شہباز شریف بمقابلہ شہباز شریف

میاں شہباز شریف کے بارے میں آج تک یہ کہا اور بتایا گیا یہ صرف ایڈمنسٹریٹر ہیں‘یہ سیاست نہیں جانتے‘ میں بھی یہی سمجھتا تھا لیکن آج حالات یکسر مختلف ہیں‘ اپوزیشن پارٹیاں ہوں‘ حکومت ہو‘ اس کے اتحادی ہوں‘ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ہوں یا پھر فیصلہ ساز قوتیں ہوں یہ سب میاں شہباز شریف کے آگے پیچھے پھر رہے ہیں‘ کیا یہ سیاست نہیں ہوتی اور اگر یہ بھی سیاست نہیں ہوتی تو پھر سیاست کیا ہوتی ہے؟

وہ شخص جسے ساڑھے تین برس عدالتوں اور جیلوں میں گھسیٹا گیا اور جسے حکومت ہر صورت 2022سے پہلے تیسری بار جیل میں دیکھنا چاہتی تھی لیکن منظور پاپڑ والا مشہور ہو گیا اور شہزاد اکبر فارغ ہو گیا مگر وہ شخص جیل سے بھی باہر رہا اور ساری پارٹیاں مل کر اسے وزیراعظم بھی بنا رہی ہیں‘ کیا یہ بھی سیاست نہیں ؟ حکومت ساڑھے تین سال یہ سمجھتی اور کہتی رہی ن لیگ سے ش لیگ نکلے گی۔

میاں نواز شریف کسی صورت اپنے بھائی کو وزیراعظم نہیں بنائیں گے اور یہ کرسی بہرحال مریم نواز کے پاس جائے گی لیکن شہباز شریف نے اپنے بھائی کو بھی راضی کر لیا‘ کیا یہ بھی سیاست نہیں اور پارٹی بھی ان کو مسلسل مسترد کرتی رہی‘ میں درجنوں سینئر ارکان کو جانتا ہوں جو چلتے چلتے کہا کرتے تھے ’’آپ شہباز صاحب کو چھوڑیں وہ ایسی باتیں کرتے ہی رہتے ہیں‘‘ لیکن شہباز شریف نے آخر میں پارٹی کو بھی ’’میں نہ کہتا تھا ہمارے وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے‘‘ کے دعوئوں پر مجبور کر دیا اور کیا یہ بھی سیاست نہیں ؟ لہٰذا میاں شہباز شریف اب اگر وزیراعظم نہیں بھی بنتے تو بھی یہ خودکو سیاست دان ثابت کرنے میں کام یاب ہو چکے ہیں۔

میاں شہباز شریف اگر وزیراعظم بن جاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ یہ ایک ارب روپے کا سوال ہے اور اس کے جواب کے تین حصے ہیں‘ پہلا حصہ‘ کیا وہ حکومت کام یابی سے چل جائے گی؟ اس کا سیدھا اور سادا جواب ہے‘ نہیں‘ وہ حکومت بمشکل چھ ماہ نکالے گی‘ نئے آرمی چیف کی تقرری کے ساتھ ہی وہ حکومت ختم ہو جائے گی اور ملک میں نئے الیکشن ہو جائیں گے تاہم وہ حکومت چند بڑے کام کرجائے گی۔

یہ انتخابی اصلاحات (الیکٹورل ریفارمز) کرے گی اور اس میں پی ٹی آئی کو بھی شامل کرے گی‘ ای وی ایم کا مسئلہ حل کرے گی‘ ججز کی تقرری کا طریقہ کار طے کرے گی‘ نیب ختم کرے گی‘ اٹھارہویں ترمیم میں چند اصلاحات کرے گی اور معیشت کے چند اصول طے کرے گی اور یہ کام جوں ہی مکمل ہو جائیں گے وزیراعظم اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کا اعلان کر دے گا اور اگر یہ نہیں ہوتا اور یہ حکومت سال سوا سال تک چلتی رہتی ہے تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کو بہت نقصان ہو گا اور عوام یہ کہنا شروع کر دیں گے۔

عمران خان اچھا تھا‘ وہ روٹی نہیں دیتا تھا لیکن روزانہ اپنے بیانات سے ہمارے لیے انٹرٹینمنٹ کا بندوبست تو کر دیتا تھا‘ دوسرا یہ حکومت اگر طویل ہو گئی تو چوہدری برادران اور آصف علی زرداری ن لیگ کو پنجاب سے فارغ کر دیں گے اور میاں صاحبان یہ حقیقت جانتے ہیں لہٰذا یہ کبھی یہ رسک نہیں لیں گے‘ یہ اسی سال اسمبلیاں توڑ کر نیا الیکشن کرا دیں گے‘ دوسرا حصہ‘ یہ حکومت عوام کو ریلیف ضرور دے گی۔

