دنیا کے قدیم ترین انسان

جوہانس برگ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر اسٹرک فونٹین (Sterkfontein) کے غار ہیں‘ یہ غار انسانی تہذیب کی اہم کڑی ہیں۔

دنیا کے قدیم ترین انسان کی ہڈیاں مراکش کے پہاڑ جبل ارہود (Irhod) سے ملیں‘ ہڈیوں کی عمریں تین لاکھ 60 ہزار سال تھیں‘ اینتھرولوجسٹس نے ان سے اندازہ لگایا انسان ساڑھے تین لاکھ سال قبل موجودہ شکل میں آیا تھا‘ اب سوال یہ ہے انسان اس سے پہلے کس شکل میں تھا‘ اس کا جواب ساؤتھ افریقہ کے اسٹرک فونٹین غار دیتے ہیں‘ یہ غار 1890 میں دریافت ہوئے تھے۔

زمین سے چونا تلاش کرنے والوں نے اسٹرک فونٹین کے مقام پر کھدائی شروع کی اور زمین کے اندر اچانک وسیع غار دریافت ہو گئے‘ غار محض غار نہیں تھے یہ جادونگری تھی اور وہ جادونگری منہ سے بول رہی تھی وہاں کبھی زندگی دوڑتی‘ بھاگتی اور تڑپتی مچلتی رہتی تھی‘ محققین 1936 میں ان غاروں میں اترے اور 1947 میں ایک خاتون کا ڈھانچہ ان کے ہاتھ لگ گیا‘ یہ پروفیسر ریمنڈ ڈارٹ اور ڈاکٹر رابرٹ بروم کی مشترکہ دریافت تھی‘ خاتون ڈھانچے کا نام مسز فیلس (Ples) رکھا گیا۔

وہ خاتون 20 لاکھ سال پرانی تھی اور وہ بن مانس اور انسان کی درمیانی کڑی تھی‘ انسانوں کی یہ قسم آسٹرالوپتھی سین (Australopithecine) کہلاتی ہے‘یہ انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر چلتی تھی لیکن اس کا دماغ چھوٹا اور جسم بن مانس جیسا ہوتا تھا‘ وہ بولنا نہیں جانتی تھی‘ مسز فیلس ایک بڑی دریافت تھی اور اسے آگے چل کر موجودہ انسانوں سے پہلے کے انسانوں کی ماں قرار دے دیا گیا‘ اس دریافت نے مزید تحقیق کو ہوا دی‘ سیکڑوں طالب علم غاروں میں اترے اور 1994 میں پہلی مرتبہ 35 لاکھ سال پرانا مکمل ڈھانچہ مل گیا۔

اس ڈھانچے کا نام ’’لٹل فٹ‘‘ رکھا گیا‘ یہ کسی 30 سالہ خاتون کا ڈھانچہ تھا اور اس کے پاؤں میں باقاعدہ ایڑی کی ہڈیاں موجود تھیں‘ یہ مسز فیلس سے بھی بڑی دریافت تھی‘ اس نے اینتھرولوجسٹس کو بتایاانسان نے 35 لاکھ سال قبل سیدھا چلنا شروع کر دیا تھا تاہم ان کے ہاتھ پاؤں سے زیادہ لمبے اور مضبوط ہوتے تھے اور یہ چھپکلی کی طرح درختوں اور چٹانوں پر چڑھ جاتے تھے۔

’’لٹل فٹ‘‘ کسی چٹان پر چڑھ کر سو گئی تھی‘ وہ نیند کے عالم میں غار میں گری اور مر گئی‘ اس کے اوپر لائم اسٹون گرتا رہا اور اس نے آہستہ آہستہ اس کے ڈھانچے کو ڈھانپ لیا‘ 1994میں ڈاکٹر رونالڈ جے کلارک کو اس کی پہلی ہڈی ملی اور اس نے اس کا باقی جسم تلاش کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ 1997میں اس کا جسم تقریباً مکمل ہو گیا‘ ہڈیاں جوڑی گئیں تو پتا چلا ’’لٹل فٹ‘‘ کے دور میں انسان کا قد چار فٹ ہوتا تھا۔

اس کے پاؤں میں ایڑی کا اضافہ ہو چکا تھا‘ یہ سیدھا چل سکتا تھا تاہم یہ چھپکلیوں کی طرح چٹانوںاور درختوں پر بھی چڑھ سکتا تھا‘ یہ دوسری اہم دریافت تھی اور اس دریافت کے بعد سائنس دان اسٹرک(Sterk) کے غاروں پر پل پڑے اور انھوں نے انسانوں سے پہلے کے 500 انسان دریافت کر لیے‘ یہ انسان فاسل کی شکل میں تھے اور یہ چونے کی چٹانوں میں دفن تھے‘ غاروں سے مختلف جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے فاسل بھی ملے‘ اس دریافت کو آج تک کی انسانی دریافتوں میں اہم ترین سمجھا جاتا ہے۔

