مولانا آزاد فیلو شپ بند ہونے سے اقلیتی طلبا پر کیا اثر پڑے گا؟

زاہد حسین، جتیندر سنگھ، ستنجیل نمگیال اور علی کیف…

یہ ان ہزاروں اقلیتی طلباء کے ناموں میں سے چند ایک ہیں جو ایک طویل جدوجہد کے بعد یونیورسٹی تک پہنچے ہیں۔ ایسے ہزاروں اقلیتی طلبہ پچھلے کچھ دنوں سے پریشان ہیں۔ طلباء اس بات سے پریشان ہیں کہ کیا وہ آنے والے دنوں میں اپنی ریسرچ، فیلڈ ورک اور پی ایچ ڈی مکمل کر پائیں گے؟ کیا کسی بحث، کسی خیال کو نئی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کر پائیں گے؟ کیا انہیں اپنی پڑھائی درمیان میں چھوڑ کر گاؤں واپس جانا پڑے گا؟ نہ جانے ایسے کتنے ہی سوالات ان کے ذہن میں گھوم رہے ہیں۔

طلبہ کی اس بے چینی کی وجہ 8 دسمبر کو لوک سبھا میں مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور سمرتی ایرانی کا دیا گیا وہ جواب ہے جو انہوں نے مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کے حوالے سے دیا تھا۔

سمرتی ایرانی نے کہا کہ حکومت نے 2022-23 سے اقلیتی برادریوں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ملنے والی مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

لداخ کے رہنے والے ستنجیل نمگیال کا کہنا ہے کہ ’یہ خبر پریشان کن ہے، مجھے یہ بہت مشکل لگ رہا ہے۔ میں نے اپنے گھر والوں سے بھی بات کی ہے کہ کیا مجھے واپس آنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ دو سے چار ماہ انتظار کرکے دیکھو‘۔

مرکزی وزیر سمرتی ایرانی

انڈیا میں چھ برادریوں کو اقلیت کا درجہ دیا گیا ہے۔ ان میں پارسی، مسلم، عیسائی، سِکھ، بدھ مت اور جین مت شامل ہیں۔ اس فیلو شپ کا مقصد ان کمیونٹیز سے آنے والے طلباء کو پانچ سال کے لیے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کرنا ہے۔ سالانہ تقریباً 750 طلباء کو یہ فیلو شپ دی جاتی ہے۔

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کیا ہے؟

آسان زبان میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو تحقیق اور ڈاکٹریٹ کے لیے، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن جونیئر ریسرچ فیلوشپ دیتا ہے، جسے جے آر ایف بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے طلبہ کو این ای ٹی کا امتحان دینا پڑتا ہے۔

اس سال یہ امتحان چار مرحلوں میں منعقد کیا گیا تھا اور تقریباً پانچ لاکھ طلبہ نے 82 مضامین کے لیے امتحان دیا، جن میں سے صرف 9 ہزار بچے ہی جے آر ایف کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔

جے آر ایف پہلے چند سو طلباء کو دیا جاتا ہے جو این ای ٹی امتحان میں سبجیکٹ کے لحاظ سے سب سے زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں۔ اس میں یو جی سی سے تقریباً 30 ہزار روپے ماہانہ کام کرنے کے لیے اور تقریباً آٹھ ہزار روپے رہنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔

دوسری طرف، مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ میں، اقلیتی برادریوں کے وہ طلباء درخواست دے سکتے ہیں جو جے آر ایف حاصل کرنے کے لیے این ای ٹی امتحان میں اتنےنمبر حاصل نہیں کر پاتے کہ انہیں جے آر ایف مل سکے۔

یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نیٹ امتحان کی بنیاد پر مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کی میرٹ لسٹ جاری کرتا تھا۔ اس فیلو شپ کے تحت ماہانہ تقریباً 30 ہزار روپے اور دو سال بعد سینئر ریسرچ فیلو بننے پر تقریباً 35 ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ رہنے کے لیے تقریباً آٹھ ہزار روپے کا وظیفہ بھی تھا۔

ان میں طالب علموں میں سے ایک لداخ کے رہنے والے زاہد حسین ہیں

اس فیصلے پر سوالات اٹھائے گئے

مرکزی وزیر سمرتی ایرانی نے کہا کہ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اعلیٰ تعلیم میں نافذ کی گئی دیگر فیلوشپ اسکیموں سے اوور لیپ کرتی ہے۔ اقلیتی طلباء پہلے ہی اس طرح کی سکیموں کے تحت آتے ہیں۔

