معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ہم جس راستے پر چل رہے ہیں
ہماری تاریخ میں حمود الرحمن صاحب جیسے جج بھی گزرے ہیں‘ کیا شان د ار انسان‘ کیا بے مثل قانون دان اور کیا عظیم محب الوطن شخص تھے‘ 1910میں پٹنہ بہار میں پیدا ہوئے‘ والد داؤد الرحمن متحدہ ہندوستان کے پہلے مسلمان سرجن تھے‘ وہ امیر کویت کے ذاتی معالج بھی رہے اور ہندوستان کے تمام بڑے نوابین کے سرجن بھی‘ ڈاکٹر داؤد الرحمن کا باقی خاندان قانون دان تھا‘ آدھی فیملی وکالت کے پیشے سے منسلک تھی اور آدھی جج‘بڑے صاحب زادے موحد الرحمن انگریز دور میں کلکتہ ہائی کورٹ کے جج رہے‘ حمود الرحمن نے کلکتہ سے تعلیم حاصل کی‘ لندن سے لاء کی ڈگری لی اور وکالت کا پیشہ اختیار کر لیا‘ مستقبل روشن تھا لیکن پاکستان بنا تو خاندان سمیت ڈھاکا شفٹ ہو گئے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے لیگل ایڈوائزر بنے‘ مشرقی پاکستان کے ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے اور ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی‘ ڈھاکا ہائی کورٹ کے جج بنے اور اپنے فیصلوں سے تہلکہ مچا دیا‘ 1968 میں جسٹس رابرٹ کارنیلس ریٹائر ہو رہے تھے‘ صدر ایوب خان نے ان سے اگلے چیف جسٹس کے بارے میں رائے لی تو جسٹس کارنیلس نے فوراً جواب دیا ’’پورے ملک میں حمود الرحمن سے بہتر کوئی امیدوار نہیں‘‘ اور یوں ایوب خان نے جسٹس کارنیلس کی سفارش پر جسٹس حمود الرحمن کو چیف جسٹس آف پاکستان بنا دیا‘ یہ متحدہ پاکستان کے آخری چیف جسٹس تھے۔
جنرل یحییٰ خان کا مارشل لاء لگا‘ عاصمہ جیلانی نے سپریم کورٹ میں مارشل لاء کے خلاف رٹ دائر کردی‘چیف جسٹس حمود الرحمن نے نہ صرف یحییٰ خان کے خلاف فیصلہ دے دیا بلکہ مارشل لاء کو غیر آئینی بھی قرار دے دیا اور ملک میں فوری الیکشن کا حکم بھی جاری کر دیا یوں جنرل یحییٰ خان 1970 میں صاف اور شفاف الیکشن کرانے پر مجبور ہو گئے۔
یہ فیصلہ آج بھی سپریم کورٹ اور پاکستان کی آئینی تاریخ میں ’’عاصمہ جیلانی کیس‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور ملک میں اس کے بعد جب بھی مارشل لاء لگا یہ کیس تازہ ہوا اور سپریم کورٹ میں اس کی بنیاد پر رٹ فائل ہوئی‘ بہرحال 1971 میں ملک ٹوٹ گیا‘ جسٹس حمود الرحمن کا خاندان مشرقی پاکستان میں رہ گیا لیکن انھوں نے پاکستان چھوڑنے سے انکار کر دیا‘ یہ 1975 تک چیف جسٹس رہے‘ ریٹائر ہوئے‘ لاہور میں سکونت اختیار کی‘ پاکستان نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے اور 1981میں لاہور میں فوت ہو کر پاکستان کی مٹی میں دفن ہو گئے۔
ان کے ایک ہی صاحب زادے ہیں‘ اقبال حمید الرحمن‘ یہ بھی وکیل بنے‘ لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے‘ جنوری 2011 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بھی بنے اور آخر میں 2016 میں اعلیٰ ترین عدلیہ سے مستعفی ہو کر اب چپ چاپ خاموش زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ پاکستان کے عظیم سپوت کا مختصر سا پروفائل تھا‘ یہ پروفائل اور ان کے کارنامے اپنی جگہ لیکن ان کا اصل کارنامہ حمود الرحمن رپورٹ تھی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان ٹوٹنے کی وجوہات تلاش کرنے کے لیے چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن بنایا تھا‘ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے حکومت نے جب کمیشن کا اعلان کیا تو پورے ملک میں ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جس نے حمود الرحمن کے نام پر اعتراض کیا ہو یہاں تک کہ وہ جنرل یحییٰ خان جن کے خلاف یہ کمیشن بنایا گیا تھا۔
