معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
مانگتے رہا کریں
یہ واقعہ میرا نہیں ہے‘ میرے ایک دوست نے سنایا تھا اور اس نے بھی کسی اور سے سنا تھا لیکن یہ کمال ہے اور اس میں زندگی کا شان دار بلکہ شان دار ترین سبق چھپا ہے۔
سنانے والے نے سنایا‘ میں پڑھائی کے بعد لندن سے واپس آیا‘ سارا دن گھر پر پڑا رہتا تھا‘ ایک دن میری والدہ نے مجھ سے کہا‘دوڑ کر جائو اور ہمسایوں سے تھوڑا سا نمک مانگ کر لے آئو‘ میں نے حیرت سے ماں کی طرف دیکھا اور کہا’’امی جی آپ کل ہی نمک لے کر آئی ہیں‘ وہ کہاں گیا اور دوسرا اللہ کا ہم پر بڑا احسان‘ بڑا کرم ہے‘ ہم ہمسایوں سے نمک کیوں مانگ رہے ہیں؟‘‘
میری ماں نے ہنس کر کہا ’’تم پہلے نمک لے کر آئو‘ میں تمہیں پھر بتائوں گی‘‘ میں برا سا منہ بنا کر چلا گیا‘ ہمارا ہمسایہ بہت غریب تھا‘ اس کا دروازہ تک ٹوٹا ہواتھا‘ میں نے اس کی کنڈی بجائی‘ خاتون خانہ باہر آئی‘ میں نے اسے سلام کیا اور بتایا‘ میں آپ کے ہمسائے خواجہ صاحب کا بیٹا ہوں‘ لندن سے آیا ہوں‘ میری والدہ کو تھوڑا سا نمک چاہیے‘ اگر ہو سکے تو آپ دے دیجیے‘ خاتون کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی‘ وہ اندر گئی‘چھوٹی سی کٹوری میں تھوڑا سا نمک ڈال کرلے آئی اور مسکرا کر بولی‘ بیٹا امی کو میرا سلام کہنا اور پھرکہنا ‘آپ کو اگر مزید بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ منگوا لیجیے گا‘ میرے پاس آج فریش بھنڈیاں بھی ہیں۔
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور نمک لے کر آ گیا‘ میں والدہ سے بہت ناراض تھا‘ مجھے نمک مانگتے ہوئے بڑی شرم آئی تھی‘ میری والدہ نے مجھے دیکھ کر قہقہہ لگایا اور میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولی ’’بیٹا یہ لوگ غریب ہیں‘ یہ روز مجھ سے کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز مانگتے ہیں‘ ان کے بچے شروع شروع میں جب ہماری بیل بجاتے تھے تو مجھے ان کی آنکھوں میں شرمندگی اور بے عزتی محسوس ہوتی تھی‘ میں نے انھیں شرمندگی سے نکالنے کے لیے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے‘ میں ہر دوسرے دن ان سے کوئی نہ کوئی چیز مانگتی رہتی ہوں‘ کبھی نمک مانگ لیتی ہوں‘ کبھی مرچ کے لیے کسی کو بھجوا دیتی ہوں اور کبھی دوپٹہ ‘ چادر یا بالٹی مانگ لیتی ہوں۔
میرے مانگنے کی وجہ سے یہ کمفرٹیبل ہو جاتے ہیں اور ان کو جوبھی چیز چاہیے ہوتی ہے یہ ہم سے بے دھڑک لے لیتے ہیں‘‘ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے اپنی ماں کا ہاتھ تھاما اور دیر تک چومتا رہا‘ میری ماں نے اس کے بعد مجھے زندگی کا شان دارترین سبق دیا‘ انھوں نے فرمایا ’’بیٹا اپنے غریب ہمسایوں‘ رشتے داروں اور دوستوں سے چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگتے رہا کرو‘ اس سے ان کی انا کی بھی تگڑی رہتی ہے اور ہمارابھی ان سے تعلق قائم رہتا ہے‘‘ میں نے ایک بار پھر اپنی ماںکا ہاتھ چوم لیا‘ میری والدہ نے شام کو میرے ذریعے اس ہمسائے کے گھر سالن بھی بھجوا دیا‘ میں گوشت کا ڈونگا لے کر گیا اور ان سے تھوڑی سی بھنڈیاں مانگ کر لے آیا‘ اس رات مجھے طویل عرصے بعد لمبی اور پرسکون نیند آئی۔