میں جمعہ 9 ستمبر کو ڈاکٹر کاشف مصطفی کے ساتھ اسٹرک فونٹین کے غاروں میں گیا‘ یہ غار دو حصوں پرمشتمل ہے‘ پہلا حصہ میوزیم کی شکل میں ہے‘ یہ میرو پینگ (Maropeng) کہلاتا ہے اور اسٹرک کے غاروں سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘ یہ اینتھرولوجی میوزیم ہے اور اس میں انسان کی اب تک کی زندگی کے تمام ادوار درج ہیں‘ زندگی کہاں سے شروع ہوئی‘ انسان کن کن مدارج سے گزر کر موجودہ شکل میں پہنچا‘ ہم نے بولنا‘ کھانا پینا اور رہنا سہنا کیسے سیکھا‘ مرد اور عورت کی نفسیات میں کیا فرق ہے‘ ہم غاروں سے پکے مکانوں میں کیسے آئے اور انسان ترقی کی کن کن منازل سے گزرا؟ یہ تمام معلومات اس میوزیم میں موجود ہیں‘ وزٹ کا دوسرا حصہ اسٹرک فونٹین کے غار ہیں‘ یہ گائیڈڈ ٹور ہوتا ہے۔

سیاح گائیڈ کے بغیر غار میں نہیں اتر سکتے‘ ہمیں سب سے پہلے لوہے کے بھاری ہیلمٹ پہنائے گئے اور اس کے بعد بتایا گیا آپ اگر دل‘ سانس یا ہڈیوں کے امراض کا شکار ہیں یا آپ کو اندھیرے اور تنگ جگہوں سے ڈر لگتا ہے تو آپ ان غاروں میں جانے کی غلطی نہ کریں‘ گائیڈ نے ہمیں ڈرانے کی ٹھیک ٹھاک کوشش کی لیکن ڈاکٹر کاشف مصطفی کیوں کہ اس مرحلے سے پہلے بھی گزر چکے تھے لہٰذا انھوں نے مجھے حوصلہ دیا‘ میں اس سے قبل سکندریہ کے کیٹا کامب اور کیپا ڈوشیا کے زیر زمین شہروں کی سیر کر چکا تھا چناں چہ مجھے زیادہ خوف محسوس نہیں ہوا لیکن ہم جب غار میں اترے تو میرے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے‘ یہ جگہ واقعی خوف ناک اور مشکل تھی‘ وہ جگہ عام قسم کے کھیت تھے‘ دائیں بائیں ہر طرف جھاڑیاں اور درخت تھے اور ان درختوں کے درمیان اچانک غار کا چھوٹا سا دہانہ آجاتا تھا۔

دہانے کے اندر پتھریلی سیڑھیاں بنی تھیں‘ ہم جوں ہی اندر داخل ہوئے تو وہ سیڑھیاں ہمیں آہستہ آہستہ 60 میٹر نیچے لے گئیں اور ساٹھ میٹر نیچے ایک مختلف دنیا ہمارا انتظار کر رہی تھی‘ غار کے اندر دائیں بائیں سیکڑوں غار تھے‘ اوپر سے نوکیلی چٹانیں لٹکی ہوئی تھیں‘ ہم اوپر دیکھتے تھے تو دل منہ میں آ جاتا تھا اور دائیں بائیں نظر ڈالتے تھے تو کانوں میں نبض دھڑکنے لگتی تھی‘ سفر بہت مشکل تھا‘ جھک کر سر بچا کر چلنا پڑ رہا تھا‘ آٹھ دس ایسے مقامات بھی آئے جہاں سے گزرنے کے لیے بلیوں کی طرح پاؤں اور ہاتھوں سے کرالنگ کرنا پڑی‘ چٹانوں پر ابھی تک ہزاروں فاسل موجود تھے‘ چھتوں سے بعض جگہوں سے پانی رس رہا تھا‘ اندر دور اندر پانی کی ایک طویل جھیل تھی۔

گائیڈ نے بتایا یہ جھیل سات کلومیٹر لمبی ہے تاہم اس کی گہرائی کا اندازہ آج تک نہیںہو سکا‘ 2005 میں ڈیوشاؤ نام کا ایک نوجوان جھیل میں ڈوب کر مر گیا تھا‘ وہ جھیل کی گہرائی ماپنے کے لیے پانی میں داخل ہوا اور پھر تین ہفتے بعد اس کی لاش ملی‘ اس سے قبل پیٹر ہسل نام کا ایک نوجوان 1984میں غار میں گم ہو گیا‘ وہ بھی زندہ باہر نہیں آ سکا لہٰذا دو واقعات کے بعد کوئی شخص گائیڈ کے بغیر غار میں بھی داخل نہیں ہو سکتا اور جھیل میں بھی نہیں اتر سکتا‘ ہم نے جنگلے کی سائیڈ پر کھڑے ہو کر جھیل دیکھی‘ پانی مکمل صاف تھا اور اس میں غار کی چھت کا عکس دکھائی دیتا تھا۔

