معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
نواز شریف واپس آ رہے ہیں
آپ کو یاد ہوگا17 نومبر2021 کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا تھا‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم این اے میاں جاوید لطیف ہال میں داخل ہوئے‘ سامنے تین وفاقی وزراء بابر اعوان‘ غلام سرور خان اور بریگیڈیئر(ریٹائر) اعجاز شاہ بیٹھے ہوئے تھے۔
اجلاس میں آدھ گھنٹہ باقی تھا‘ تینوں نے میاں جاوید لطیف کو پیش کش کی آپ اجلاس شروع ہونے تک ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں‘ میاں صاحب بیٹھ گئے‘ گفتگو شروع ہوئی تو سیاست سے چلتی ہوئی معیشت تک پہنچ گئی۔
نارکوٹکس کنٹرول کے وفاقی وزیر بریگیڈیئر(ریٹائر) اعجاز شاہ نے بتایا میں آج صبح لاہور سے آ رہا تھا‘ میں نے اپنے بیٹے سے کہا ’’ننکانہ میں ہماری آبائی زمینیں ہیں‘ وہ تمہیں خاندان کے لوگ نہیں بیچنے دیں گے لیکن میں نے زندگی میں جو کچھ کمایا اور جو کچھ بنایا وہ تم بیچ دو اور کسی پرسکون ملک میں جا کر آباد ہو جاؤ‘ ملک کے حالات ٹھیک ہونے کا امکان نظر نہیں آ رہا‘‘ غلام سرور نے کھنگار کر انھیں روکا اور کہا ’’شاہ صاحب آپ یہ بات کس کے سامنے کر رہے ہیں۔
یہ سب کو بتا دے گا‘‘ اعجاز شاہ نے میاں جاوید لطیف کی طرف دیکھا‘ مسکرائے اور کہا’’مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ جو سچ ہے وہ سچ ہے اور ہمیں اب یہ مان لینا چاہیے‘‘ مجھے یہ واقعہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے بتایا تھا‘ میں نے جمعہ 24 دسمبر کو میاں جاوید لطیف کو فون کیا اور ان سے واقعے کی تصدیق چاہی‘ میاں جاوید لطیف نے نہ صرف اس واقعے کی تصدیق کر دی بلکہ یہ بھی بتایا ’’اعجاز شاہ کا کہنا تھا میں نے جب فوج میں کمیشن لیا تھا تو ڈالر ساڑھے تین روپے میں ملتا تھا‘ میں خود اس قیمت پر ڈالر خریدتا تھا لیکن یہ اب 178 روپے کا ہو چکا ہے لہٰذا آپ خود بتائیں ملک اور معیشت کیسے چلے گی؟‘‘
یہ واقعہ محض ایک واقعہ نہیں‘ یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک اب حکومتی وزراء کو بھی ہو رہا ہے‘ یہ بھی اب جان چکے ہیں ہم ان حالات میں ملک نہیں چلا سکیں گے‘ اگر کسی کو غلط فہمی تھی تو وہ 20دسمبرکو کے پی میں بلدیاتی الیکشنز نے دور کر دی۔
پاکستان تحریک انصاف کا خیال تھا ’’صوبے کے عوام کالے چور کو ووٹ دے دیں گے لیکن مولانا پر اعتماد نہیں کریں گے‘‘ لیکن عوام نے مولانا کو ووٹ دے کر پورے ملک کی سیاست ہلا کر رکھ دی‘ یہ زلزلہ تھا لیکن اس زلزلے کے بعد وزیراعظم کے ردعمل نے پارٹی کو مزید پریشان کر دیا‘ وزیراعظم نے ٹینشن میں صوبائی تنظیمیں توڑ دیں اور ٹکٹوں سمیت بلدیاتی الیکشنز کے تمام امور اپنے ہاتھ میں لے لیے‘ پارٹی اس کے بعد سرجوڑکر سوچ رہی ہے ہم اگر اس بار بھی الیکشن ہار گئے تو کیا یہ وزیراعظم کا فیلیئر نہیں سمجھا جائے گا۔
کیا ہمارے پاس اس کے بعد حکومت کرنے کا کوئی جواز بچ جائے گا؟ ہم نے 20 دسمبر کی شکست کا بوجھ پارٹی کی صوبائی اور ضلع تنظیموں کے کندھوں پر ڈال کر اپنی عزت بچا لی تھی لیکن جب تمام فیصلے وزیراعظم کریں گے تو ہار کے بعد ہمارے پاس کیا جواب ہو گا لہٰذا وزیراعظم کو استروں کی یہ مالا اپنے گلے میں نہیں ڈالنی چاہیے تھی لیکن اب کیا ہو سکتا ہے‘ ٹویٹ ہو چکی ہے اور یہ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کی ہیڈ لائین بھی بن چکی ہے۔
