معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
22کروڑ نالائقوں کا بوجھ
چین کے تین علاقے اس وقت پاکستان سے زیادہ بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہیں‘ یہ علاقے جنوب مغرب میں واقع ہیں‘ ان کے نام چینگ ڈو‘ گوانگ یو آن‘ گارزے اور تبت ہیں‘ چینگ ڈو کی وادی شی لنگ میں چوبیس گھنٹوں میں 165 اشاریہ ایک ملی میٹر بارش ہوئی‘ یہ علاقہ سیاحتی ہے اور یہاں ہر سال 70لاکھ سے زائد سیاح آتے ہیں‘ یہ بھی بری طرح سیلاب سے متاثر ہوا لیکن آپ چین کا کمال دیکھیے۔
حکومت نے ایک رات میں 47 ہزار لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے نکالا‘ محفوظ ٹھکانوں پر پہنچایا اور انھیں کھانا‘ ادویات اور کپڑے بھی فراہم کر دیے اور مقامی اور بین الاقوامی کسی تنظیم سے امداد کی اپیل بھی نہیں کی اور اس سارے آپریشن‘ بارش اور سیلاب کے دوران کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جب کہ اس کے مقابلے میں ہمارے ملک کا تیس فیصد حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔
کوئٹہ شہر کی تمام سڑکیں‘ پل اور موبائل فون ٹاورز ٹوٹ گئے ہیں‘ بجلی‘گیس اور پانی بھی بند ہے اور اے ٹی ایم اور بینکس بھی جواب دے گئے ہیں‘ صوبائی دارالحکومت کا باقی ملک سے عملاً رابطہ ٹوٹ چکا ہے‘ دوسرے علاقوں کی صورت حال بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔
متاثرین کی تعداد تین کروڑ 30 لاکھ ہو چکی ہے ‘ یہ گلگت بلتستان سے لے کر گوادر تک آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آہ وزاری کر رہے ہیں‘ سوال یہ ہے چین ہو‘ ایران ہو‘ ترکی ہو‘ ملائیشیا ہو یا پھر باقی دنیا ہو سیلاب‘ زلزلے اور خشک سالی وہاں بھی آتی ہے لیکن یہ اپنے لوگوں کو ان آفتوں سے بچا بھی لیتے ہیں اور دوسروں کی مدد کے بغیر انھیں بحال بھی کر دیتے ہیں‘ کیسے؟ جب کہ ہم ہر آفت‘ ہر مصیبت میں اپنے لوگوں کو موت کے حوالے کر کے‘ امداد‘ امداد کی صدائیں لگانے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں‘ہم اسے بھی بھیک کا بہانہ بنا لیتے ہیں‘ کیوں؟ کیا دوسری اقوام ’’سپر ہیومین ‘‘ ہیں یا پھر ہم انسانوں کی کوئی پست ترین شکل ہیں‘ ہمارا آخر ایشو کیا ہے؟
ہم شاید آج تک اپنی قوم کو آفتوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں کر سکے‘ آگ لگ جائے‘ پانی آ جائے یا کوئی کسی حادثے کا شکار ہو جائے‘ ہم میں سے کسی شخص کو اس سے نبٹنا نہیں آتا‘ دوسرا حکومت نے بھی آج تک حادثوں اور آفتوں سے نبٹنے کے لیے کاغذی منصوبوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا‘ ہم نے قومی سطح پر این ڈی ایم اے اور صوبائی لیول پر پی ڈی ایم اے بنا دیے لیکن یہ بھی نام کے ادارے ہیں اور یہ ہلاکتوں کا ڈیٹا جاری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے‘حالت یہ ہے ہم آج تک ملک میں مخیرحضرات کی فہرست تک نہیں بنا سکے۔
