معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
بنانا ری پبلک
وہ شونر ٹیلی گراف جہاز کا کیپٹن تھا اور اس کا نام تھا لورینرو ڈوبیکر‘ وہ بوسٹن کا رہنے والا تھا‘ وہ جہاز لے کر جمیکا جاتا اور آتا رہتا تھا‘ آمدورفت کے دوران اس نے جمیکا میں پہلی بار کیلے دیکھے‘ مقامی لوگ اس عجیب و غریب پھل کو بنانا کہتے تھے اور اسے سبزی کی طرح پکا کر بھی کھاتے تھے اور فروٹ کی طرح کھانے کے بعد بھی‘ وہ جتنا عرصہ جمیکا رہا کیلے کھاتا رہا‘ بوسٹن واپس آیا تو کیلوں کے کریٹ ساتھ لے آیا اور انھیں مقامی منڈی میں بیچ دیا۔
لوگوں کو یہ پھل دل چسپ لگا اور وہ اسے دھڑا دھڑ خریدنے لگے‘ بیکر کو ہزار فیصد منافع ہو گیا‘ اس نے نوکری چھوڑی اور کیلوں کا کاروبار شروع کر دیا‘ امریکا میں اس وقت صرف سیب مشہور تھا‘ لوگ صبح و شام سیب کھاتے تھے‘ بیکر نے کیلا متعارف کرایا اور لوگ سیب کے ساتھ کیلے بھی کھانے لگے اور یوں یہ آہستہ آہستہ ہر گھر کی ضرورت بن گیا۔
امریکا میں اب کیلے کی مارکیٹ تھی لیکن یہ یہاں اگتا نہیں تھا جب کہ جنوبی امریکا کے زیادہ تر ملکوں میں یہ عام تھا‘ بیکر نے کیلے امپورٹ کرنا شروع کر دیے اور اس تجارت سے کروڑوں ڈالر کمائے‘بیکر کو دیکھ کر دوسرے امریکی تاجر بھی بنانا بزنس میں کود پڑے‘ 1873 میں امریکا میں ریلوے نیٹ ورک شروع ہوا‘ دو ریل ٹائی کونز ہینری میگس اور اس کے بھانجے مائنر سی کیتھ ابھرے‘ یہ ریل کے ساتھ کیلے کے بزنس میں آئے اور کوسٹا ریکا میں ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ کیلے کے باغات لگوانا شروع کر دیے۔
یہ پراجیکٹ کام یاب ہو گیا تو یہ لوگ کیلے کے ساتھ ساتھ دوسرے پھل بھی جنوبی امریکا سے شمالی امریکا ایکسپورٹ کرنے لگے یوں 1870 کے آخر میں انڈسٹریل ایگریکلچر کے نام سے نیا بزنس شروع ہو گیا‘ نئی کمپنیاں بنیں اور یہ ساری کمپنیاں آخر میں یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کے جھنڈے تلے اکٹھی ہو گئیں‘ یونائیٹڈ فروٹ کمپنی آنے والے دنوں میں جنوبی امریکا کے ممالک کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہوئی۔
یہ اس وقت امریکا کی سب سے بڑی کمپنی تھی‘ اس کے پاس سیکڑوں بحری جہاز بھی تھے‘ ریل کی ذاتی پٹڑیاں بھی اور یہ بہت بڑی ذاتی فوج کی مالک بھی تھی‘ کاروبار چل رہا تھا لیکن اس دوران مقامی حکومتوں اور لوگوں نے مزاحمت شروع کر دی‘ کمپنی جنوبی امریکا کے ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتیں بنوانے لگی‘ اس کا پہلا ٹارگٹ ہنڈورس تھا‘ مالکان نے ہنڈورس میں ایک سیاسی جماعت کو سپورٹ کیا۔
وہ حکومت میں آئی اورکمپنی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پھر اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ یہ آہستہ آہستہ پورے جنوبی امریکا میں اپنی حکومتیں بنواتی چلی گئی اور اس کا کاروبار فروٹ اور اناج سے آگے نکلتا چلا گیا‘ اس میں چینی‘ ادویات اور کوکین بھی شامل ہوئی اور یہ شراب کی سب سے بڑی سپلائر بھی بن گئی‘ کمپنی پروفائل اخبارات میں آنا شروع ہوا تو امریکی رائٹر اوہنری نے 1904میں کمپنی کے زیر اثر ممالک کو بنانا ری پبلک کا نام دے دیا اور یوں دنیا میں یہ اصطلاح متعارف ہو گئی اور اب دنیا کے ہر اس ملک کو بنانا ری پبلک کہا جاتا ہے جس کے وسائل محدود اور اخراجات زیادہ ہوں اور اس میں قانون اور آئین کی گرفت کم زور ہو۔
