امریکہ، یورپ اور عمران خان

امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی ان دنوں سب کام چھوڑ کر عمران خان کی حکومت گرانے میں لگے ہوئے ہیں۔انہوںنے پی ٹی آئی کے ممبرانِ اسمبلی پر دبائو ڈال کر انہیں عمران خان سے بغاوت پر مجبور کیا ۔

پھر ان ممبران کے لئے مسلم لیگ(ن)، جے یو آئی اور پیپلز پارٹی سے آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کے وعدے لئے ۔امریکی صدر جوبائیڈن اور برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے پہلے زرداری ، شہباز شریف اور مولانا کی ملاقاتیں کرائیں اور پھر قاف لیگ اور ایم کیوایم سے ان کی ڈیل کروائی۔

شہباز شریف اور نواز شریف کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنائیں ، پھر جوبائیڈن اور بورس جانسن ان کے درمیان ضامن بنے۔ پھر ایم کیوایم اور زرداری کی ملاقاتیں کروائیں۔ دونوں مسلسل کالیں کرکے زرداری صاحب کو مجبور کرتے رہے کہ وہ ایم کیوایم کے مطالبات تسلیم کریں اور پھر یورپی یونین کی پوری قیادت کو ان کے مابین ضامن بنا دیا۔

امریکہ ، برطانیہ اور یورپی ممالک ایران کو بھلا چکے ہیں، انہوں نے چین کا معاملہ کچھ وقت کیلئے موخر کردیاہے ، یوکرین اور روس کا بس وہ صرف نام لے رہے ہیں لیکن ان کی تمام تر توجہ پاکستان پر مرکوز ہے ۔ سی آئی اے ، ایم آئی سکس ، را اور موساد وغیرہ عمران خان کو فارغ کرنے میں لگی ہیں ۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ یہ سب ممالک سمجھتے ہیں کہ ان کے مفادات کو عمران خان نے شدید نقصان پہنچا یاہے ۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی نظروں میں عمران خان کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ:

کسی انسان کا سب سے بڑا سرمایہ اس کے بچے ہوا کرتے ہیں اور عمران خان کے بیٹے برطانیہ میں گولڈ سمتھ کے گھر بڑے ہورہے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے لندن کے مئیر کے انتخاب کے لئے پاکستانی نژاد محمد صادق کے مقابلے میں گولڈ سمتھ کے بیٹے جیک سمتھ کو سپورٹ کیا۔

وہ جانتے ہیں کہ عمران خان برطانیہ کے ادارے کے پڑھے ہوئے ہیں ۔ ان کا طرز زندگی لمبے عرصے تک اہل مغرب جیسا رہا جبکہ اب بھی معاشرتی حوالوں سے وہ پاکستانی کم اور مغربی شہری زیادہ نظر آتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ اقتدار میں آنے سے پہلے انہوں نے برطانیہ ، امریکہ اور سنگاپور میں سوشل میڈیا سیلز بنا کر پاکستان کے اندر گالم گلوچ اور بدتمیزی کے کلچر کو عام کیا اور پھر حکومت میں آنے کے بعد سرکاری وسائل کو بھی اس مقصد کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ ظاہر ہے پاکستان میں گالم گلوچ اور بدتمیزی کے کلچر سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔

وہ جانتے ہیں کہ جب چینی صدر سی پیک کے معاہدے پر دستخط اور پروجیکٹ کے باقاعدہ آغاز کے لئے پاکستان کے دورے پر آرہے تھے تو عمران خان نے کینیڈین شہری طاہرالقادری کے ساتھ مل کر دھرنوں کا پروگرام بنایا اور ان دھرنوں کی پلاننگ بیجنگ یا ماسکو میں نہیں بلکہ لندن میں ہوئی تھی۔