انھوں نے بھی انھیں قبول کر لیا تھا‘ چیف جسٹس حمودالرحمن نے طویل تحقیق اور تفتیش کے بعد 23 اکتوبر 1974 کو اپنی رپورٹ جمع کرا دی‘ یہ رپورٹ پاکستان کی تاریخ کا پہلا اور شایدآخری بے لاگ جائزہ تھا‘ ہم اگر آج بھی اپنے ماضی سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں توہمیں صرف حمود الرحمن رپورٹ پڑھ لینی چاہیے اور پھر اس بنگالی جج کی ریکمنڈیشنز پر عمل کر لینا چاہیے۔
یہ ملک بچ جائے گا‘ہم اگر واقعی اس ملک سے وفادار ہیں تو ہمیں فوری طور پر ان کی رپورٹ نکال کر اپنا حال ٹھیک کر لینا چاہیے اور اگر ہمارا حال ٹھیک ہوگیا تو اندھے بھی ہمارا روشن مستقبل دیکھ لیں گے ورنہ ہم بڑی تیزی سے فائنل رپورٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ حمود الرحمن نے اپنی رپورٹ میں کیا لکھا تھا؟ انھوں نے قوم کو بتایا تھا مارشل لاء ملک کی بربادی ہوتے ہیں‘ ملک سیاست دان ہی چلا سکتے ہیں‘ جنرل یحییٰ خان اگر شیخ مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کی اجازت دے دیتے تو ملک نہ ٹوٹتا‘ مشرقی پاکستان میں فوج کشی بہت بڑی غلطی تھی‘ فوج کبھی بھی سلوشن نہیں ہوتا اور آپ مصنوعی قیادت کے ذریعے ملک نہیں چلا سکتے وغیرہ وغیرہ‘ ہمیں چاہیے تھا ہم ان کی رپورٹ کو سیریس لیتے لیکن سیریس لینا تو دور ہم نے 26سال تک اس رپورٹ کو عوام سے بھی چھپائے رکھا۔
ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق دونوں سے جب بھی حمود الرحمن رپورٹ کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو وہ مسکرا کر جواب دیتے تھے ’’وہ گم ہو گئی‘‘ اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی تھی‘ کیوں؟ کیوںکہ رپورٹ واقعی سویلین اداروں سے غائب ہو گئی تھی بس اس کی ایک کاپی جی ایچ کیو میں تھی‘ اگست 2000 میں اچانک یہ رپورٹ بھارت میں ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ نے شایع کر دی‘ پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا‘ جنرل پرویز مشرف اس وقت چیف ایگزیکٹو تھے۔
ان پردباؤ آیا اور انھوں نے رپورٹ پاکستان میں بھی اوپن کر دی تاہم اس کا ایک بڑا حصہ محفوظ کر دیا گیا اور یہ ابھی تک سامنے نہیں آیا اور یہ شاید کبھی سامنے آئے گا بھی نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ اگر وہ سامنے آ گیا تو شاید ہمیں یہ ملک ٹھیک کرنا پڑ جائے اور ہم مرجائیں گے لیکن یہ نہیں ہونے دیں گے۔
دنیا میں نادان قومیں اور بے وقوف لوگ ہمیشہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے سے انکاری ہوتے ہیں اور ہمیں یہ ماننا ہوگا ہم بے وقوف بھی ہیں اور نادان بھی‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ دیکھ لیجیے ہم آج بھی کیا کر رہے ہیں؟ ہم آج بھی ایک دوسرے کو سلیکٹ کر رہے ہیں‘ وزراء اعظم کم زور سلیکٹر کو اوپر لے آتے ہیں اور سلیکٹر کم زور وزیراعظم کا بندوبست کر لیتے ہیں اور یہ دنیا کی مانی ہوئی حقیقت ہے کم زور لوگ کبھی مضبوط لوگوں کو اپنا ماتحت نہیں بناتے‘ یہ ہمیشہ ’’یس سر‘‘ اور خاموش بیٹھ کر سننے والوں کو پسند کرتے ہیں اور اس ملک میں مسلسل یہ ہو رہا ہے۔