دنیا ہمیں بھی بنانا ری پبلک کہتی ہے لیکن ہم فوراً برا مان جاتے ہیں مگر آپ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے‘ کیا ہم بنانا ری پبلک نہیں ہیں؟ کیا اس ملک میں قانون یا آئین کی کوئی عزت بچی ہے؟ انسانی نفسیات ہے آپ جب کسی شخص کو برفی چوری کرنے کا موقع دے دیتے ہیں تو وہ اس کے بعد دودھ کا ڈبا بھی اٹھا لیتا ہے اور آپ جب پہلے چور کا ہاتھ نہیں روکتے تو پھر پورا شہر ساری ٹرینیں لوٹ لیتا ہے۔
لہٰذا قومیں خرابی‘ برائی یا فساد کو شروع ہی میں روکتی ہیں اور ہم نے آج تک یہ نہیں کیا‘ آپ نے کبھی سوچا امریکا‘ برطانیہ‘ یورپ اور جاپان جیسے ملکوں میں سیاست دان‘ بادشاہ‘ ملکہ یا کوئی وزیراعظم یا صدر قانون یا آئین کیوں نہیں توڑتا؟ کیوں کہ وہ جانتا ہے میں قانون توڑ تو لوں گا لیکن میں اس کے بعد قانون کے ہاتھ سے بچ نہیں سکوں گا جب کہ ہمارے ملک میں آئین توڑنے یا دوسروں کے سراتارنے والے دونوں مطمئن ہوتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ جانتے ہیں اس ملک میں قانون توڑا بھی جا سکتا ہے۔
خریدا بھی جا سکتا ہے اور اسے بدلا بھی جا سکتا ہے لہٰذا جب قانون یا آئین اتنا کم زور ہو گا تو پھر یہ محفوظ کیسے رہے گا؟ دوسرا ہم نے جب جنرل ایوب خان کو مارشل لاء لگانے کی اجازت دے دی اور عدالت نے اس مارشل لاء پر نظریہ ضرورت کی مہر لگا دی تو پھر جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو کون روک سکتا تھا اور ان ادوار کے چیف جسٹس کو بھی جسٹس منیربننے سے کیسے روکا جا سکتا تھا؟
دوسرا ہم جب مشرقی پاکستان جیسا کڑوا گھونٹ بھر گئے اور ہم نے کسی شخص کو اس سانحے کا مجرم قرار دیا اور نہ کسی کو سزا دی تو پھر ہم مغربی پاکستان کو کیسے بچا سکتے ہیں؟ اور تیسری بات ہم نے جب ملٹری ڈکٹیٹرز کو آئین معطل کرنے کی اجازت دے دی تو ہم باقی اداروں کو کیسے روک سکتے ہیں لہٰذا ملک کے ہر دور میں ہر سیاسی حکومت نے آئین کے ساتھ اپنی مرضی کی چھیڑ چھاڑ کی اور کوئی اس کا ہاتھ بھی نہیں روک سکا اوریہ اس ملک کی سب سے بڑی سچائی ہے‘ یہ سچائی اب بڑھتے بڑھتے معاشرے تک پہنچ گئی ہے چناں چہ آج ملک میں میرا جسم میری مرضی بھی چل رہی ہے اور سڑکیں بند کر کے پولیس اہلکاروں کا قتل عام بھی جاری ہے اور ریاست کے پاس خاموش کھڑے ہو کر تماشا دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
آپ آج دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور سعد رضوی میں کیا فرق ہے؟ کیا یہ دونوں آئین کو تسلیم کرتے ہیں؟ مجھے اگر آپ اجازت دیںتو میں آج یہ اعتراف کروں گا سعد رضوی بہرحال قاسم سوری سے بہتر ہیں‘ یہ معاہدہ کر کے خاموش تو بیٹھ گئے جب کہ قاسم سوری نے آئین کا حلف اٹھا کر اسی آئین کو پائوں تلے روند ڈالا اور یہ شرمندہ بھی نہیں ہیں‘ ہم برسوں سے اس ملک میں کرپشن کرپشن‘ قانون قانون اور آئین آئین کا سیاپا کر رہے ہیں۔