مہنگائی بھی کم ہو گی‘ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہو گا‘ اسٹاک ایکسچینج کو بھی بہتر بنائے گی‘ سی پیک کی اسپیڈ بھی بڑھائے گی اور یہ ڈالر کو بھی دس پندرہ روپے نیچے لے آئے گی‘ یہ کام موجودہ حالات میں حقیقتاً مشکل ہیں لیکن حکومت کو یہ بہرحال کرنا پڑیں گے‘ حکومت اگر یہ نہیں کرتی تو پھر عوام حکومت کی مرمت کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرے گی۔

لوگ دس پندرہ دنوں میں بولنا شروع کر دیں گے اور آج کی اپوزیشن اور فیوچر کی حکومت یہ افورڈ نہیں کر سکے گی لہٰذا میرا ذاتی خیال ہے وزارت خزانہ ن لیگ اپنے پاس رکھے گی اور یہ جیسے تیسے گر پڑ کر عوام کو ریلیف ضرور دے گی اور تیسرا پہلو‘ یہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نیا عمرانی معاہدہ کرے گی‘ یہ ان سے مل کر نئی حدود طے کرے گی۔

ان کو بھی اسپیس دے گی اور ان سے اپنے لیے بھی اسپیس لے گی تاکہ مستقبل میں غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں‘ حکومت فوج کے ساتھ مل کر آرمی چیف کی تقرری کا لائحہ عمل بھی طے کرے گی اور یہ فیصلہ ہو جائے گا مستقبل میں جو بھی جنرل سنیارٹی میں پہلے نمبر پر ہو گا وہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی طرح ایک خودکار نظام کے تحت چپ چاپ چیف بن جائے گا اور وہ اگر کسی مجبوری کے تحت یہ ذمے داری نہ لینا چاہے تو نمبر ٹو آٹومیٹک اس کی پوزیشن پر آ جائے گا اگر یہ بندوبست ہو گیا تو یہ ملک کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو گا‘ ملک واقعی چل پڑے گا۔

ہم اب آتے ہیں چار مزید بنیادی سوالوں کی طرف‘یہ سوال بھی عبوری حکومت کے لیے ضروری ہیں‘ پہلا سوال‘ شہباز شریف کیسے وزیراعظم ثابت ہوں گے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ پنجاب میں پرفارمنس کی وجہ سے میاں شہباز شریف کا ایک پبلک امیج بن چکا ہے‘ لوگ انھیں پرفارمر کی حیثیت سے جانتے ہیں لہٰذا آج کے شہباز شریف کا مقابلہ ماضی کے شہباز شریف سے ہوگا‘ انھیں اپنے ریکارڈ خود توڑنے پڑیں گے اور اتحادی حکومتوں میں یہ کام آسان نہیں ہوتا لہٰذا یہ اگر وزیراعظم بن جاتے ہیں تو ان کا مقابلہ اپنے ساتھ ہو گا اور انھیں یہ میچ بھی جیتنا پڑے گا۔

یہ یاد رکھیں پاکستان کی زندگی میں تین مشکل ترین دور گزرے ہیں‘ 1947۔ جب خزانے میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے پیسے بھی نہیں تھے‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ کساد بازی اور قلت گنڈاسا لے کر گلیوں میں پھر رہی تھی‘ 1971 ۔جب یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا‘ حالات اس وقت بھی انتہائی دگر گوں تھے اور اب 2022۔ ملک واقعی خوف ناک دور سے گزر رہا ہے۔

اس وقت کوئی بھی شعبہ نہیں چل رہا‘ ہر چیز لڑھک رہی ہے اور اسٹیٹ لاتعلق ہو کر سائیڈ پر کھڑی ہے اور یہ ان خرابیوں کو روکنا چاہتی ہے اور نہ اس میں خرابیوں کو روکنے کی صلاحیت ہے‘ ملک عملاً آئی ایم ایف کے پاس گروی ہے‘ افغانستان میں بحران جنم لے چکا ہے‘ روس یوکراین جنگ خوف ناک بادل بن چکی ہے‘ امریکا‘ چین‘ ترکی اور سعودی عرب پاکستان سے ناراض ہیں‘ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلہ بڑھ چکا ہے۔

