معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ہمالیہ کے گلیشیئرز کا رقبہ 8,400 مربع کلومیٹر کم ہوگیا!
لندن: یونیورسٹی آف لیڈز، برطانیہ کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ہمالیائی گلیشیئر غیرمعمولی تیزی سے پگھل رہے ہیں اور صرف چند دہائیوں میں ان کے رقبے میں 8,400 مربع کلومیٹر کی کمی ہوچکی ہے۔
آن لائن ریسرچ جرنل ’سائنٹفک رپورٹس‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ ایک تحقیق میں ڈاکٹر جوناتھن کیری وِک اور ان کے ساتھیوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر ہمالیائی برفانی تودے (گلیشیئرز) اسی تیزی سے پگھلتے رہے تو شاید یہ ہمارے اندازوں سے بہت پہلے ختم ہوجائیں گے اور جنوبی ایشیا کے کروڑوں افراد کو بدترین آبی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے 14,798 ہمالیائی گلیشیئروں کے بارے میں مختلف ذرائع سے تصاویر اور دیگر تفصیلی معلومات جمع کیں، جو اُن کی تاریخ و جغرافیہ کا احاطہ کرتی ہیں۔
ان معلومات کے تجزیئے سے پتا چلا کہ تقریباً 400 سال پہلے تک ہمالیائی گلیشیئرز کا مجموعی رقبہ 28,000 مربع کلومیٹر تھا جو پچھلی دو صدیوں میں بتدریج 40 فیصد تک کم ہو کر 19,600 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔
ہمالیائی برفانی تودے پگھلنے کی رفتار پچھلے سو سال میں زیادہ ہوئی جبکہ گزشتہ چند دہائیوں میں یہ پگھلاؤ تشویشناک حد تک تیز رفتار ہوچکا ہے جس کی واحد ممکنہ وجہ انسان کی صنعتی سرگرمیاں اور ان کے باعث آلودگی میں غیرمعمولی اضافے ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہمالیائی گلیشیئروں کی جسامت مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر جوناتھن اور ان کے ساتھیوں نے اندازہ لگایا ہے کہ پچھلے تیس چالیس سال میں ان گلیشیئروں کی 390 مکعب کلومیٹر سے 586 مکعب کلومیٹر تک برف کم ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سطح سمندر بھی تقریباً ایک ملی میٹر اونچی ہوگئی ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی ایشیاء کی شمالی پٹی پر پھیلے ہوئے وسیع گلیشیئروں میں اتنی زیادہ برف ہے کہ انہیں مجموعی طور پر ’’تھرڈ پول‘‘ (تیسرا قطب) بھی کہا جاتا ہے۔
دریائے سندھ، گنگا اور براہماپترا سمیت، جنوبی ایشیاء کے بیشتر بڑے دریاؤں میں پانی کا انحصار ان ہی گلیشیئروں کے موسمی پگھلاؤ پر ہے۔
اگر یہ گلیشیئر ختم ہوگئے تو برصغیر میں بدترین آبی بحران کے علاوہ اتنی بھیانک تباہی آسکتی ہے جس کا تصور بھی شاید آج ہمارے لیے ناممکن ہے۔
بتاتے چلیں کہ ماہرین پچھلے کئی سال سے ہمالیائی گلیشیئروں کے تیز رفتار خاتمے سے خبردار کرتے آرہے ہیں جبکہ اس حوالے سے درجنوں تحقیقات بھی شائع ہوچکی ہیں۔ لیڈز یونیورسٹی کی نئی تحقیق بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