معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
اختتام نہیں آغاز ہے
محمد حیات بلوچ تربت ڈویژن کی نامور شخصیت ہیں‘ آبائی علاقہ نظرآباد تربت سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع کیچ میں واقع ہے‘ یہ پروفیسر بھی رہے‘ واسا کے ڈائریکٹر بھی ‘ صوبائی محتسب اعلیٰ بھی اور آخر میں بلوچستان یونیورسٹی تربت کے رجسٹرار بھی رہے‘ ان کے بھائی پروفیسر غنی پرواز بلوچستان کے بہت بڑے لکھاری‘ شاعر اور دانشور ہیں‘ان کی اردو اور بلوچی زبان میں 30 کتابیں شائع ہو چکی ہیں‘ پرواز صاحب ہیومین رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے تربت مکران ریجن کے کوآرڈی نیٹر بھی ہیں‘ حیات بلوچ صاحب کی اہلیہ کے بھائی صدیق آزاد بھی بہت بڑے بلوچی ادیب‘ شاعر اور دانشور ہیں‘ صدیق آزاد نے1967ء میں بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن (بی ایس او) کی بنیاد رکھی تھی‘ یہ آج کل سویڈن میں مقیم ہیں‘ حیات
بلوچ صاحب کے سات بچے ہیں‘ تین بیٹے اور چار بیٹیاں‘ تمام بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سرکاری ملازم ہیں‘ ایک بیٹا تحصیل دار اور دوسرا نادرا میں ڈپٹی مینیجر ہے‘ بیٹیاں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ ایک بیٹی پی ایچ ڈی اور تربت یونیورسٹی میں لیکچرار ہے‘ شاری بلوچ بھی حیات بلوچ صاحب کی بیٹی تھی‘ یہ 1991ء میں پیدا ہوئی‘ یہ اس وقت 31 برس کی تھی‘ شاری نے 2014ء میں بی ایڈ کیا‘ 2018ء میں ایم ایڈ کی ڈگری لی‘ بلوچستان یونیورسٹی سے زولوجی میں ایم ایس سی کی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری لی‘ اس کی شادی ڈاکٹر ہیبتان بشیر کے ساتھ ہوئی‘ ڈاکٹر ہیبتان ڈینٹسٹ ہے اور یہ مکران میڈیکل کالج میں پڑھاتا ہے‘یہ تربت سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر کلاتک شہر کا رہائشی ہے اور اس کی فیملی بھی پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی ہے‘ ان کے دو بچے ہیں‘ بیٹے کی عمر پانچ سال اور بیٹی تین برس کی ہے‘ یہ خاندان بظاہر مطمئن اور شان دار زندگی گزار رہا تھا لیکن پھر 26اپریل کو دن اڑھائی بجے اچانک جامعہ کراچی کے کنفیوشس ڈیپارٹمنٹ کے سامنے بم دھماکا ہوا‘ وین میں آگ لگی اور گاڑی میں موجود ڈرائیور سمیت چار افرادہلاک ہو گئے‘ان میں تین چینی پروفیسر بھی شامل تھے‘ پولیس نے تفتیش شروع کی تو پتا چلا بم دھماکا خودکش حملہ تھا اور یہ کسی خاتون نے کیا‘ دو گھنٹے بعد بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ نے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی اور شاری بلوچ کیتصویر بھی جاری کر دی اور یوں ملک کے تمام حساس طبقے ششدر رہ گئے‘ میں بات آگے بڑھانے سے قبل آپ کو مجید بریگیڈ کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ بی ایل اے نے یہ بریگیڈ مجید لانگو کے نام سے بنایا تھا‘ مجید لانگو کوئٹہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کرتا تھا اور یہ جام یوسف کے زمانے میں مارا گیا تھا‘ بی ایل اے نے بعدازاں اس کے نام سے حملہ آوروں کا بریگیڈ بنایا اور یہ بلوچستان میں بم دھماکے کرنے لگے۔شاری بلوچ کراچی کیوں اور کیسے آئی اس کے بارے میں دو اطلاعات ہیں‘ پہلی اطلاع بی ایل اے نے جاری کی‘ ان لوگوں نے دعویٰ کیا شاری بلوچ نے دو سال پہلے مجید بریگیڈ جوائن کیا تھا‘ یہ فدائی بننا چاہتی تھی‘ ہم نے اسے سوچنے کا وقت دیا لیکن یہ اپنے ارادے پر ڈٹی رہی لہٰذا اسے خودکش حملہ آوروں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا‘ یہ پڑھی لکھی تھی لہٰذا ہم اسے کسی اہم ٹارگٹ پر استعمال کرنا چاہتے تھے۔