یہ کیا شان دار واقعہ اور بے مثال سبق ہے‘ میں نے جب یہ سنا تو میرے سامنے بھی درجنوں واقعات کھل گئے‘ میرے والد بھی اپنے دوستوں سے تمباکو اور حقے کے لیے گڑ منگوایا کرتے تھے‘ یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری رہا جب ان کا حقہ عملاً بند ہو چکا تھا‘ ہمارے گھرمیں دس پندرہ کلو تمباکو ہروقت رہتا تھا مگر وہ اس کے باوجود مزید منگواتے رہتے تھے‘ میں نے ایک دن ان سے اس عجیب وغریب شوق کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے ہنس کر جواب دیا‘ میرے دوست بوڑھے ہو چکے ہیں۔
یہ اکیلے بھی ہیں اور یہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے بھی رہ گئے ہیں‘ مجھے تمباکو پہنچانا ان کی زندگی کی واحد ایکٹویٹی ہے‘ میں انھیں فون کر کے فرمائش کرتا ہوں تو یہ خوش ہو جاتے ہیں‘ یہ اس بہانے اسلام آباد آتے ہیں‘ میں انھیں ڈاکٹروں کو دکھا دیتا ہوں‘ دو تین دن ان کی خدمت کرتا ہوں‘ واپسی پر انھیں جوتے اور کپڑے بھی لے کر دیتا ہوں اور ہم ایک دو دن ہنس کھیل بھی لیتے ہیں‘ مجھے اس وقت والد کی منطق سمجھ نہیں آتی تھی لیکن جب میں نے نمک کا واقعہ سنا تو مجھے والد‘ تمباکو اور ان کے سارے پینڈو دوست یاد آ گئے اور پھر میں دیر تک سوچتا رہا ہماری بزرگ نسل کتنی شان دار اور وسیع القلب تھی‘یہ کس طرح لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ کررکھتی تھی جب کہ ہم تقسیم درتقسیم نسل ہیں‘ ہمارا اپنی ذات کے ساتھ بھی تعلق ٹوٹ چکا ہے‘ لاہور میں میرے ایک دوست رہتے تھے‘ اللہ تعالیٰ انھیں جوار رحمت میں جگہ دے۔
میں جب بھی ان سے ملنے جاتا تھا‘ وہ کسی نہ کسی ریستوران میں دعوت کرتے تھے‘ دس پندرہ بیس لوگوں کو انوائٹ کرتے تھے اور آخر میں بل ہمیشہ اپنے کسی نہ کسی غریب دوست سے دلاتے تھے‘ مجھے ان کی یہ حرکت بہت بری لگتی تھی‘ میں سوچتا تھا‘ یہ کیا چول حرکت ہے؟ وہ بے چارہ ہمارے سامنے موٹر سائیکل یا رکشے پر آیا اور شاہ صاحب نے اسے دس پندرہ ہزار روپے کابل ٹھونک دیا‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں انتہائی خوش حال بنا رکھا ہے‘ انھیں کم از کم یہ چول نہیں مارنی چاہیے‘ میں کئی برس تک شاہ صاحب کی اس حرکت پر کڑھتا رہا لیکن پھر ایک دن شاہ صاحب پکڑے گئے۔
میں واش روم میں تھا‘ شاہ صاحب بھی اپنے غریب دوست کو پکڑ کر واش روم میں لے گئے‘ وہ دونوں نہیں جانتے تھے میں اندر ان کی گفتگو سن رہا ہوں‘ شاہ صاحب نے اپنے غریب دوست کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگایا اور اس سے کہا ’’یار حماد باہر میرے دوست ہیں‘ یہ مجھے بل نہیں دینے دیں گے‘ تم یہ پیسے رکھو اور جب ویٹر بل لائے تو تم بل پکڑ کر زبردستی ادا کر دینا‘ اگر میرے دوست ضد کریں گے تو میں ان سے کہوں گا یہ دعوت حماد کی طرف سے تھی لہٰذا بل یہی دے گا‘ پلیز میرا پردہ رکھنا‘‘ حماد نے آہستہ آواز میں سرگوشی کی‘ شاہ جی آپ پیسے رہنے دیں‘ بل میں دے دوں گا‘ شاہ صاحب نے دوبارہ اس کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگایا اور منت کے لہجے میں کہا’’ حماد پلیز تم یہ رقم ادھار سمجھ کر رکھ لو لیکن بل اسی سے ادا کرو اور اس کے ساتھ ہی رقم اس کی جیب میں ڈال دی‘‘ وہ دونوں واش روم سے نکل گئے تو میں بھی آنکھیں صاف کرتا ہوا باہر آ گیا۔