چناں چہ اب اگر بلدیاتی الیکشنز میں شکست ہوئی تو یہ سیدھی سادی وزیراعظم کی ہار سمجھی جائے گی‘ دوسرا 24دسمبرکو وزیراعظم اور وفاقی وزراء نے یہ اعتراف کرلیا ’’ میاں نواز شریف کی نااہلی ہٹوانے کے راستے نکالے جا رہے ہیں‘‘ وزیراعظم کی طرف سے یہ اعتراف ثابت کرتا ہے وقت اور ہوائیں واقعی بدل چکی ہیں اور حکومت کی مٹھی سے اب حکمرانی کی ریت تیزی سے پھسل رہی ہے۔
یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی میاں نواز شریف سے لندن میں مذاکرات کے کئی سیشن ہوئے‘ یہ سیشن تیسرے‘ دوسرے اور پہلے تینوں لیول پر ہوئے اور خاندان اور پارٹی میں میاں نواز شریف‘ اسحاق ڈار اور حسین نواز کے علاوہ کوئی شخص ان مذاکرات کے بارے میں نہیں جانتا تھا تاہم تین ملکوں نے اس میں اہم کردار ادا کیا اور یہ ان مذاکرات کے گارنٹر بھی ہیں۔
یہ مذاکرات کیوں ہوئے؟ اس کی تین بڑی وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ ملک کی معاشی حالت ہے‘ پاکستان معاشی لحاظ سے حقیقتاً تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور یہاں سے واپسی کا بھی کوئی چانس نظر نہیں آ رہا‘ ہم نے غیرملکی بینکوں سے قرضے تک لینا شروع کر دیے ہیں‘ ملک میں پہلی مرتبہ ڈیفنس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی قرضے لیے جا رہے ہیں اور اگر خدانخواستہ اس صورت حال میں بھارت کی طرف سے کسی قسم کی جارحیت ہو جائے تو ملک کہاں کھڑا ہو گا؟ چناںچہ اس نازک وقت میں مذاکرات ضروری تھے‘ دوسری وجہ میاں نواز شریف کا مضبوط مؤقف ہے۔
یہ اس بار پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ ان کے پاس خفیہ کالز اور وڈیوز کا ٹھیک ٹھاک خزانہ بھی موجود ہے اور یہ درجنوں ایسے ریاستی رازوں سے بھی واقف ہیں جن کا اعتراف ریاست کو لے کر بیٹھ جائے گا لہٰذا فیصلہ ساز قوتوں کو محسوس ہوا ہم نے اگر انھیں گنجائش نہ دی‘ اپنے پرانے فیصلے ’’ان ڈو‘‘ نہ کیے تو ہماری آزمائش میں اضافہ ہو جائے گا اور تیسری وجہ حکومت کی خوف ناک نالائقیاں اور حماقتیں ہیں۔
عمران خان نے نادانی میں ملک کا سارا معاشی پہیہ روک دیا ‘ سی پیک گیم چینجر تھا لیکن یہ حکومت کی بے وقوفیوں کی وجہ سے رک گیا‘ حکومت قوم کو بار بار تسلیاں دے رہی ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے‘ سی پیک پر کام بہت سست ہو چکا ہے اور چین اس حکومت پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں‘ اس نے ساڑھے تین برسوں میں مواصلات کے وفاقی وزیر مراد سعید کو ایک بار بھی چین کے دورے پر نہیں بلایا تاہم نواز شریف کے ساتھ چین کے تعلقات اب بھی آئیڈیل ہیں اور اگر میاں نواز شریف واپس آتے ہیں تو چین ہماری معیشت میں 35 بلین ڈالر ڈالنے کے لیے تیار ہو جائے گا اور یوں ہم معاشی گرداب سے نکل آئیں گے۔
