معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
کیا یہ ملک صرف مسلمانوں کا ہے؟
وزیراعظم اتوار کی شام جب قوم سے خطاب کر رہے تھے تو میں ایک اجنبی پاکستانی نوجوان کا پیغام بار بار پڑھ رہا تھا‘ نوجوان نے خطاب سے ایک دن پہلے مجھ سے پوچھا تھا ’’میں کرسچین پاکستانی ہوں‘ کیا یہ ملک میرا نہیں ؟‘‘ میں نے اسے جواب دیا تھا ’’آپ مجھ سے زیادہ پاکستانی ہیں کیوں کہ میں شاید پاکستان نہیں چھوڑ سکتا لیکن آپ چوائس کے باوجود پاکستانی ہیں لہٰذا ملک پر آپ کا مجھ سے زیادہ حق ہے‘‘ اس نے کہا ’’پھر وزیراعظم اپنی ہر تقریر میں صرف مسلمانوں اور ریاست مدینہ کا ذکر کیوں کرتے ہیں؟
یہ پاکستان کے ہر شہری کو پاکستانی کیوں نہیں سمجھتے اور ان کے اسٹیج پر اقلیت کے نمایندے کیوں نظر نہیں آتے‘‘میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اور اتوار کے دن بھی عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے آخری عوامی خطاب میں صرف مسلمانوں کا ذکر کیا‘ یہ پاکستان کے ان محسنوں کو بھول گئے جو مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی زندگی اس ملک پر قربان کر گئے‘ مثلاً آپ تورو کو ہی لے لیجیے‘ اب سوال یہ ہے تورو کون تھا۔
توروکا پورا نام وادساوترووچ تھا اور وہ مذہباً یہودی تھا‘ وہ پاکستان سے مذہب سے بھی زیادہ محبت کرتا تھا‘ اس نے اپنے تیس ساتھیوں کے ساتھ پاکستان ایئرفورس کی بنیاد بھی رکھی تھی اور اسے ایشیا کی بہترین ہوائی قوت بھی بنایا تھا‘قیام پاکستان کے بعد جب برطانوی افواج‘ پائلٹس اور ٹیکنیشنز ہمیں بے آسرا چھوڑ کر چلے گئے تو اس وقت وہ آگے بڑھا اور چند برسوں میں رائل ایئرفورس کی کمی پوری کردی۔
اس نے ملک کو ناقابل تسخیر بنا دیا‘وہ ایئرفورس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نیوکلیئر اور میزائل پروگرام کی کور ٹیم کاحصہ بھی تھا‘23اپریل 1908کو سائبیریاکے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا‘والد زار روس کے ٹرانس۔سائبیریا ریلوے کا قیدی مزدور تھا‘ پوراخاندان قیدیوں کے گاؤں میں رہتا تھا‘کمیونسٹ انقلاب آیا تو اس کا خاندان1922 میں پولینڈ فرار ہوگیا‘ تو رونے وارسا یونیورسٹی سے ہوائی انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔
اس نے اس کے علاوہ آسٹروفزکس میں بھی تربیت اور تعلیم حاصل کی‘تورو نے1938میں پولش ایئرفورس جوائن کرلی‘ اگلے برس دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اورجرمنی نے پولینڈ پر قبضہ کر لیا‘ تورو کو ہائی کمانڈ کی طرف سے حکم دیا گیا وہ اپنے ہوائی جہاز کو ناکارہ بنا دے اور رومانیہ چلا جائے‘وہ پولینڈ سے بھاگ کر رومانیہ کے ایک گم نام گاؤں میں پناہ گزین ہو گیا‘ اس دوران اس کی ساتھی طالبہ زوفیا اسے تلاش کرتی ہوئی۔