دعوت کے آخر میں جب بل آیا تو سب نے اونچی آواز میں کہنا شروع کر دیا ’’میں دوں گا‘ میں دوں گا‘‘ لیکن شاہ صاحب نے حسب عادت اونچی آواز میں کہا ’’یہ بل حماد دے گا‘ یہ چوہدری صاحب سے ملنا چاہتا تھا لہٰذا اسے اب اس ملاقات کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی‘‘ اور ساتھ ہی حماد نے بل پکڑ لیا‘ میں نے یہ واقعہ بعدازاں بے شمارلوگوں کو سنایا اور ہر بار ان سے درخواست کی آپ جب بھی اپنے پرانے اور بچپن کے دوستوں سے ملیں‘ شان دار کھانا منگوائیں اور جب بل کی باری آئے تو بل اٹھا کر اپنے سب سے غریب دوست کے حوالے کر دیں اور ساتھ ہی میز کے نیچے سے اسے رقم پکڑا دیں‘ اس سے اس کا بھرم بھی رہ جائے گا‘ دوستوں میں اس کی عزت بھی بڑھ جائے گی اور آپ کا اس کے ساتھ تعلق بھی گہرا ہو جائے گا۔
یہ واقعات سن سن کر میرے چند جاننے والوں نے ’’دوستوں سے مانگتے رہو‘‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا گروپ بنا لیا ہے‘ اس گروپ کے لوگ اپنے غریب رشتے داروں اور دوستوں سے کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے ہیں‘ یہ کسی سے گنے منگوا لیتے ہیں‘ کسی سے گڑ‘ کسی سے مکھن‘ کسی سے پنیر‘ کسی سے دیسی انڈے‘ کسی سے ساگ اور کسی سے آٹا‘ یہ حرکت بظاہر بڑی چیپ محسوس ہوتی ہے لیکن آپ یقین کریں ان کی اس چیپ حرکت سے ان کے اپنے پرانے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ تعلقات بہت آئیڈیل ہیں‘یہ لوگ دوستوں سے دال‘ ساگ اور گڑ مانگتے ہیں اور دوست جواب میں ان سے دوائیاں‘ بچوں کی فیسیں اور بیٹیوں کا جہیز مانگ لیتے ہیں اور یہ لوگ دوستوں کو مہینے دو مہینے بعد کپڑے‘ جوتے‘ سویٹر اور رضائیاں بھی بھجواتے رہتے ہیں۔
آپ خود سوچیے یہ لوگ اگر ان سے گڑ نہیں مانگیں گے تو یہ غریب دوست ان سے اپنی تکلیف اور ضرورت کا ذکر کیسے کریں گے اور یہ اگران سے بھی اپنی ضرورت بیان نہیں کریں گے تو پھر یہ کس کے پاس جائیں گے؟ کیا انسان کو تکلیف میں دوستوں اور رشتے داروں سے رابطہ نہیںکرنا چاہیے؟ دوسری چیز آپ لوگ اپنے ہمسایوں سے بھی کچھ نہ کچھ مانگتے رہا کریں‘ اس سے آپ کے تعلقات دیواروں تک محدود نہیں رہیں گے‘ یہ صحن اور ڈرائنگ روم تک چلے جائیں گے لیکن اس کے لیے ایک بات کا خاص خیال رکھیں‘ پنجاب کی پرانی روایت تھی‘ ہماری دادیاں اور نانیاں دوسروں کا برتن خالی واپس نہیں بھجواتی تھیں اگر ایک گھر سے سالن آتا تھا تو واپسی پر اس برتن میں حلوہ یا میوہ جاتا تھا۔
آپ بھی ہمسایوں سے مانگیں اور واپسی پر اس برتن میں زیادہ بڑی اور شان دار چیزیں بھجوائیں‘ اس سے آپ کے تعلقات میں بھی اضافہ ہو گا اور اجنبیت کی دیواریں بھی گرجائیں گی اور آخری بات آپ کو جب بھی کوئی شخص کھانے کی چیز بھجوائے تو لوگوں کے درمیان اس کی جی بھر کر تعریف کریں‘ یہ یاد رکھیں ہم انسانوں کی فطرت ہے ہم ہمیشہ دوسروں سے کھانے کی چیز کی تعریف چاہتے ہیں‘ آپ ذرا یاد کریں لوگوں نے جب بھی آپ کے کھانے کی تعریف کی تھی تو آپ کو کیسا لگا تھا؟
آپ کو اگر اچھا لگا تھا تو آپ بھی یہ کر کے دیکھیں دوسروں کو بھی بہت اچھے لگے گا اور یہ بھی یاد رکھیں ہم سماجی جانور ہیں‘ ہم دوسروں سے کٹ کر نہیںرہ سکتے‘ ہماری ساری خوشیاں دوسروں کے دلوں سے نکلتی ہیں لہٰذا لوگوں سے رابطے میں رہا کریں‘ خوش رہیں گے ورنہ اپنی ہی ذات میں قیدتنہائی کا شکار ہو کر گھٹ گھٹ کر فوت ہو جائیں گے۔