ہائے! وہ بھی کیا دن تھے!

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں بیس اکیس برس کا تھا اور پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں زیر تعلیم تھا۔ (ڈاکٹر) رفیع الدین ہاشمی، (ڈاکٹر) عبدالغنی فاروق، (ڈاکٹر) عبدالجبار شاکر،گلزار وفا چوہدری، عبداللطیف اختر، سرفراز سید، مسرور کیفی اور دوسرے بہت سے لوگ جنہوں نے آگے چل کر مختلف شعبوں میں اپنا نام پیدا کیا، میرے ساتھ ایم اے کی کلاس میں تھے۔ ان کے علاوہ ضیاء شاہد ، ارشاد رائو اور ریحان قیوم تھے جو مختلف مضامین میں آنرز یا ایم اے کے طالب علم تھے۔ وہ جو ہم سے قبل ایم اے کر چکے تھے ان میں (ڈاکٹر) ریاض مجید، احمد حسن حامد، حبیب اللہ خان، صدیق جاوید، عابد صدیق سوز اور (ڈاکٹر) خواجہ محمد ذکریا تھے۔ خواجہ صاحب نے 1962 میں ایم اے کیا اور 1964ء میں انہوں نے بطور استاد اورینٹل کالج جوائن کیا اور یوں وہ میرے سب سے کم سن استاد تھے۔ آج کے معروف ادبی لوگوں میں امجد اسلام امجد اور مرحومین میں(ڈاکٹر) سہیل احمد خان (ڈاکٹر) اجمل نیازی، حسن رضوی اور بہت سے دوسرے مجھ سے ایک سال جونیئر تھے، میرے یونیورسٹی فیلوز میں خلیل رمدے (جج سپریم کورٹ)، تسنیم نورانی (ریٹائرڈسیکرٹری داخلہ)، اظہر حسن ندیم (ایڈیشنل آئی جی پولیس) اور مسعود علی خان سابق ایم ڈی محکمہ سیاحت شامل تھے۔ میرے اورینٹل کالج کے اساتذہ میں ڈاکٹر سید عبداللہ، سید وقار عظیم، ڈاکٹر وحید قریشی، سجاد باقر رضوی (ڈاکٹر) ناظر حسن زیدی، (ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی اور (ڈاکٹر) خواجہ محمد زکریا خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ سجاد باقر رضوی ہمیں انگریزی تنقید کا پرچہ پڑھاتے تھے، انہوں نے سوچا کہ انہیں ایم اے انگلش کے علاوہ ایم اے اردو بھی کر لینا چاہیے چنانچہ امتحان دیا تو کالج کی پالیٹکس کے نتیجے میں انگریزی تنقید کے پرچے میں فیل کردیئے گئے، یعنی اس پرچے میں جو وہ ہمیں پڑھاتے تھے۔

یہ ساری تفصیل تو میںنے محض اس لئے بیان کی ہے تاکہ آپ کویقین آسکے کہ میں ایک پڑھا لکھا شخص ہوں ورنہ صورتحال یہ تھی کہ اورینٹل کالج کو اس زمانے میں ’’کڑیاں دا کالج‘‘ (لڑکیوں کا کالج) کہا جاتا تھا ۔ ایک سو کی کلاس میں لڑکوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اور مجھ ایسے ’’نمک‘‘ کا معمول یہ تھا کہ وہ کالج کے لان میں واقع برگد کے درخت کے نیچے بیٹھا فکرِ سخن میں مشغول رہتا۔ ان دنوں میرا رجحان ہجویات کی طرف تھا، نثر میں بھی اور شعر میں بھی۔ نثری ہجو کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے بلکہ اس شوقِ فضول کو اب 55 برس ہونے کو ہیں۔ البتہ شاعری کو اس سے کافی حد تک پاک کردیا ہے۔ چنانچہ ان دنوں جو بھی سامنے سے گزر جاتا تھا چند لمحوں میں اس کی ایک مقفیٰ و مسجع ہجو تیار ہو جاتی تھی۔ امجد مجھ سے ایک سال جونیئر تھا گو بعد میں وہ ایک سال سینئر ہوگیا مگر اس کی تفصیل بیان کرنا ’’قومی مفاد‘‘ میں نہیں۔ بس یہ سمجھ لیں کہ میرے ساتھ بھی وہی ہاتھ ہوا جو سجاد باقر رضوی کے ساتھ ہوا تھا۔ بہرحال ہجو گوئی کے اس شوق میں امجد میرا پارٹنر تھا۔ ایک دفعہ ففتھ ایئر اور سکستھ ایئر کی مشترکہ کلاس ایک بس میں تفریحی دورے پر لے جائی گئی۔ گلزار وفا چوہدری (مرحوم) کی بدقسمتی کہ وہ ہمارا ساتھ چھوڑ کر سب سے اگلی سیٹ پر اساتذہ کے ساتھ جا بیٹھا۔ بس اس کے ساتھ ہی ہماری ہجو گوئی کا میٹر آن ہوگیا۔ ہم شعر کہتے جاتے تھے اور اس تک پہنچاتے جاتے تھے۔ پچیسویں شعر پر وہ ’’جینٹری‘‘ سے نکل کر گالیاں بکتا ہوا ہمارے پاس آن بیٹھا۔

