اندھیرے سے روشنی تک کا سفر؟

روزانہ صبح گھر سے دفتر جاتے ہوئے 45منٹ کے اس سفر میں ؎

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے

لب پہ آ سکتا نہیں

والی صورت حال ہوتی ہے، ہر ریڈسگنل پر بھکاریوں کا ہجوم ملتا ہے، ان میں جوان، بوڑھے، عورتیں، مرد، بچے اور خواجہ سرا قطار اندر قطارکھڑے نظر آتے ہیں، کچھ بھکاریوں نے آٹھ دس بال پوائنٹ یا اسی طرح کی سو ڈیڑھ سو روپے کی چیزیں ہاتھوں میں پکڑی ہوتی ہیں اور یہ لوگ پوری لجاجت سے یہ خریدنے کے لئے کہتے ہیں، آپ اگر انہیں ’’نا‘‘ کہہ دیتے ہیں تو وہ پھر آپ سے بھیک کے طلب گار ہوتے ہیں، میں نے کئی بار بغیر ضرورت کے بھی ان سے اس نوع کی چیزیں خریدیں مگر وہ اصل مدعا بیان کرتے ہیں اور ان کے اندر کا بھکاری باہر آ جاتا ہے، ان بھکاریوں میں جوان مرد اور جواں مرد قسم کی عورتیں زیادہ تعداد میں ہیں۔ ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ وہ کل سے بھوکے ہیں، صرف کھانا کھلا دیں، اگر وہاں کوئی ریسٹورنٹ قریب ہوتا ہے تو میں ڈرائیور کو پیسے دیتا ہوں اور کہتا ہوں یہ جو کھانا چاہیں انہیں کھلا دو، مگر وہ ریسٹورنٹ کے قریب پہنچ کر کھسک جاتے ہیں۔ کچھ فقیر لنگڑے بنے ہوتے ہیں، کچھ دونوں ہاتھوں سے معذور، ان معذوروں کی مدد سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر لازماً کی جانی چاہئے مگر میں ایک بار عجیب تجربے سے دو چار ہوا،مجھے راستے میں دونوں ہاتھوں سے معذور ایک نوجوان نظر آتا تھا، میں ہر بار اس کی جیب میں کچھ نہ کچھ رقم ڈال دیتا تھا، مگر ایک روز میں نے اسے جھاڑیوں میں سے اٹھتے اور دونوں ہاتھوں سے ازار بند باندھتے دیکھا۔ ایک بار ایک بچے کا قلفیوں سے بھرا ہوا بڑا تھرماس سڑک پر پڑا تھا اور اس میں موجود ساری قلفیاں سڑک پر بکھری پڑی تھیں اور یہ بچہ ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اس کی آج کی ساری کمائی ضائع ہوگئی ہے۔ کئی لوگوں نے اس کی مدد کی اور وہ آنسو پونچھتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔مگر دو چار دن کے بعد میں نے اس بچے کو یہی ڈرامہ ری پلے کرتے ہوئے دیکھا۔

اس تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے۔ میں ایک نوجوان کو جانتا ہوں جو گونگا اور بہرہ ہے۔ یہ بہت غریب گھر کا فرد تھا،سارا دن محنت مزدور ی کرتا اور شام کو گھر جاتا تو اس کی جیب میں کچھ رقم ہوتی، مگر پھر ایک دن ایک حادثے میں اس کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور وہ معذور ہو کر رہ گیا،اب اس کا کوئی والی وارث نہیں تھا، وہ بیساکھیاں ہاتھ میں پکڑے کسی تھڑے پر بیٹھا گھورتا رہتا ہے۔ اسے جاننے والے اس کے لئے جو کچھ کرسکتے ہیں کرتےہیں، مگر اسے یہ زندگی پسند نہیں ہے، اس کا رنگ زرد ہوگیا ہے اور وہ قسطوں میں مر رہا ہے۔ میں دیہاڑی دار مزدوروں کو صبح صبح قطار میں بیٹھے دیکھتا ہوں، یہ اپنی روزی کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کے بچے ان کی راہ دیکھتے رہتے ہیں کہ وہ آئیں گے تو کھانے کو کچھ ملے گا۔ بوٹ پالش کرنے والے بھی آپ کو نظر آئیں گے جن کی مزدوری انتہائی کم ہوتی ہے اور وہ بھی انہیں کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں ملتی، فٹ پاتھوں پر تھوڑی بہت قابل فروخت اشیاء لئے بھی گاہک کے منتظر ہوتے ہیں، کبھی کبھی ان کا یہ انتظار پورے دن پر محیط ہوجاتا ہے۔

یہ تو معاشرے کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ضروریات کم سے کم رکھی ہوتی ہیں مگر وہ بھی پوری نہیں ہو پاتیں جبکہ سفید پوش گھرانے ان دنوں جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کا کرب وہی جان سکتے ہیں، شدید مہنگائی کے سبب ان کا جینا بھی محال ہو کر رہ گیا ہے، مکان کا کرایہ ادا کرنے کے بعد وہ اپنی دیگر ضروریات بھی مشکل ہی سے پوری کرتے ہیں، ان کی بچیاں ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں بوڑھی ہو جاتی ہیں اور ان کا پیا کےگھر سدھارنے کا خواب پورا نہیں ہوتا۔ ان کے بچے معیاری تعلیم سے محروم رہتے ہیں اور معاشرے کی خوفناک حد تک ناہمواری انہیں نشے کی لت میں مبتلا کردیتی ہے، ہمارا معاشرہ ایک ہولناک معاشرہ بن چکا ہے، ایک طرف سڑکوں پر کروڑوں روپے مالیت کی کاریں دندناتی پھرتی ہیں اور دوسری طرف زندگی کی لازمی ضروریات پوری ہونا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف شہرکے ایک سرے سے دوسرے سرے تک نئی ہائوسنگ سوسائٹیاں نظر آتی ہیں جن کے دلکش اشتہار انہیں بھی جی مسوس کر دیکھنا پڑتے ہیں، جو کرائے کے دو کمروں کے مکان میں رہتے ہیں۔ یہ تمیز بندہ و آقا آخر کب تک برقرار رہے گی۔

اس بھیانک صورتحال میں ایک دل خوش کن تبدیلی بھی نظر آتی ہے، بہت سے اہل ثروت کے دلوں میں خوف خدا جاگا ہے اور یوں شہر میں متعدد مقامات پر لنگر خانے نظر آنے لگے ہیں، جہاں سے دو وقت کا کھانا مفت دیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال دل خوش کن تو ضرور ہے مگر مثالی نہیں ہے۔ یہ کام ریاست کا ہے کہ وہ اپنے عوام کو تمام سہولتیں فراہم کرے، مگر افسوس اس خواب کی تعبیر صرف یورپ کے ممالک میں نظر آتی ہے، ہم نے قوم کو نعرے بہت دے دیئے، وعدے بہت کرلئے، اب انہیں سکون کے کچھ سانس بھی فراہم کر دیں تو کیا ہی اچھا ہو، مگر مجھے اس خواب کی تعبیر مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی۔