یہ اب کراچی کیسے آئی؟ ڈاکٹر ہیبتان کورس کے لیے کراچی آیا‘یہ فارن فنڈڈ کورس تھا لہٰذا ڈونر نے اسے بھی ریجنٹ پلازہ میں باقی شرکاء کے ساتھ ٹھہرا دیا‘ شاری بلوچ اور اس کےبچے بھی ڈاکٹر ہیبتان کے پاس آ گئے‘ یہ سارا دن ہوٹل کے کمرے میں رہتے تھے اور شام کے وقت کہیں چلے جاتے تھے‘ پولیس نے گلستان جوہر بلاک 13 میں گرے اسکائی لائین اپارٹمنٹ کی تیسری منزل پر وہ فلیٹ بھی تلاش کر لیا ہے جس میں یہ لوگ رات گزارتے تھے‘ مجید بریگیڈ اس دوران جامعہ کراچی میں چینی پروفیسروں کی ریکی کرتا رہا‘ ان کا ٹارگٹ چینی باشندے تھے‘ نومبر 2018ء میںکراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کے بعد حکومت نے چائنیز کی سیکورٹی سخت کر دی تھی‘ان پروفیسروں کے ساتھ بھی رینجرز اور پولیس کے اہلکار ڈیوٹی دیتے تھے‘ چینی پروفیسر کیمپس سے باہر نہیں جاتے تھے‘ یہ کمپائونڈ کے اندر اپنی رہائش گاہ سے صبح ڈیپارٹمنٹ آتے تھے‘ لنچ کے لیے کمپائونڈ میں اپنی رہائش گاہ جاتے تھے اور پھر واپس آ جاتے تھے اور اس آمدورفت کے دوران بھی رینجرز اور پولیس اہلکار ان کے ساتھ رہتے تھے‘ 26اپریل کو بھی یہی ہوا‘ یہ لنچ کے بعد واپس آئے اور شاری بلوچ نے گیٹ پر وین کو ایک میٹر کے فاصلے سے اڑا دیا‘ واقعہ سے پانچ دن قبل ڈاکٹر ہیبتان بشیر نے اپنا موبائل فون بند کر دیا تھا اور یہ بچوں سمیت غائب ہو گیا تھا‘ یہ کہاں نکل گیا سیکورٹی ادارے ابھی تک وہاں نہیں پہنچ سکے۔یہ واقعہ بہرحال انتہائی افسوس ناک اور الارمنگ ہے‘ کیوں؟اس کی چار وجوہات ہیں‘پہلی وجہ‘ خودکش بمبارز کے بارے میں آج تک کی ریسرچ تھی یہ کام بیس سال سے کم عمر لڑکے کرتے ہیں‘ خواتین کی شرح تین فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی اور 25 سال کے بعد لڑکا ہو یا لڑکی اس کے خودکش بمبار بننے کے امکانات دس فیصد رہ جاتے ہیں اور شادی شدہ لوگ یہ کام بالکل نہیں کرتے جب کہ شاری بلوچ کی عمر 31 سال تھی‘ یہ دو بچوں کی ماں بھی تھی اور بظاہر اس کے خاندان کے ساتھ تشدد‘ زیادتیاور ریاستی جبر کا کوئی واقعہ بھی پیش نہیں آیا تھا لہٰذا 31سال عمر کی دو بچوں کی ماں کا خودکش بریگیڈ میں شامل ہو جانا حیران کن ہے‘ دو‘ خود کش بمبار کے بارے میں ریسرچ کہتی ہے یہ لوگ ان پڑھ اور مذہبی جنونی ہوتے ہیں جب کہ شاری بلوچ اور ڈاکٹر ہیبتان بشیر خود بھی پڑھے لکھے تھے اور ان کا خاندان بھی‘ انہیں آسانی سے بہکایا نہیں جا سکتا تھا لہٰذا یہ انتہائی پڑھے لکھے اور سرکاری ملازمین کے خاندان سے اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے‘ تین‘دنیا میں پہلی بار خودکش حملے میں فاسفورس استعمال کی گئی ‘آپ نے دیکھا ہو گا حملے کے بعد وین میں آگ لگ گئی تھی جس کی وجہ سے زخمیوں کو وین سے نکالا نہیں جا سکا تھا‘ یہ فاسفورس کا نتیجہ تھا‘ اس کا مطلب یہ ہے خودکش ٹیکنالوجی ’’نیکسٹ لیول‘‘ پر چلی گئی ہے اور چوتھی وجہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان خودکش حملے کیا کرتی تھی‘ بی ایل اے کی طرف سے یہ پہلا خودکش حملہ ہے‘ اس کا مطلب ہے ملک ایک نئے فیز میں داخل ہو رہا ہے اور ہمارے دشمن نہیں چاہتے چین پاکستان کی مدد کرے اور ہم سی پیک مکمل کر سکیں لہٰذا ہمیں اب ان حقائق کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانا ہو گی۔