ہم نے کبھی سوچا ہمارے ملک کے مقتدر عہدیدار کرپشن کیوں کرتے ہیں؟ یہ آئین اور قانون کیوں توڑتے ہیں؟ کیوں کہ ہم نے آج تک کسی کو سزا نہیں دی‘ ذرا سوچیے عمران خان نے کیوں 198 ارکان اسمبلی کو غدار قرار دے دیا اور ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا ان غداروں میں چار سابق وزراء اعظم‘ ایک سابق صدر‘ ایک سابق اسپیکر اور 65 سابق وزراء بھی ہیں اور وہ ایم کیو ایم‘بلوچستان عوامی پارٹی‘ ق لیگ اور جی ڈی اے کے ارکان بھی جو ساڑھے تین سال تک ان کے اتحادی رہے ہیں اور ’’غداروں‘‘ میں حکومت کے وزیر قانون فروغ نسیم اور فواد چوہدری کے کزن فرخ الطاف بھی شامل ہیں اور گورنر پنجاب چوہدری سرور اور علیم خان بھی‘ عمران خان نے کیوں نہیں سوچا؟ اور احسن جمیل گجر اور ان کی اہلیہ فرح احسن کیوں پنجاب حکومت چلاتی رہی اور یہ چار بیورو کریٹس کے ساتھ مل کر کروڑوں روپے کیوں کماتی رہی اور کیوں عرب ملک کے شہزادے کی گھڑی ایک طاقتور شخصیت کے بیٹے نے مارکیٹ میں بیچ دی اور وہ گھڑی بکتی ہوئی اسی شہزادے کے پاس پہنچ گئی۔
کیوں؟ آخر کیوں؟ کیوں کہ خاور مانیکا کے صاحب زادے سے لے کر فرح احسن اور عمران خان سے لے کر قاسم سوری تک سب جانتے ہیں قانون اور آئین ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘ ہم کچھ بھی کر لیں ہمیں بہرحال این آر او مل جائے گا لہٰذا سوال ہے اگر چینی‘ آٹا‘ ادویات اور رنگ روڈ مافیا کرپشن کر سکتا ہے۔
اگر غلام سرور خان نووا سٹی کے ساتھ مل کر اربوں روپے بنا سکتے ہیں تو پھر فرح احسن اور مانیکا خاندان کیوں پیچھے رہے اور ذلفی بخاری‘ یاور بخاری‘ شیخ رشید اور عثمان بزدار کیوں نہ کمائیں اور جب آئین چار چار بار ٹوٹنے کے بعد بھی کسی کو مجرم قرار نہ د ے سکے تو پھر قاسم سوری کیوں پیچھے رہے اور جب مشرقی پاکستان توڑنے والوں کو بھی معافی مل جائے تو پھر عمران خان اس رہے سہے پاکستان کی منجی پیڑی کیوں نہ ٹھوکے اور اگر قانون پورے ملک کا بیڑہ غرق کرنے والوں کا ہاتھ اور زبان نہ روک سکے تو پھر عام آدمی سڑک پر سگنل کیوں نہ توڑے؟ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا ملک میں ہونے والے ان واقعات کے بعد ظاہر جعفر اور ویڈیو اسکینڈل کے ملزم عثمان مرزا کو جیل میں رکھنے کا کوئی جواز ہے؟ ہم نے جیلوں میں لاکھوں لوگوں کو کیوں بند کر رکھا ہے۔
کیا ان کے جرائم اسد قیصر اور قاسم سوری سے زیادہ سنگین ہیں؟ ہم سگنل توڑنے والوں کو بھی کیوں جرمانہ کرتے ہیں‘ کیا یہ حکمرانوں سے بڑے ملزم ہیں اور اس ساری صورت حال کے بعد آپ ایک بار پھر دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا ہم بنانا ری پبلک نہیں ہیں؟ دنیا کی پہلی اسلامک نیوکلیئر پاور چھ دن سے حکومت کے بغیر چل رہی ہے اور مجال ہے کسی کو شرم آتی ہو؟ کیا ملک یہ ہوتے ہیں اور کیا یہ ایسے چلتے ہیں؟ کیا کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