ٹارچ کی روشنی میں وہ ایک لائف ٹائم تجربہ تھا اور ہمیں اگر گائیڈ نہ بتاتا تو ہمیں جھیل نظر نہیں آ سکتی تھی کیوں کہ وہ بھی غار کی فضا میں غار ہی محسوس ہوتی تھی‘ گائیڈ ہمیں جھیل سے غار کے ایک دوسرے کون میں لے گیا اور اس نے اچانک ٹارچ بند کر دی‘ اف خدایا میں نے زندگی میں اتنا گھپ اندھیرا نہیں دیکھا تھا‘ وہاں روشنی کی ایک کرن تک نہیں تھی اور اس اندھیرے میں صرف گائیڈ کی آواز گونج رہی تھی‘ اس کا کہنا تھا آپ اگر ایک ماہ اس جگہ رہ لیں تو آپ کی بینائی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔

اس جگہ سے ملنے والے فاسل میں آنکھیں نہیں تھیں‘ یہ سن کر میرے جسم میں جھرجھری سی آ گئی‘ ہمارے گروپ میں موجود باقی لوگ بھی اونچی اونچی سانسیں لینے لگے‘ گائیڈ نے بھی ٹارچ جلائی اور اس معمولی سی روشنی نے پورے غار کو بقعہ نور بنا دیا‘ ہم انسان اگر صرف اپنی بینائی کا شکر ادا کرتے رہیں تو بھی ہم ہزاروں سال تک اپنے رب کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے‘ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ بینائی کی نعمت کا احساس ہوا‘ غار کے اندر کا درجہ حرارت 18ڈگری سینٹی گریڈ تھا تاہم اندر نمی کا احساس ہوتا تھا‘ غار کے اندر آکسیجن کہاں سے آ رہی تھی؟ یہ فیصلہ مشکل تھا تاہم گائیڈ نے بتایا‘ جھیل کے آخری سرے پر ایک آبشار ہے اور وہ قریبی گاؤں میں گرتی ہے۔

غار کے مختلف حصوں میں سوراخ بھی تھے اور وہاں سے روشنی بھی چھن کر اندر آ رہی تھی لیکن ان مقامات کی تعداد بہت ہی کم تھی اور وہاں سے اونچائی بھی زیادہ تھی‘ ان مقامات سے صرف پرندے ہی اندر داخل ہو سکتے تھے‘ ان غاروں میں انسان سے پہلے کے انسان رہتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں چھپکلیوں کی طرح اوپر چڑھنے اور نیچے اترنے کی صلاحیت دے رکھی تھی‘ وہ بلیوں کی طرح کرالنگ بھی کر سکتے تھے چناںچہ وہ غاروں میں آ اور جا سکتے تھے تاہم وہ کھانے ‘پینے اور آگ جلانے جیسی نعمتوں سے محروم تھے شاید اسی لیے ان غاروں سے ہتھیار‘ برتن اور آگ کے آثار نہیں ملے‘ وہ انسان جانوروں کی طرح کچا گوشت‘ سبزیاں اور پھل کھاتے ہوں گے اور جانوروں ہی کی طرح ننگے رہتے اور حیوانوں جیسی زندگی گزارتے ہوں گے۔

اینتھرولوجسٹس ان دونوں جگہوں کو ’’انسانیت کا جھولا‘‘ (Cradle of Humankind) کہتے ہیں‘ محققین کا دعویٰ ہے انسان افریقہ سے باقی دنیا میں پہنچا تھا شاید اسی لیے آج تک انسانوں کے تمام قدیم ڈھانچے افریقہ سے نکلے‘ لٹل فٹ اور مسز فیلس ساؤتھ افریقہ میں دریافت ہوئی‘ لوسی نام کی مکمل عورت ایتھوپیا سے نکلی اور انسان کی موجودہ شکل مراکش کے پہاڑوں میں ملی جب کہ انسان کی قدیم ترین سولائزیشن آسٹریلیا کے ابوروجینی تھے اور ان کے جینز بھی افریقی تھے اور ہم نے اس دن کریڈل آف ہیو مین کائینڈ میں اپنا سارا ماضی دیکھا‘ ہم کیا تھے اور اللہ کی مہربانی سے ہم کیا بن گئے؟ اللہ نے ہم پر کتنا کرم کیا‘ یا پروردگار تیرا لاکھ لاکھ کرم‘ لاکھ لاکھ احسان ہے۔