ہمیں آج یہ بھی ماننا ہوگا میاں نواز شریف کو نکالنے اور عمران خان کو لانے کے لیے ہم نے پورے ملک کوداؤ پر لگادیا تھا‘ ہم نے ملک کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ ہم کام یاب ہوگئے لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ وزیراعظم کم زوربھی تھا‘ ناتجربہ کار بھی اور انا پرست بھی لہٰذا اس نے اعلیٰ عہدوں پر چن چن کر کم زور‘ ناتجربہ کار اورانا پرست تعینات کر دیے۔
آپ آج کسی بھی شعبے میں چلے جائیں آپ کو وہاں ٹاپ پر کوئی نہ کوئی انا پرست‘ ناتجربہ کار اور کم زور شخص ملے گا اور وہ بھی وہی کر رہا ہو گا جو روزانہ وزیراعظم ہاؤس میں ہوتا ہے یعنی آپ اس امید پر جھوٹ بولتے رہیں کہ یہ کسی نہ کسی دن سچ ثابت ہوجائے گا‘ آپ بے شک آنکھیں بند کر کے پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک قرار دے دیں‘ آپ بے شک ڈالر کو 182 روپے پر لے جائیں یا گیس دو سو فیصد‘ بجلی 52فیصد ‘ پٹرول کو60 فیصدبڑھا دیں اورمہنگائی کو 12.3 فیصد تک آپ سے کوئی پوچھے گا اور نہ ہی سوال کرے گا اوراگر کوئی یہ گستاخی کر دے تو آپ مسکرا کر جواب دے دیں ’’ہمارے سر سے ابھی ہاتھ نہیں اٹھا اور ادارے بیس سال کی پلاننگ کیا کرتے ہیں‘‘ کیا یہ پلاننگ تھی اور کیا یہ ہاتھ تھا؟ آپ ساڑھے تین برسوں میں دیکھ لیں کیا کوئی ایسا شخص اپنی سیٹ پر برقرار رہا جس نے حکومت کو جگانے کی غلطی کر دی ہو‘آپ صرف چیف الیکشن کمشنر کی مثال لے لیں‘ سکندر سلطان راجہ نے صرف ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں اپنے 20آفیسرز کی گمشدگی کا نوٹس لیا تھا اور پھر ان کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا؟ آج ایک رانا شمیم بول رہا ہے۔
یہ سچے ہیں یا جھوٹے آپ چند لمحوں کے لیے یہ بحث بھول جائیں اور یہ سوچیں اگر ایسے آٹھ دس لوگ بول پڑے یا کسی استعمال شدہ ٹشو پیپر نے اعترافی بیان دے دیا تو یہ ریاست کہاں ہوگی؟ہمارا بھرم کہاں کہاں سے ٹوٹ جائے گا لہٰذامیری آپ سے درخواست ہے آپ لوگ ایک بار حالات کو سنجیدہ لے لیں‘ آپ بے شک آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں لیکن اس ملک کو سنبھال لیں‘ آپ ایک دوسرے کو سلیکٹ کرنا بند کر دیں۔
حمود الرحمن رپورٹ کھولیں‘ پڑھیں‘ غلطیوں کا اعتراف کریں اورآیندہ کے لیے توبہ کر لیں ورنہ یاد رکھیں ہم جس راستے پر چل رہے ہیں ہم اس پر اپنے ایٹمی پروگرام سے بھی محروم ہو جائیں گے اور ہمارے وزیراعظم کا فیصلہ بھی آئی ایم ایف کیا کرے گا‘وہ وقت اب زیادہ دور نہیں رہا‘ وہ اگر آگیا تو ہم ایک نیا حمود الرحمن کمیشن بنانے پر مجبور ہو جائیں گے لیکن سوال یہ ہے ہم نیا حمود الرحمن کہاں سے لائیں گے؟ کیوں کہ ہم نے ہر اس پاکستانی کو اس ملک سے مار بھگایاہے جس کی نسوں میں پاکستان دوڑتا تھا ‘اب صرف وہ لوگ یہاں رہ گئے ہیں جن کی آنکھیں تو ہیں مگر وہ دیکھتے نہیں ہیں‘ کان تو ہیں لیکن وہ سنتے نہیں ہیں اور اگر ان سے بات کی جائے تو وہ کہنے والے کو غدار قرار دے دیتے ہیں‘یہ ہے آج کاپاکستان۔