکھتی ہے۔

اس کے برعکس ٹریٹیم بہت ناپائیدار ہوتی ہے کیونکہ اپنے مرکزے میں ایک پروٹون کے ساتھ دو اضافی نیوٹرونوں کو سنبھالنا اس کےلیے بے حد مشکل ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ٹریٹیم کے مرکزے (نیوکلیئس) میں نیوٹرون بھی انحطاط کا شکار رہتے ہیں۔

اس انحطاط میں نیوٹرون خود کو پروٹون میں تبدیل کرتے ہوئے ایک الیکٹرون اور ایک نیوٹرائنو خارج کرتا ہے۔

اب چونکہ ایٹمی مرکزے سے خارج ہونے والے الیکٹرون کو ’بی-ٹا‘ ذرّہ (Beta particle) کہتے ہیں لہذا نیوٹرون کے بدلنے اور اس سے الیکٹرون/ نیوٹرائنو خارج ہونے کا یہ عمل ’بی-ٹا انحطاط‘ (Beta decay) کہلاتا ہے۔

فرمی کی پیش گوئی تھی کہ بی-ٹا انحطاط میں خارج ہونے والے الیکٹرون کی کمیت، دوسرے اور عام الیکٹرونز کے مقابلے میں بہت معمولی سی کم ہونی چاہیے کیونکہ اس عمل میں (الیکٹرون کے مقابلے میں) لاکھوں گنا کمتر کمیت والا نیوٹرائنو بھی خارج ہوتا ہے جس کا مشاہدہ ہمارے لیے ممکن نہیں۔

یعنی عام الیکٹرونوں اور بی-ٹا انحطاط میں نکلنے والے الیکٹرونوں میں کمیت کے انتہائی معمولی فرق کی پیمائش کرکے ہم نیوٹرائنو کی کمیت بھی معلوم کرسکتے ہیں۔

کیترن منصوبے میں ٹریٹیم کے بی-ٹا انحطاط سے خارج ہونے والے کھربوں الیکٹرونوں کی کمیت، انتہائی حساس آلات سے، کئی سال تک بار بار معلوم کی گئی۔

اس دوران آلات کو بہتر سے بہتر بنانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

جب اس منصوبے سے وابستہ ماہرین کو اپنے حاصل کردہ اعداد و شمار اور ان کے نتائج درست ہونے پر مناسب حد تک اعتبار ہوگیا تو انہوں نے اس دریافت کی تمام تفصیلات ریسرچ جرنل ’’نیچر فزکس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع کروا دیں۔

نیوٹرائنو بظاہر بہت معمولی ذرّہ ہے لیکن بگ بینگ سے لے کر تاریک مادّے (dark matter) تک جیسے کائناتی مظاہر میں اس کا عمل دخل تسلیم کیا جاتا ہے۔

نیوٹرائنو کی کمیت (0.8 الیکٹرون وولٹ) معلوم ہو جانے کے بعد، ماہرین کو امید ہے کہ ذرّات اور کائنات کے بارے میں کئی سوالوں کے جوابات حاصل کرنے میں خاصی مدد ملے گی۔

دوسری جانب ’کیترن‘ منصوبے میں شامل آلات کو مزید بہتر بنانے کا کام بھی جاری ہے تاکہ 2025 سے نیوٹرائنو کی کمیت کی اور زیادہ درست پیمائشیں کی جاسکیں۔