وہ جانتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے شاہ محمود قریشی کو اپنا وزیر خارجہ بنایا جنہوں نے اپنے بیٹے کو امریکی وزارت خارجہ میں تربیت دلوائی۔ عمران خان جب ست اقتدار میں آئے ہیں، چینی سر پیٹ رہے ہیں اور دو سال سے سی پیک کے اصل فورم یعنی جے سی سی کا اجلاس تک نہیں ہوسکا۔وہ جانتے ہیں کہ چین یا روس کے دورے سے واپسی پرعمران خان نے کسی بھنگڑے کا انتخاب نہیں کیا جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد کیا تھا۔وہ جانتے ہیں کہ عمران خان ٹرمپ سے ملاقات کی خوشیاں منارہے تھے اور نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے اسے ہڑپ کرلیا لیکن انہوں نے صرف ایک سڑک کا نام بدلنے پر اکتفا کیا اور تماشہ دیکھتے رہے۔

وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کو زیادہ فنڈنگ امریکہ، برطانیہ اوریورپی ممالک سے ہوئی اور یہ بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے زلفی بخاری جیسے برطانوی شہریت رکھنے والے اور شہباز گل جیسے امریکہ پلٹ درجنوں لوگوں کو اہم مناصب دیے ۔ انیل مسرت جیسے برطانوی شہریوں کی بھی وزیراعظم ہاوس میں تواضع ہوتی رہی۔

وہ جانتے ہیں کہ عمران خان نے اسد عمر اور حفیظ شیخ جیسے لوگوں کے ذریعے پاکستانی معیشت کو آئی ایم ایف یا بالواسطہ امریکہ کے ہاں گروی رکھ دیا ۔ آئی ایم ایف کے ملازم کو ا سٹیٹ بینک کا گورنر بنایا اور پھر انہیں ہر طرح کے چیک سے آزاد کرایا۔

وہ جانتے ہیں کہ عمران خان نے نہ صرف آئی ایم ایف اور فیٹف کی ہدایات پر قانون سازی کروائی بلکہ اس کے لیے پارلیمنٹ کو بھی بلڈوز کیا۔وہ جانتے ہیں کہ عمران خان نے بین الافغان مفاہمت سے قبل قطر ڈیل میں امریکہ کے ساتھ بھرپور تعاون کیا حالانکہ ہر سمجھدار یہ مشورہ دیتا رہا کہ بین الافغان مفاہمت سے قبل ، امریکہ اور طالبان کی ڈیل نہیں ہونی چاہئے ۔

وہ جانتے ہیں کہ اڈے انہوں نے مانگے نہیں لیکن وہ مفت میں ایبسلوٹلی ناٹ کا نعرہ لگا کر قوم کو گمراہ کررہے ہیں کیونکہ ڈی جی آئی ایس آئی درجنوں صحافیوں کی محفل میں یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ نے اڈے نہیں مانگے ۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کو صرف ایئرسپیس کی ضرورت تھی جو عمران خان حکومت نے فراہم کردی ہے۔

وہ جانتے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ عمران خان گزشتہ ڈیڑھ سال سے اگرکسی شخصیت کے ٹیلی فون کال کےمنتظر ہیں تو وہ امریکی صدر جوبائیڈن ہے۔سب سے بڑی بات یہ کہ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان نے معاشی طور پر پاکستان کو تباہ اور سفارتی محاذ پر تنہا کرکے رکھ دیا۔

پاکستان کے دفاعی اداروں کو متنازعہ بنایا ۔عدلیہ کے وقار کو خاک میں ملادیا ۔ الیکشن کمیشن کو سیلکشن کمیشن بناکے رکھے۔ میڈیا کو اس قدر بے وقعت اور تقسیم کیا کہ وہ انڈین اور مغربی میڈیا کے پاکستان مخالف بیانیے کا جواب دینے کے قابل ہی نہیں رہا۔ پاکستانی معاشرے اور سیاست کو پولرائز کیا اور ظاہر ہے کہ امریکہ پاکستان کا بڑا ہمدرد ہے ۔ اس وقت پاکستان کے لئے اس کاپیار عروج پر ہے اور وہ پاکستان کے اداروں کو کمزور ہوتے نہیں دیکھ سکتا ، اس لئے امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عمران خان کی حکومت کو مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے۔