اس دور افتادہ علاقے میں پہنچ گئی‘دونوں نے وہیں شادی کرلی‘جرمنوں کی یہودیوں کے خلاف نفرت انتہا کو چھو رہی تھی‘ وہ دونوں ہنگری اور فرانس سے ہوتے ہوئے برطانیہ جاپہنچے‘برطانیہ کو پائلٹس کی ضرورت تھی‘اس نے برطانوی رائل ایئرفورس جوائن کرلی۔
رائل ایئرفورس میں اس کی کارکردگی عمدہ تھی مگر جنگ کے بعداسے8ہزار پولش ایئرمینز کے ساتھ فارغ کردیا گیا‘وہ دل برداشتہ ہوگیالیکن اس کے باوجوداس نے کمیونسٹ دنیا میں لوٹنا مناسب نہ سمجھا‘وہ برطانیہ میں اپنی دوبیٹیوں کے ساتھ بے آسرا ہوچکا تھا‘1948میں پاکستانی ہائی کمیشن لندن نے اشتہار دیا پاکستان کو تربیت یافتہ اور ماہر پائلٹوں کی ضرورت ہے‘تورونے اس موقع کو غنیمت جانا اور وہ تیس دوسرے پائلٹوں کے ساتھ پاکستان آ گیا‘ تین سال کا کانٹریکٹ تھا‘ تنخواہ اور مراعات بھی تھیں۔
کراچی میں اسے ڈرگ روڈ پر رہائش بھی دے دی گئی اور یوں تورو نے پی اے ایف کے پائلٹوں کی تربیت شروع کر دی اور اس کی بیوی زوفیا گلائڈنگ پائلٹوں کو ٹریننگ دینے لگی‘ 1952میں اسے ونگ کمانڈر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور اسے چکلالہ پوسٹ کردیا گیا‘اسی دوران ان کے ہاں ایک بیٹا اور ایک اور بیٹی پیدا ہوئی۔
بچوں کی تعلیم اور معاشی معاملات کی وجہ سے زوفیا نے پاکستان ایئرفورس چھوڑ دی اور کراچی امریکن اسکول اور کراچی یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردیا‘تین برس مکمل ہونے پرزیادہ تر پولش پائلٹ واپس چلے گئے جب کہ باقی نے اورینٹ ایئرلائن جوائن کرلی‘یہ ایئرلائین بعد ازاںپی آئی اے بن گئی۔1957 میں تورو کو واپس کراچی پوسٹ کردیا گیا‘1959میں وہ گروپ کیپٹن اور 1960 میں ایئرکموڈور بن گیا۔
1961 میں اسے اوراس کے خاندان کو پا کستانی شہریت دے دی گئی‘1965 میں ہندوستان کے خلاف جنگ میں امریکا نے پاکستان کو اسپیئرپارٹس کی سپلائی روک دی تو اس نے مقامی اسپیئرپارٹس سے کام چلایا‘اس کی مسلسل محنت‘ بے لوث جذبے اور عمدہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اسے تمغۂ امتیاز‘ستارئہ امتیاز اور ستارئہ قائداعظم سے نوازا گیا۔
دنیا میں جب روسی خلائی پروگرام اسپوتنک شروع ہوا تو یہودی نژاد تورو اور قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام نے صدر ایوب خان کو قائل کیا پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے خلائی پروگرام ضروری ہے‘صدر ایوب نے اوکے کر دیا یوںتورو نے1962 میں پاکستان کا پہلا راکٹ راہبر۔1لانچ کردیا‘اسے سونمیانی لانچنگ پیڈ سے لانچ کیا گیا تھا بعد ازاں تورو اور ڈاکٹر عبدالسلام امریکا گئے اورامریکا سے پاکستان کے لیے راکٹ ٹیکنالوجی لی۔
یہ کام ناممکن تھا لیکن ان دونوں کی وجہ سے ٹیکنالوجی بھی ملی اور امریکا نے بے شمار پاکستانی سائنس دانوں کو ٹرینڈ بھی کیا‘ تورونے1967 میںایئرفورس چھوڑدی اوروہ پاکستانی خلائی ادارے سپار کو کا ایگزیکٹوڈائریکٹر بن گیا‘اس نے اسپارکو کوبھی آسمان کی رفعتوں تک پہنچا دیا‘ وہ 1970 میں اسپارکو سے بھی ریٹائر ہوگیا‘ بڑھاپے کے ایام تکلیف میں گزرے‘ وہ بچپن میں پولینڈ میں موٹر سائیکل حادثے کا شکار ہو اتھا۔