شاری بلوچ کا واقعہ ایمرجنسی الارم ہے‘ یہ ثابت کرتا ہے ہمارے ملک میں اندر ہی اندر بے شمار لاوے پک رہے ہیںاور ہم میں سے زیادہ تر لوگ ریاست سے ناراض ہیں‘ ملک کی پانچ بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی‘ ن لیگ‘ جے یو آئی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی اسٹیبلشمنٹ سے ناراض تھیں‘ صرف پی ٹی آئی بچی تھی‘ یہ آٹھ سال ون پیج پر رہی لیکن یہ بھی اب ’’مجھے کیوں نہیں بچایا‘‘ کا پرچم اٹھا کر سڑکوں پر نعرے لگا رہی ہے لہٰذا سیاسی جماعتیں بھی منہ سے کہیں یا نہ کہیں لیکن یہ ریاست سے ناراض ہیں‘ بلوچستان میںپانچ بڑی پارٹیاں ہیں‘ یہ بھی ریاست سے ناراض ہیں‘ تحریک طالبان پاکستان بھی مدت سے ریاست سے برسر پیکار ہے‘ ہم نے ٹی ایل پی بھی خود بنائی اور اسے خود ہی ناراض بھی کر دیا‘ بلوچستان کی 8علیحدگی پسند تنظیمیں 20سال سے سیکورٹی اداروں پر حملے کر رہی ہیں‘ ان حملوں نے رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑی صوبے کی چولیں ہلا کر رکھ دیں چناںچہ آج حالت یہ ہے صوبائی حکومت کے پاس بجٹ بنانے کے لیے بھی کوئی ماہر نہیں بچا‘ یہ لوگ بجٹ سے پہلے کراچی یا لاہور سے کوئی ایکسپرٹ امپورٹ کرتے ہیں اور وہ بجٹ بنا کر بریف کیس اٹھا کر واپس چلا جاتا ہے‘پنجاب اور سندھ کے 90 فیصد ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ پروفیسرز‘ بزنس مین اور بیوروکریٹس پہلے ہی واپس آ چکے ہیں‘ ہزارہ کمیونٹی کے لوگ ہر سال دس بیس لاشیں سڑک پر رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا‘ اس ملک میں اقلیتوں کے ساتھ بھی جو سلوک ہو رہا ہے وہ بھی پوری دنیا کے سامنے ہے‘ مسنگ پرسنز کل بھی ایشو تھا‘ آج بھی ہے اور شاید یہ آنے والے دنوں میں بھی ایشو ہوگااور یہ خوف ناک سے خوف ناک ہوتا چلا جا رہا ہے لہٰذا ہمیں ماننا ہو گا ریاست کے خلاف کھچائو ہر سطح پر موجود ہے‘آج اگر کوئی سول افسر کام نہ کرنا چاہے تو وہ کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے ’’وہ نہیں مان رہے‘‘ اور سائل خاموش ہو کر واپس چلا جاتا ہے چناںچہ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا ہم نے اگر یہ ملک چلانا ہے تو پھر ہمیں یہ نفرت اور یہ دوری کم کرنا ہوگی‘ ملک کے تمام ناراض طبقے خواہ یہ بلوچ ہوں‘ پشتون ہوں یا سندھی یا پنجابی ہوں یا پھر یہ بیوروکریٹس‘ ججز اور سیاست دان ہوں یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں اورہم اگر اپنے لوگوں سے بات نہیں کر سکتے‘ ہم اگر انہیں راضی نہیں کر سکتے تو پھر ہم کس سے بات کریں گے‘ ہم کس کو راضی کریں گے؟ریاست کو چاہیے یہ قومی سطح پر مکالمہ کرے‘ لوگوں کی بات سنے اور ان کے جائز مطالبات مان لے‘ اس میں کوئی حرج نہیں‘ ہم انا اور ضد کی چوٹی پر کیوں بیٹھے ہیں؟ ہم کیوں یہ چاہتے ہیں اس ملک میں شاری بلوچ جیسی مزید عورتیں بھی پیدا ہو جائیں اور یہ بھی ایم فل کے بعد بچوں کو گلے لگائیں اور اپنے جسم پر بم باندھ لیں‘ یہ یاد رکھیں شاری بلوچ آخری خاتون نہیں ہے‘یہ ایک نقطہ آغاز ہے اور یہ نقطہ آغاز ثابت کرتا ہے جان دینے اور جان لینے کی سوچ ہمارے پڑھے لکھے طبقے اور سرکاری ملازمین کے خاندانوں میں بھی پہنچ چکی ہے چناں چہ ہمیں جاگنا ہوگا‘ اس سے پہلے کہ یہ ملک ہی نہ رہے‘ ہم اگر مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے واقعے کے بعد بھی آنکھیں نہیں کھولیں گے تو پھر ہماری آنکھیں کب کھلیں گے؟ ذرا سوچیے اور جواب دیجیے۔