خواتین کی انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینے اور ملکی ترقی میں ان کی شمولیت یقینی بنانے کیلئے بھرپور اقدامات کی ضرورت ہے، بیگم ثمینہ علوی کا بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب

خاتون اول بیگم ثمینہ علوی نے خواتین کی انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینے اور ملکی ترقی کے عمل میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بدھ کو یہاں ”گلوبلائزنگ وومن انٹرپرینیورشپ 2023 “ کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومتی اداروں کو ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے جو خواتین کی معاشی شراکت کے لیے سازگار ہو۔ تقریب کا اہتمام صدر فیصل آباد وومن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف ڈبلیو سی سی آئی) نے کیا تھا۔

خاتون اول نے کہا کہ مالی مراعات کی پیشکش، صنفی حساس پالیسیوں کو فروغ دینا، خواتین کے لیے دوستانہ اور ہراساں کیے جانے سے پاک کام کا ماحول بنانا اور خاص طور پر کاروبار سے منسلک خواتین کے لیے قرضوں تک آسان رسائی کے لیے میکانزم قائم کرنا ایسے چند اقدامات میں سے ہیں جو حکومتی اداروں کو اٹھانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ بینک کاروباری خواتین کو مالی معاونت اور مشاورتی خدمات فراہم کر کے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری بھی کاروباری خواتین کی رہنمائی کی خصوصی ذمہ داری رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کو کاروبار چلانے اور قائم کرنے کے لئے چیمبرز کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ بیگم ثمینہ علوی نے کہا کہ ورکشاپس، تربیتی پروگراموں اور نیٹ ورکنگ کے مواقع کا انعقاد خواتین کو ضروری مہارتوں اور علم سے آراستہ کرنے میں بہت آگے جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے سے نہ صرف انہیں انفرادی طور پر فائدہ ہوتا ہے بلکہ اس کا معاشروں اور معیشتوں پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرپرینیورشپ کے ذریعے ہم خواتین کی صلاحیت کو بروئے کار لا سکتے ہیں اور انہیں مالیاتی طور پر بااختیار بناسکتے ہیں، خواتین کو اپنے کاروبار کو شروع کرنے اور چلانے کے لیے درکار وسائل اور مدد فراہم کرکے ہم انہیں اس قابل بناتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوسکیں بلکہ اس سے وہ اقتصادی ترقی میں بھی مدد گار بن سکتی ہیں۔

انہوں نے پاکستان میں خواتین کی انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینے کے لیے (ایف ڈبلیو سی سی آئی) کی کوششوں کو بھی سراہتے ہوئے کہا کہ دیگر چیمبرز کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ خواتین کے کامیاب کاروباری بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جو ان کی انفرادی ترقی اور سماجی ترقی دونوں میں حصہ ڈالتی ہیں۔ خواتین کی زندگی میں صحت اور تعلیم کی اہمیت کا ذکرکرتے ہوئے خاتون اول نے کہا کہ خواتین کو معیاری تعلیم تک رسائی اور ہنرمندی کے مواقع فراہم کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے خواتین میں صحت کے بعضعام مسائل کا بھی ذکر کیا جن میں چھاتی کا کینسر اور ذہنی تناو¿ شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھاتی کا کینسر لاتعداد خواتین کو متاثر کرتا ہے، پاکستان میں تقریباً 40 ہزار خواتین ہر سال چھاتی کے کینسر سے لقمہ اجل بن جاتی ہیں، ان میں سے زیادہ تر اموات کو چھاتی کے کینسر کا ابتدائی مرحلے میں پتہ لگانے سے بچا جاسکتا ہے۔

دماغی صحت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ خواتین بالخصوص کام کرنے والی خواتین کو خاص طور پر تنائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ انہیں اپنے گھر اور کام کی ذمہ داریوں کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو کام کرنا چاہیے لیکن اپنے خاندانوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ خاندانی زندگی ذہنی صحت اور تندرستی کی ایک لازمی بنیاد ہے۔ انہوں نے معاشرے پر بھی زور دیا کہ وہ خصوصی افراد کا خاص خیال رکھے اور انہیں ان کے حقوق دے۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی افراد کو بااختیار بنانا، ان کی مالی آزادی کو یقینی بنانا، مواقع اور سہولیات تک ان کی رسائی کو بہتر بنانا اور انہیں مرکزی دھارے کی سماجی و اقتصادی سرگرمیوں میں شامل کرنا ایک منصفانہ اور جامع معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔

خواتین کو بااختیار بنانے اور انسانی حقوق کے بارے میں نگراں وزیراعظم کی معاون خصوصی مشال ملک نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بطور خاتون بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے جدوجہد میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے خواتین پر زور دیا کہ وہ ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے مالیاتی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق اگر مختلف شعبوں میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنایا جائے تو پاکستان کی جی ڈی پی میں 30 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے ۔ صدر (ایف ڈبلیو سی سی آئی) روبینہ امجد نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستانی تارکین وطن خواتین کو کاروباری سرگرمیوں میں مکمل طور پر حصہ لینے کے لیے مساوی مواقع فراہم کرے۔