معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
افغانستان…اور پاکستان پھنس گیا؟
پاکستان بھی عجیب ملک ہے۔ یہ اب تک بغیر کسی قومی سلامتی پالیسی کے چل رہا ہے۔ صرف قومی سلامتی پالیسی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی کوئی مستقل خارجہ پالیسی بھی نہیں۔
ہر ملک کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول متعین ہوتے ہیں اور شارٹ ٹرم کے ساتھ ساتھ ہر ملک لانگ ٹرم خارجہ پالیسی بنا کر چلتا ہے لیکن پاکستان کی کوئی مستقل خارجہ پالیسی نہیں بلکہ مختلف ممالک کے اقدامات کے جواب میں ہمارے ردِعمل کا نام خارجہ پالیسی ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے خارجہ محاذ کے دو بنیادی کرداروں یعنی ہندوستان اور افغانستان سے متعلق بھی ہماری کوئی لانگ ٹرم پالیسی نہیں۔ ہم یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکے کہ ہم نے ہندوستان کے ساتھ مکمل مخاصمت کی پالیسی رکھنی ہے یا پھر چین کی طرح اپنے موقف پر اصرار کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم رکھ کر اپنے مقاصد حاصل کرنے ہیں۔
ہندوستان عمل کرتا ہے اور ہم ردِعمل ظاہر کر دیتے ہیں اور یہ ہماری ہندوستان کے حوالے سے پالیسی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیر سے متعلق بھی ہماری کوئی لانگ ٹرم مستقل پالیسی نہیں۔
امریکہ سے واپسی پر عمران خان جشن منارہے تھے اور یہ توقع لگائے بیٹھ گئے کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ ثالث بن کر کشمیر کا مسئلہ حل کرادیں گے لیکن پھر جب مودی نے ٹرمپ کی شہ پر مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کی تو اس وقت سے لے کر آج تک ان کی حکومت کشمیریوں کو کوئی کاغذی لائحہ عمل بھی نہیں دے سکی۔
ہم ابھی تک اس بات کا تعین نہیں کرسکے کہ ہم نے کشمیر یوں کے معاملے پر انسانی حقوق کی بنیاد پربات کرنی ہے، مذہب کی بنیاد پر یا پھر عالمی سفارتی حقائق کی بنیاد پر۔ بیس سال قبل تک ہماری ہمدردیاں جہاد کو کشمیر کی آزادی کا راستہ قرار دینے والوں کے ساتھ رہیں لیکن اب جبکہ ان سے ہمدردی کا اظہار مشکل ہوگیا ہے تو ہم نے انہیں کوئی متبادل لائحہ عمل بھی نہیں دیا۔
ہم ابھی تک آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے بارے میں قومی اتفاق رائے پیدا نہ کرسکے۔ یہی صورت حال افغانستان سے متعلق ہے۔ افغانستان کے محاذ پر ہمارے پاس بے تحاشہ سافٹ پاور ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کبھی یکسوئی کے ساتھ باقی آپشنز سے توبہ کرکے اس کو استعمال کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
گزشتہ تین دہائیوں سے ہماری افغان پالیسی یا تو ہے نہیں اور اگر تھی تو مفروضوں پر مبنی تھی۔ ہم آنکھیں بند کرکے مجاہدین کو سپورٹ کرتے رہے اور اس سپورٹ کے اثرات کو مدنظر نہیں رکھا۔
جب سوویت یونین نکلا تو پاکستان کے ہر شہر میں جشن منایا گیا لیکن پھر ان مجاہدین نے جس طرح افغانستان کو تباہ کیا، وہ سوویت یونین بھی نہیں کرسکا تھا۔ مجاہدین مخالف افغانی تو اس دور میں ہمارے دشمن بن گئے تھے۔
پھر ہم نے مجاہدین میں حکمتیار کو چن لیا کیونکہ احمد شاہ مسعود بطور افغان ہماری تابعداری کے لیے تیار نہیں تھے۔ یوں حکمتیار کے سوا باقی مجاہدین کو ہم نے اپنا دشمن بنالیا۔