یہ بھی اسی زمانے کی بات ہے جب میں اور امجد مختلف شہروں میں منعقد ہونے والے بین الکلیاتی مشاعروں میںاورینٹل کالج کی نمائندگی کیا کرتے تھے، اس سلسلے میں ہمیں ملتان اور راولپنڈی بھی جانا پڑا۔ راولپنڈی میں مجھے غزل اور امجد کو نظم میں فرسٹ پرائز ملا مگر اصل واقعہ جو بیان کرنے کا ہے اس کا تعلق گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے ہے۔ اس کالج کے ستم ظریف طلبہ نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کےمطابق مشاعرہ شروع ہوتے ہی اپنی کرسیوں کا رخ موڑ کر پشت اسٹیج پر بیٹھے شعرا کی طرف کرلی۔ یہ ایک دلچسپ منظر تھا جس نے میری ہجو گوئی کو مہمیز دی اور میں نے فی البدیہہ بیس اشعار کا ’’قصیدہ‘‘ ان سامعین کی شان میں کہا اور اسٹیج سیکرٹری کے حوالے کیا کہ یہ پڑھ کر سنا دیا جائے لیکن اس نے یہ قصیدہ پڑھا اور ہنس کر جیب میں ڈال لیا۔ مجھے یقین ہے اس نے بعد میں کمرہ بند کرکے اپنے دوستوں کو میرا یہ ’’کلام بلاغت نظام‘‘ ضرور سنایا ہوگا۔ ویسے اس دور میں، میں جو سنجیدہ شاعری بھی کرتا تھا اس میں بھی کچھ جھلک اسی ’’رنگِ سخن‘‘ کی تھی، چنانچہ میرے جو اشعار مشہور ہوئے وہ آج بھی اس دور کے دوستوں کو یاد ہیں۔ ان میں سے صرف دو آپ بھی سن لیجئے ۔

اب تو میری وفائوں پہ آیا تمہیں یقیں

ہر شخص کہہ رہا ہے کہ بچہ ہے باپ پر

………

مڑ مڑ کے اپنی سیٹ سے وہ دیکھتی رہی

لیکن مجھے اترنا تھا اگلے سٹاپ پر

………

فکر اب تم بھی عطا کچھ گھر بسانے کی کرو

اس کے گھر کل شب سنا ہے چاند سا بیٹا ہوا

میں نے ان دنوں ایک ’’ترانہ‘‘بھی لکھا تھا جو آج بھی ’’بلاامتیاز مذہب و نسل‘‘ دائیں بازو کے رفیع الدین ہاشمی سے لے کر بائیں بازو کے راجہ انور اور پرویز رشید تک کو یاد ہے۔ واضح رہے کہ اس ترانے کی دھوم لاہور سے باہر بھی تھی کیونکہ راجہ انور اور پرویز رشید ان دنوں راولپنڈی میں زیر تعلیم تھے اور این ایس ایف سے منسلک تھے۔