اس سکیم کے اوور لیپ پر سوال اٹھاتے ہوئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر وویک کمار کہتے ہیں کہ حکومت نے اس فیلوشپ کو لینے کے لیے خاندان کی ایک مخصوص آمدنی مقرر کی ہے۔ اس میں اوورلیپ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

بی بی سی سے بات چیت میں ان کا کہنا ہے کہ ’اگر خاندان کی آمدنی مقررہ حد سے زیادہ ہے تو کوئی طالب علم اسے نہیں لے سکتا۔ جسے جے آر ایف ملتا ہے وہ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ نہیں لے سکتا کیونکہ دونوں فیلو شپس یو جی سی ہی دیتا ہے‘۔

یہ فیلو شپ کتنی بڑی ہے اور اس سے کتنے بچے مستفید ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ مرکزی وزیر سمرتی ایرانی کے جواب سے لگایا جا سکتا ہے۔

مرکزی وزیر سمرتی ایرانی نے بتایا تھا کہ 2014-15 سے 2021-22 کے درمیان فیلوشپ سکیم کے تحت 6 ہزار 722 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا تھا اور ان امیدواروں پر کل 738 کروڑ 85 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ علی کیف، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، ان 6 ہزار 722 امیدواروں میں سے ایک ہیں۔ 2018 میں علی کیف کا نام مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کی میرٹ لسٹ میں آیا جس کی مدد سے وہ آج پی ایچ ڈی کرنے کے قابل ہیں اور چوتھے سال کے طالب علم ہیں۔

اقلیتوں کے لیے اعلی تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے

یہ فیلو شِپ کتنی اہم ہے؟

بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’پی ایچ ڈی کرنے کا فیصلہ مشکل تھا۔ اس وقت میری عمر 22 سال ہو گئی تھی اور اس عمر میں خاندان کی مالی کفالت کرنا پڑتی ہے۔ 2020 سے اسکالرشپ کی رقم آنا شروع ہوگئی۔ پہلے ہر ماہ 31ہزار روپے ملتے تھے۔ اب 35,000 روپے ملتے ہیں۔ میں ہاسٹل میں رہتا ہوں، اس لیے مجھے رہائش کے پیسے نہیں ملتے۔‘

فیلو شِپ ختم کرنے پر علی کیف کا کہنا ہے کہ اقلیتی برادری میں تعلیم کے حوالے سے صورتِ حال بہت خراب ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی ہو سکے اس کے لیے یہ فیلو شِپ بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ فیصلہ غریبوں، اقلیتوں، آئین کی روح اور جامع تعلیمی پالیسی کے خلاف ہے، جو معاشرے میں پسماندہ لوگوں کو مزید کمزور کرنے کا کام کرے گا‘۔

علی کیف ان طلبہ میں شامل ہیں جو پہلے ہی یہ فیلو شپ حاصل کر رہے ہیں تاہم اب حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے کہ آیا یہ پرانے طلبہ کے لیے جاری رہے گی یا نہیں۔

علی کیف کے علاوہ اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ طلباء ہیں جو مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کی بنیاد پر اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں۔

احتجاج

جب زاہد اپنے خواب کے لیے گھر سے نکلے ان میں سے ایک لداخ کے رہنے والے زاہد حسین ہیں۔ وہ صرف اقلیت ہی نہیں، قبائلی گروہ سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ زاہد اس وقت پنجاب یونیورسٹی سے ہسٹری یعنی تاریخ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔

زاہد کہتے ہیں، ’میں اپنے خاندان میں پہلا شخص ہوں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے یہاں پہنچا۔ میرے والد لداخ میں ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ سردیوں میں چار مہینے سب کچھ بند رہتا ہے، وہاں تعلیم حاصل کرنا بہت مشکل ہے‘۔