بیوروکریسی میں اہلیت بھی کم ہو چکی ہے اور اس کا ارادہ بھی ٹوٹ چکا ہے‘ملک میں اب کوئی افسر کام کرنے کے لیے تیار نہیں‘ معاشرے میں نفرت اور عناد کا لیول بھی سرخ نشان سے بہت آگے جا چکا ہے‘ قرضوں کا پہاڑ کندھوں پر سوار ہے‘آج وہ انڈسٹری بھی سر پر ہاتھ رکھ کر رو رہی ہے جس نے ساڑھے تین برسوں میں کھربوں روپے کمائے‘ کنسٹرکشن انڈسٹری مدر انڈسٹری تھی‘ یہ چھ سو چھوٹی بڑی انڈسٹریزی کو چلاتی تھی لیکن حکومت کی حماقت سے کنسٹرکشن کاسٹ اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ لوگ اب گھر افورڈ ہی نہیں کر سکتے‘ بھارت اور پاکستان کے فاصلوں میں بھی بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے۔

ہم کشمیر عملاً کھو چکے ہیں اور ہم نے اگر اب بھی عقل سے کام نہ لیا تو ہم آزاد کشمیر بھی کھو دیں گے‘ وزیراعظم نے عین جنگ کے دن روس جا کر یورپی یونین سے بھی اپنے تعلقات خراب کر لیے ہیں‘ ہمارے پاس جی پلس کا اسٹیٹس تھا‘ یہ اسٹیٹس بھی اب بچتا نظر نہیں آ رہا اور خلیج کے اندر بھی بڑی بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں‘ ہمارے چالیس لاکھ لوگ وہاں کام کرتے ہیں‘ یہ بھی آنے والے وقت میں متاثر ہوں گے اور یہ بھی ایک ٹھیک ٹھاک بحران ہو گا اور یہ تمام بحران میاں شہباز شریف کی حکومت کو بھگتنا ہوں گے اور یہ اتنا آسان نہیں ہو گا‘ دوسرا سوال کیا نئی حکومت عمران خان سے بدلہ لے گی؟

میرا خیال ہے یہ لوگ یہ نہیں کریں گے‘ یہ عمران خان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدیں گے لیکن اگر قانونی ادارے مثلاً الیکشن کمیشن‘ عدلیہ ‘ ایف آئی اے‘ اینٹی کرپشن یا چینی‘ آٹے اور پٹرولیم کے کمیشن کوئی کارروائی کرتے ہیں تو یہ انھیں نہیں روکیں گے مگر میاں صاحبان خود عمران خان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے‘ یہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ بنائیں گے اور نہ کوئی بیان دیں گے۔

تیسرا سوال‘ کیا اگلی حکومت قومی ہو گی؟ یہ لوگ اس عبوری حکومت میں 2023 کی حکومت کا نقشہ بنا لیں گے‘ یہ ایک ایسی قومی حکومت تشکیل دیں گے جس میں تمام پارٹیاں شامل ہوں گی‘ پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کوبھی حکومت میں شامل کر لیا جائے گا تاکہ ملکی نظام چل سکے۔

صرف عمران خان اور ان کے دو درجن ساتھی رہ جائیں گے اور یہ ملک کی واحد اپوزیشن ہوگی اور چوتھا سوال‘ کیا پی ڈی ایم نے عبوری حکومت کا نقشہ بنا لیا ہے؟ میری اطلاع کے مطابق یہ لوگ سردست صرف ایک ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ’’عمران خان کو ہٹائیں‘‘ اگر عمران خان ہٹ گیا تو یہ ایک بار پھر اکٹھے بیٹھیں گے اور عبوری حکومت کا نقشہ اور مدت طے کریں گے‘اپوزیشن نے سردست عمران خان کے علاوہ کوئی چیز طے نہیں کی‘ چوہدری صاحبان کے بارے میں بھی فیصلہ نہیں ہوا‘ یہ اگر ملاقاتوں کے پہلے دور میں اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تو ق لیگ کو توقع سے زیادہ مل جاتا لیکن یہ پہلی ٹرین مس کر چکے ہیں اور اگلی ٹرین آنے میں ابھی بہت وقت ہے۔

تاہم مونس الٰہی لندن میں جہانگیر ترین کی عیادت کر رہے ہیںاگر ترین صاحب راضی ہو گئے اور یہ گروپ مل کر بڑا بن گیا تو شاید یہ بھی عبوری حکومت کا حصہ بن جائیں ورنہ سردست عمران خان کی رخصتی اور میاں شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے علاوہ کوئی چیز طے نہیں ہوئی‘ یہ تمام فیصلے عدم اعتماد کے بعد ہوں گے۔میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں عمران خان کے ہاتھ میں ایک کارڈ اب بھی موجود ہے اگر وہ کارڈ چل گیا تو صورت حال یکسر بدل جائے گی اور ریاست شہباز شریف کے بجائے شہباز گل سے کام چلانے پر مجبور ہو جائے گی۔