بڑھاپے میں اس حادثے کے اثرات نظر آنے لگے اوراس کی حرکات محدود ہوگئیں‘1980 میں وہ اپنے ڈرائیور سمیت کراچی میں ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگیا‘ اسے مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کراچی کے مسیحی قبرستان میں دفن کیا گیا‘ زوفیا تورو اس کے بعد بھی زندہ رہی‘ اس کے نواسے اور پوتے پوتیاں اس کے سامنے پیدا ہوئے‘وہ بھی پاکستانی یہودی تھے۔
زوفیا بھی بالآخر فروری 2012میں وفات پاگئی اوراسے اس کے محبوب شوہر کے پہلو میں کراچی میں دفن کر دیا گیا‘ دونوں کے انتقال کے بعد کلاسیفائیڈ دستاویزات کھلیں تو یہ حقیقت سامنے آئی توروکو جاسوس بنانے اور خریدنے کی متعدد کوششیں ہوئیں مگر اس نے انکار کردیا تھا‘اس سے جب ا س بارے میں پوچھا گیا تو اس نے الٹا سوال کیا تھا ’’ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے کیا مجھے زیب دیتا تھا میں ایسے بدبودار لوگوں کو توجہ بھی دیتا جو مجھے خریدنا چاہتے تھے۔‘‘
آپ نے تورو کی کہانی پڑھی‘ آپ اس شخص کا کمال دیکھیے‘ یہ کہاں سے آیا اور اس نے کس طرح پاکستان کو اپنا ملک بنایا اور پھر اسی پاکستان کی مٹی میں دفن بھی ہوا‘ آپ چند لمحوں کے لیے اس کا مذہب اور عقیدہ سائیڈ پر رکھ کر جواب دیجیے‘ کیا خاندان اور زبان چھوڑ دینا اور اپنی پوری زندگی ان لوگوں کے لیے وقف کر دینا جو دوسروں کو مذہب کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھتے ہوں کیا یہ آسان ہوتا ہے؟ اور کیا کسی نئے ملک کی ہواؤں اور فضاؤں کو ناقابل تسخیر بنا دینا اور لاکھوں کروڑوں روپے کی آفر ٹھکرا کر چند ہزار روپے کی تنخواہ پر گزارہ کرنا اور پھر خاموشی سے مر جانا کیا یہ بھی آسان ہے؟ ڈاکٹر عبدالسلام بھی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے‘ دنیا آج بھی انھیں بڑا دماغ سمجھتی اور مانتی ہے۔
پاکستان کے لیے ان کے کنٹری بیوشنز بھی کم نہیں ہیں لیکن ان کا عقیدہ‘ ان کا مذہب بھی ہمارے سامنے دیوار کی طرح کھڑا ہو گیا اور ہم آج بھی ان کا احسان ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ کیا ہم ایک احسان فراموش قوم نہیں ہیں اور کیا ہم دنیا میں اپنی اس عادت کی سزا نہیں بھگت رہے؟ لہٰذا وزیراعظم صاحب خدا کے لیے عوام کو مذہب اور عقیدے کے نام پر مزید تقسیم نہ کریں۔
یہ ملک پہلے ہی عقیدوں کی آگ میں جل رہا ہے‘ اس ملک کی اقلیتیں ہم سے زیادہ پاکستانی ہیں‘ یہ آپشنز کے باوجود اپنی مرضی سے اس ملک کے شہری ہیں‘ آپ بار بار مذہب کا نام لے کر ان کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں‘ کیا یہ ملک ان کا نہیں ہے اور کیا یہ 73لاکھ لوگ اس ملک سے چلے جائیں؟