حکومت کو چاہیے تھا یہ آفتوں کے دوران کم از کم پانچ ہزار سے ایک کروڑ روپے تک امداد دینے والے مخیر حضرات اور فیملیز کا ڈیٹا اور ٹیلی فون ہی جمع کر لیتی تا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ہمیں چندے کے لیے اپیلیں نہ کرنا پڑتیں‘ حکومت ملک بھر کے تمام کال سینٹرز کو ڈیٹا اور بینک اکاؤنٹ دیتی اور دو دنوں میں امدادی رقم جمع ہو جاتی‘ ہم کیوں ہر بار ہر آفت میں امدادی کیمپ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں؟ کیا ہم 75برسوں میں یہ بھی نہیں کر سکتے تھے‘ دوسرا ملک میں دعوت اسلامی‘ سیلانی ٹرسٹ‘ اخوت‘ کاروان علم فاؤنڈیشن‘ ایدھی‘ چھیپا‘ تبلیغی جماعت‘ جماعت اسلامی اور انجمن طلباء اسلام جیسی سیکڑوں تنظیمیں اور غیرسرکاری ادارے موجود ہیں۔
ملک میں اڑھائی لاکھ سے زائد اسکول(پرائمری‘ مڈل اور سیکنڈری ملاکر) اورساڑھے تین کروڑ سے زائد طالب علم بھی ہیں‘ ہم اگر ان تنظیموں اور اداروں کے کارکنوں کے لیے ریسکیو ورک کی ٹریننگ لازمی قرار دے دیں‘ ہم اگر انھیں آگ بجھانے‘ زخمیوں کو اٹھانے‘ سیلاب میں گھرے لوگوں کو نکالنے اور ضرورت مندوں تک خوراک پہنچانے اور بیماروں اور زخمیوں کی مدد کی ٹریننگ دے دیں اور ان سب کی فہرستیں اپنے پاس رکھ لیں اور ضرورت کے وقت انھیں طلب کر کے کام پر لگا دیں تو ہمارے پاس دو چار کروڑ لوگوں کی فورس تیار ہو جائے گی۔
ہم اگر ملک بھر کے اساتذہ ہی کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ سکھا دیں تو بھی ہمیں یواین کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا اور تیسری چیزدنیا کے بے شمار ملکوں میں ہر گھر میں ڈیزاسٹر اور ری پیئرنگ کے آلات ضرور ہوتے ہیں‘ کیا ہم قوم کو گھروں میں رسے‘ سیڑھیاں‘ فالتو بالٹیاں‘ ہتھوڑیاں اور گینتیاں رکھنے کے لیے بھی تیار نہیں کر سکتے؟ ہم یہ اصول ہی بنا لیں ملک کا ہر مڈل کلاس شخص اپنے گھر میں ایک ٹینٹ ضرور رکھے گا اور وہ یہ مشکل کے وقت متاثرہ علاقوں میں بھجوا دے گا‘ ہم ٹینٹ مالکان کی فہرستیں مختلف این جی اوز کو دے دیں اور این جی اوز کے کارکن ضرورت کے وقت ٹینٹ جمع کر کے متاثرین تک پہنچا دیں۔
کیا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے؟ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور تک رضا کار اور این سی سی جیسے پروجیکٹ ہوتے تھے‘ ضلعی انتظامیہ ہر شہر سے رضا کار بھرتی کرتی تھی‘ یہ لوگ مشکل وقت میں پولیس اور سول انتظامیہ کی مدد کرتے تھے‘ یہ پروجیکٹ آج بھی چل رہا ہے لیکن صرف کاغذوں میں‘ کالجوں میں این سی سی کے ذریعے طالب علموں کو ملٹری ٹریننگ دی جاتی تھی‘ ٹریننگ مکمل کرنے والے طالب علموں کو 20 نمبر اضافی ملتے تھے‘ یہ دونوں پروجیکٹ شان دار تھے۔
دنیا میں امریکا‘ سوئٹزر لینڈ اور اسرائیل سمیت 103 ملکوں میں ملٹری ٹریننگ اور ملٹری سروسز لازم ہوتی ہیں‘ رضا کار بھی کروڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں‘ ہم یہ دونوں ادارے بحال کیوں نہیں کرتے اور ہم اس کے ساتھ ساتھ ایکسیڈنٹس اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی ٹریننگ کیوں شامل نہیں کرتے؟ میں مدت سے عرض کر رہا ہوں حکومت گاڑیوں میں آگ بجھانے کے سلینڈرز‘ کمبل‘ ٹارچ‘ رات کے وقت چمکنے والی جیکٹس اور اضافی خوراک لازم قرار دے لیکن ہم نے آج تک یہ بھی نہیں کیا‘ فلڈ مینجمنٹ کی باری تو ہزار سال بعد میں آئے گی‘ کیا ہم واقعی قوم کہلانے کے حق دار ہیں؟