فیلوشپ کے بارے میں زاہد کہتے ہیں کہ ’میں نے جامعہ سے تاریخ میں ایم اے کیا ہے۔ مجھے پوری امید تھی کہ اس بار میرا نام مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کی میرٹ لسٹ میں آئے گا، لیکن اب سب کچھ مشکل ہے میں پڑ گیا ہے‘۔ سٹیٹ یونیورسٹی میں نیٹ والوں کو آٹھ ہزار روپے بھی نہیں ملتے، جو سنٹرل یونیورسٹی میں ملتے ہیں۔ اگر مجھے اسکالرشپ مل جاتی تو میں تحقیق بہتر طریقے سے کر پاتا۔ زاہد کا خاندان لداخ سے ہر ماہ اپنے بیٹے کو آٹھ ہزار روپے بھیجتا ہے۔ اہل خانہ کو امید تھی کہ فیلو شپ ملنے کے بعد زاہد پڑھائی کے ساتھ ساتھ خاندان کی بھی مدد کر سکے گا لیکن اب سب کچھ درمیان میں لٹکا ہوا ہے۔

اعلیٰ تعلیم کسی خواب سے کم نہیں

پنجاب کے رہنے والے جتیندر سنگھ نے بھی زاہد جیسا خواب دیکھا تھا لیکن اس فیصلے کے بعد اب وہ بھی لڑکھڑانے لگے ہیں۔ جتیندر سنگھ بھٹنڈہ، پنجاب کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پنجابی ادب میں ایم اے کیا اور مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کی میرٹ لسٹ میں اپنا نام آنے کا انتظار کر رہے تھے جس کے بعد ان کی زندگی آسان ہو جائے گی۔

جتیندر سنگھ کہتے ہیں، ’میرے والد ڈرائیور ہیں، میرا تعلق سکھ ذات سے ہے، جو کہ ایک درج فہرست ذات ہے۔ میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں اور اس پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے۔ بغیر سکالرشپ کے گھر سے باہر پی ایچ ڈی کرنا ممکن نہیں ہے‘۔ گھر سے باہر رہ کر اور اسکالرشپ کے بغیر بیٹے کو ہاسٹل کی فیس اور کھانے کے لیے ماہانہ 5000 روپے دینا انکے خاندان کے لیے کسی بوجھ سے کم نہیں۔ جتیندر بتاتے ہیں، ’میرے خاندان کو تو چھوڑوں میں گاؤں کا پہلا لڑکا ہوں، جو یہاں تک پہنچا ہے جس نے ایم اے کیا ہے اور پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے۔‘

فیصلے کے خلاف احتجاج

یہی وجہ ہے کہ سال 2019-20 میں ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں مجموعی اندراج کا تناسب 27 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ اس سال تقریباً دو لاکھ طلبہ نے پی ایچ ڈی کی تھی۔

پروفیسر وویک کمار کا خیال ہے کہ سکالرشپ حاصل کرنے سے زیادہ بچے اعلیٰ تعلیم کی طرف بڑھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’بہت سے والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے نہیں بھیجتے، اگر بچوں کو سکالرشپ مل جائے تو وہ آسانی سے خاندان کی مرضی کے خلاف جا کر بھی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ پیسے نہ دو، میرے پاس اسکالرشپ ہے‘۔

اعلی تعلیم کسی خواب سے کم نہیں

پارلیمنٹ میں اس فیلوشپ کے بارے میں سوالات پوچھنے والےکانگریس کے رکن پارلیمان ، ٹی این پرتاپن نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ان کی مرکزی وزیر سمرتی ایرانی کے ساتھ غیر رسمی بات چیت ہوئی، جس میں انہوں نے یقین دلایا ہے کہ موجودہ طلباء کو یہ فیلوشپ ملتی رہے گی۔

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کو بند کرنے کے فیصلے کے خلاف کئی طلبہ تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں ۔ جے این یو این ایس یو آئی کے جنرل سکریٹری مسعود رضا خان کا کہنا ہے کہ ’12 دسمبر کو جے این یو کی طرف سے کال دی گئی تھی، جس میں ڈی یو اور جامعہ کے طلباء نے بھی حصہ لیا تھا۔ ہم سب نے ایم ایچ آر ڈی کی وزارت کے سامنے احتجاج کیا۔‘

پنجاب یونیورسٹی کے گروپ ’سٹوڈنٹس فار سوسائٹی‘ نے 13 دسمبر کو مرکزی حکومت کے اقلیت مخالف چہرے کے خلاف احتجاج کی کال دی ہے۔مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کے علاوہ او بی سی طلبہ کے لیے نیشنل فیلو شپ فار او بی سی جاری رہے گی۔

لیکن اس فیلو شپ میں اقلیتی طبقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء جو او بی سی نہیں ہیں درخواست نہیں دے سکیں گے، یہی وجہ ہے کہ ان طلباء کے پاس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے راستے اور بھی کم ہیں۔