ریاست بھی اچھی طرح جانتی ہے ہم اگر یہ ڈیل نہیں کرتے تو پھر ہمیں قرضوں سے جان چھڑانے کے لیے اپنے ایٹمی پروگرام سے محروم ہونا پڑے گا اور یہ موت کے برابر ہوگا‘ انڈیا ہمیں اس کے بعد سانس تک نہیں لینے دے گا لہٰذا مذاکرات ہوئے اور بات تقریباً فائنل ہو گئی مگر ایشو یہ تھا اگر میاں نواز شریف کو واپسی کا موقع دے دیا جاتا ہے‘ یہ الیکشن لڑتے ہیں اور یہ اگر چوتھی بار وزیراعظم بن جاتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے یہ انتقام نہیں لیں گے‘ یہ جسٹس ثاقب نثار‘ دو سابق ڈی جی آئی ایس آئی ‘ ایک ریٹائرڈ آرمی چیف اور عمران خان کے خلاف تحقیقاتی کمیشن نہیں بنائیں گے۔
یہ خدشات درست تھے لیکن دو دوست ملک نواز شریف کی گارنٹی دینے کے لیے تیار ہیں‘ یہ چاہتے ہیں میاں نواز شریف واپس آئیں ‘ جیل جائیں ‘ مقدمہ لڑیں اور انھیں اس بار ’’فیئر ٹرائل‘‘ دیا جائے اور فیصلہ اس بار واٹس ایپ پر نہیں ہونا چاہیے‘ الیکشن ہوں اور اگر عوام میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنا دیتی ہے تو ان کے راستے میں کوئی دیوار کھڑی نہ کی جائے ‘ میاں نواز شریف اور مذاکراتی ٹیم اس کے لیے راضی ہو چکے ہیں لیکن پارٹی اور خاندان کے چند لوگ میاں صاحب کو مشورہ دے رہے ہیں ’’آپ جب تک عدالتوں سے رہا نہیں ہو جاتے‘ آپ کے بارے میں جب تک فیصلہ نہیں آ جاتا میاں نواز شریف اور مریم نواز کو 2018 میں غلط سزا دی گئی تھی آپ اس وقت تک واپس نہ آئیں‘ انھیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے دسمبر ملک اور سیاست دانوں کے لیے بھاری ہوتا ہے۔
انٹرنیشنل گارنٹیز کے باوجود 16 دسمبر 1971کو پاکستان ٹوٹ گیا تھا اور 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا تھا‘ محترمہ بھی بین الاقوامی ضامنوں کی ضمانت پر ملک میں واپس آئی تھیں مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ لیکن میاں نواز شریف اس کے باوجود رسک لینے کے لیے تیار ہیں‘ یہ اب کسی بھی وقت واپس آ جائیں گے‘ جنوری کا مہینہ انھیں سوٹ کرتا ہے۔
کیوں؟ کیوں کہ یہ اگر جنوری میں آتے ہیں تو فروری اور مارچ کے مہینے تک ان کے مقدمات نبٹ جائیں گے اور اگر اس دوران تحریک عدم اعتماد نہیں ہوتی اور میاں شہباز شریف وزیراعظم نہیں بنتے تو میاں نوازشریف 23 مارچ کو لانگ مارچ کی قیادت کریں گے‘ اس دوران منی بجٹ بھی آ چکا ہو گا‘ آئی ایم ایف کے معاہدے کے خوف ناک نتائج بھی سامنے آ چکے ہوں گے اور پی ٹی آئی باقی صوبوں سے بھی بلدیاتی الیکشن ہار چکی ہو گی چناں چہ پی ڈی ایم کا لانگ مارچ اور 23 مارچ کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان یہ حکومت کے خاتمے کے لیے کافی ہو گا۔
یہ میاں نواز شریف کا فارمولا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا عمران خان اس دوران ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں گے‘ میرا خیال ہے نہیں‘عمران خان کے ہاتھ میں اس وقت بھی دو کارڈز موجود ہیں اور یہ شکست سے پہلے یہ دونوں کارڈز ضرور استعمال کریں گے لیکن کیا انھیں کارڈ استعمال کرنے کا موقع مل سکے گا‘ یہ ایک بلین ڈالر کا سوال ہے اور اس کے جواب کے لیے ہمیں دو ہفتے انتظار کرنا ہو گا‘ ڈرامہ تقریباً ختم ہو چکا ہے بس پردہ گرنا باقی ہے اور یہ پردہ کون گراتا ہے وہ ہاتھ چند دنوں میں سامنے آ جائیں گے لیکن میاں نواز شریف بہرحال واپس آ رہے ہیں۔