میں اس سیلاب کے دوران تین خوف ناک حماقتیں دیکھ رہا ہوں‘ پہلی حماقت نقد امداد ہے‘ ہم متاثرین کو براہ راست نقد امداد بھجوا رہے ہیں جب کہ متاثرہ علاقوں کے تمام بینکس‘ اے ٹی ایم اور ایزی کیش کے سینٹرز پانی میں ڈوب چکے ہیں لہٰذا متاثرین کو رقم کیسے ملے گی؟ اور اگر یہ مل بھی جائے تو کیا سامان خریدنے کے لیے دکانیں اور منڈیاں کھلی ہیں اور کیا سڑکیں‘ پل‘ ٹرانسپورٹ اور گاڑیاں موجود ہیں؟ دوسرا ہم متاثرین کے سروں پر آٹا‘ دالیں‘ چاول‘ چینی اور گھی کی بوریاں پھینک رہے ہیں‘ حکومت ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بوریاں داغ رہی ہے جب کہ این جی اوز کشتیوں کے ذریعے خشک راشن پہنچا رہی ہیں لیکن سوال یہ ہے یہ لوگ خشک راشن کو پکائیں گے کیسے؟ متاثرین پانچ پانچ فٹ پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
کیا یہ اس پانی میں چولہے جلا سکیں گے؟ کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں‘ گیس یا بجلی کہاں سے آئے گی اور کیا پھر یہ لوگ خشک راشن کھائیں گے اور تیسرا ایشو پورے ملک میں اس وقت امدادی کیمپ لگے ہوئے ہیں‘ یہ کون لوگ ہیں اور یہ رقم جمع کر کے کہاں بھجوا رہے ہیں؟ کوئی نہیں جانتا‘ حکومت بھی اس سے لاتعلق ہے‘ کیا ہم ان حماقتوں سے متاثرین کی مدد کر سکیں گے؟
میری درخواست ہے حکومت فوری طور پر ان اداروں کی فہرست اور اکاؤنٹس جاری کر دے جنھیں یہ امدادی کاموں کا اہل یا جینوئن سمجھتی ہے‘ یہ بے شک فوج کو ذمے داری دے دے لیکن کسی ایک کو اس صورت حال کو لیڈ کرنے دیں‘ پینک نہ کریں‘ دوسرا سیلاب میں پھنسے لوگوں کو خشک راشن نہ دیں‘ آپ بھنے ہوئے چنے‘ بھنے ہوئے چاولوں‘ گڑ اور میوہ جات کا مرونڈا بنائیں‘ آدھ آدھ کلو کے واٹر پروف پیکٹ بنائیں اور متاثرین میں یہ پیکٹ تقسیم کر دیں۔
متاثرین فوری طور پر ان سے اپنی بھوک مٹا لیں گے‘ یہ مرونڈا پنجاب‘ سندھ اور کے پی میں عام بنتا ہے‘ آپ بس اس میں تھوڑا سا کوکنگ آئل یا گھی بھی ڈال دیں تاکہ خوراک کے تمام اجزاء پورے ہو جائیں‘ مرونڈا مکمل خوراک ہو گا‘ اسے ہر عمر کے لوگ کھا سکیں گے اور اسے پکانا بھی نہیں پڑے گا‘ سیلاب زدہ علاقوں میں جب پانی اتر جائے تو آپ بے شک لوگوں کو خشک راشن پہنچانا شروع کر دیں اوراب میری عوام سے بھی درخواست ہے خدا کے لیے اگر حکومت میں خدا ترسی اور عقل نہیں ہے تو آپ ہی کچھ عقل کر لیں۔
آپ ہی دس پندرہ فیملیوں کے گروپ بنا کر لوگوں کو ٹریننگ دینا شروع کر دیں‘ دس دس‘ بیس بیس خاندانوں کی این جی اوز بنا کرلوگوں کی حالت بدلنا شروع کر دیں اور مہربانی فرما کر اپنے گھر اونچی جگہوں اور کچن دوسری اور تیسری منزل پر بنا لیا کریں اور چھت پر ممٹی بنا کربرسات کے موسم میں اس میں پانی‘ خوراک‘ ٹینٹ اور ایندھن محفوظ کر لیا کریں تاکہ ناگہانی صورت حال میں آپ اور آپ کا خاندان کم از کم دو چار دن تو نکال سکے اور آپ یہ بندوبست کرنے کے بعد دوسرے لوگوں کو بتا اور سمجھا دیا کریں تاکہ یہ بھی آفتوں سے بچ سکیں۔
یہ ملک آخر کب تک 22 کروڑ نالائقوں کا بوجھ اٹھائے گا‘ ہم سب کو مل کر کام کرنا پڑے گا لیکن آغاز کون کرے گا؟ شاید ہم باقی زندگی بھی یہ کام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ کر بیٹھے رہیں گے۔