پھر جب طالبان ابھرے تو حکمتیار کے مقابلے میں طالبان کو سپورٹ کرکے ہم نے حکمتیار اور ان کے چاہنے والوں کو ناراض کیا۔ نائن الیون کے بعد طالبان کے مقابلے میں امریکہ کا اتحادی بن کر اور ان کے خلاف اپنے اڈوں اور راستوں کی اجازت دے کر ہم نے افغان طالبان اور ان کے حامیوں کو ناراض کیا۔
بعض طالبان لیڈروں کو پاکستان میں گرفتار کیا، بعض کو امریکہ کے حوالے کیا، کچھ یہاں مارے بھی گئے لیکن دوسری طرف ہم امریکہ کو بھی راضی نہ رکھ سکے۔ امریکہ اور اس کے ساتھیوں کو مسلسل یہ شکایت رہی کہ ہم ان کے ساتھ ڈبل گیم کررہے ہیں۔
حامد کرزئی پاکستان کی مدد سے حکمران بنے اور اسلام آباد سے بطور حکمران کابل گئے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد وہ بھی ہمارے رویے سے تنگ آکر مخالف بن گئے۔ پھر ہم نے اشرف غنی کو تخت نشین کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا اور انتخاب میں کامیابی کے لیے انہیں کئی ملین ڈالر بھی تھما دیے لیکن انہیں بھی دوست نہ رکھ سکے۔
گزشتہ بیس سال میں ہماری افغان پالیسی تین مفروضوں پر مبنی رہی۔ اول یہ کہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی فساد کی جڑ ہے۔ دوم یہ کہ اشرف غنی، حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ وغیرہ پاکستان کے دشمن اور طالبان پاکستان کے دوست ہیں۔ سوم تحریک طالبان افغانستان اور تحریک طالبان پاکستان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔
اب جب امریکہ نکل گیا تو ہم نے رونا دھونا شروع کردیا کہ امریکہ کے جلد نکلنے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے اور یقیناً پیدا ہوگئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہم جیسے طالب علم چیختے رہے کہ امریکہ اور طالبان کی ڈیل سے بین الافغان مفاہمت زیادہ ضروری ہے تو اس پر توجہ کیوں نہیں دی گئی۔
سوال یہ ہے کہ بین الافغان مفاہمت سے پہلے ہم نے امریکہ اور طالبان کی ڈیل میں کیوں تعاون کیا؟اشرف غنی بین الافغان مفاہمت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے تو ہم نے امریکہ کے ذریعے ان پر دبائوکیوں نہیں ڈالا؟ اسی طرح اب ہمیں شکایت پیدا ہونے لگی ہے کہ طالبان بات نہیں مانتے حالانکہ ہم جیسے طالب علم برسوں سے یہ دہائی دے رہے ہیں کہ سب افغانوں کو ایک نظر سے دیکھو۔ اب جب وہ فاتح بن کر ابھرے ہیں۔
ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ہم نے برطانیہ اور سوویت یونین کے بعد امریکہ جیسی طاقت کو شکست دی تو وہ پاکستان جیسے ملک کی بات کیوں مانیں؟ڈکٹیشن لینا کسی افغان کے مزاج میں نہیں اور طالبان تو قطعا نہیں لیں گے۔ یوں ایک طرف ہم طالبان کے وکیل ہیں۔ دوسری طرف ان کی حکومت کا معاشی بوجھ ہمیں اٹھانا پڑ رہا ہے۔
تیسری طرف دنیا اور طالبان مخالف افغان طالبان کی وکالت کی وجہ سے پاکستان پر غصہ ہیں اور چوتھی طرف وہ ہمارے مطالبات اس طرح نہیں مان رہے ہیں جس طرح ہم منوانا چاہتے ہیں۔
پھر سوال یہ ہے کہ ہم افغانستان کو افغانوں کے حوالے کرنے کی بجائے ان کے مامے چاچے کیوں بنتے ہیں ؟ادھر تیسرے مفروضے کے بارے میں سب پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ تحریک طالبان پاکستان، تحریک طالبان افغانستان کا حصہ ہے اور افغان طالبان کی فتح ان کی بھی فتح ہے۔
عجیب تماشہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے مفروضوں پر مبنی یہ افغان پالیسی بنائی، چلائی یا پھر اس کی حمایت کی، وہ قوم سے معافی مانگنے کی بجائے سینہ تان کر تبصرے کررہے ہیں۔