ایک اور گورے کا سفرنامہ؟ (2)

پاکستان میں اپنی بہن سے ملاقات

میںنے پاکستانیوں کو بہت مہمان نواز پایا، ایک محفل میں ایک صاحب سے سرسری ملاقات ہوئی اور اس نےمجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا ،میں نے پاکستان میں اپنے مستقل میزبان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا دعوت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ واضح رہے میرا یہ دوست لندن یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تب سے میرے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے کھانا بہت لذیذ تھا میں نے میزبان سے کھانے کی تعریف کی تو اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کی بہن نے بہت محبت سے بنایا تھا‘‘ لذیذ کیسے نہ ہوتا، یہ سن کر میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی اور میں سخت پریشان ہوا کہ میری بہن نے مجھے پاکستان جانے کی اطلاع تک نہ دی حتیٰ کہ ایک پاکستانی سے شادی بھی کر لی پیشتر اس کے کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کرتا میرا مستقل میزبان سمجھ گیا کہ مسئلہ کیا ہے۔ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے انگریزی میں مجھے بتایا کہ اس شخص نے ازروئے محبت آپ کو اپنا بھائی قرار دیا ہے اور پھر اپنی بیوی کو آپ کی بہن بنا دیا لہٰذا گھبرانے کی کوئی بات نہیں یہ سن کر میں نے اطمینان کا سانس لیا لیکن مجھے یہ زبردستی کی رشتہ داری بہت زہر لگی۔

ایک فرمائش

کھانے کے بعد اس نے مجھے اپنے خوبرو جوان بیٹے سے ملایا اور کہا، ’’جب سے اسے یہ پتہ چلا ہے کہ لندن سے ایک مہمان ہمارے گھر آ رہے ہیں ،یہ بہت خوش ہے اسے برطانیہ کے لوگ بہت اچھے لگتے ہیں، میں نے اسے کہا اب تم فکر نہ کرو میں ابھی تمہارے چچا (یعنی مجھ سے ) سے بات کرتا ہوں چنانچہ اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا، میری خواہش ہے کہ جب آپ واپس لندن جائیں تو اپنے اس بھتیجے کو وہاں بلا لیں اب میں سمجھ گیا کہ میزبان میرا بھائی، اس کی بیوی میری بہن اور اس کا بیٹا میرا بھتیجا ہے۔ میں نے یہ سن کر کہا میرے بھائی آپ کی میزبانی کا بہت شکریہ، میری بہن کا بھی شکریہ کہ اس نے اپنے بھائی کے لئے اتنا لذیذکھانا بنایا اور میرا بھتیجا تو اتنا گورا چٹا ہے کہ اسے گوروں کے دیس میں جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے ،یہ سن کر اللہ جانے میزبان کا چہرہ کیوں لٹک گیا۔

روحانی پیشوا کے مزار پر

میرا دوست مجھے لاہور کے ایک روحانی پیشوا کے مزار پر اپنے ساتھ لے گیا ویسے تو لاہور میں ہزاروں کے حساب سے مزار ہیں مگر صرف تین چار مزار ایسے ہیں جہاں لاہوریے بہت عقیدت سے جاتے ہیں اور نذرانے پیش کرتے ہیں جو محکمۂ اوقاف مزار کی تعمیر نو پر خرچ کرتا ہے، کچھ لوگ اپنے خاندان کے کسی بزرگ کی وفات پر اس کا عالیشان مزار بنواتے ہیں دو چار دھمال ڈالنے والے بھی ہائر کرتے ہیں اس کی من گھڑت کرامتوں کی مشہوری کے لئے ڈیلی ویجز پر کچھ بیروز گار بھی ملازم رکھتے ہیں مگر بیشتر صورتوں میں یہ مزار گھاٹے میں جاتے ہیں اور یوں سرمایہ کاروں کی ساری انوسٹمنٹ ضائع جاتی ہے۔ میں نے ایک مفلوک الحال شخص کو اپنی بچی کھچی رقم بھی ضائع کرتے دیکھا اس نے ایک دکان کرایہ پر لی اس میں ایک مزار بنایا مزار پر چادر چڑھائی اپنے گھر کے افراد کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ روزانہ باری باری مزار پر جائیں اور آتے جاتے لوگوں کو ’’بابا جی ‘‘کی کرامتیں سنائیں اور وہ خود روزانہ دو تین دفعہ ڈھول کی تھاپ پر دھمال بھی ڈالتا میرے دوست نے مجھے یہ قصہ سنایا اور بتایا کہ مزار نہ چلنا تھا نہ چلا چنانچہ اس نے تنگ آکر وہاں کریانہ کی دکان کھول لی جو چل پڑی اب وہ صاحب مزار کے بارے میں جلی کٹی باتیں کرتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ مزار میں کوئی دفن نہیں تھا۔

پروسٹی ٹیوٹ ؟

میں اپنے انگریز دوست کے ساتھ شہر کے ایک بڑے مال کی طرف جا رہا تھا راستے میں ریڈ سگنل پر گاڑی روکی تو ایک نہایت حسین وجمیل لڑکی میری کار کے قریب آئی میں نے اسے غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ لڑکی نہیں خواجہ سرا ہے میرے انگریز دوست نے اس کی طرف اشارہ کرکے اور ایک آنکھ میچ کر پوچھا پروسٹی چیوٹ (PROSTITUTE) (طوائف)؟ میں نے کہا نہیں (SUBSTITUTE)متبادل، یہ سن کر وہ خاصا مایوس ہوا !

;غریب غرباء

مال میں دنیا کے مہنگے ترین برینڈز نظر آ رہے تھے اور گاہکوں کا ایک ہجوم تھا جو دھڑا دھڑ خریداری کر رہا تھا. گورا دوست یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا اور پوچھا، میں نے سنا تھا پاکستان میں غربت بہت ہے ہر دوسرا شخص غریب ہے مگر یہ کون لوگ ہیں ؟میں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے ہر دوسرا شخص غریب ہے۔

بیسٹ سیلر بک

میں ایک دوست کے ساتھ اس کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک صاحب کتابوں کا ڈھیر اٹھائے اندر داخل ہوئے،یہ صاحب شاعر تھے، ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا تھا، کمرے میں پندرہ بیس لوگ موجود تھے، شاعر صاحب جن کا نام امن اور تخلص امان تھا، محفل میں تین چار لوگ ان کے جاننے والے تھے چنانچہ انہوں نے سب کے نام سے پہلے صاحب اسلوب شاعر لکھ کر نیچے اپنے دستخط کئے اور بہت احترام سے ان سب دوستوں کو کتاب کا اعزازی نسخہ پیش کیا باقی افراد جنہیں وہ نہیں جانتے تھے کے نام پوچھ کر انہیں بھی اپنے دستخطوں سے کتاب ہدیہ کی۔انہوں نے میری طرف اشارہ کرکے ایک صاحب سے پوچھا کہ یہ گورا کون ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ یہ پال صاحب ہیں لندن سے پاکستان کی سیاحت پر آئے ہیں۔امن امان صاحب نے مجھے بھی اپنے دستخطوں کے ساتھ یہ کتاب اعزازی طور پر پیش کی اور کہا اگر آپ کا کوئی انگریز دوست جسے اردو پر بھی دسترس ہو اس کا انگریزی ترجمہ کروا سکے، تو یقین کریں نوبل پرائز کہیں نہیں گیا پھر ساتھ ہی فرمایا اس کتاب کا پہلا ایڈیشن صرف پندرہ دنوں میں ہاتھوں ہاتھ نکل گیا تھا۔محفل میںایک ستم ظریف سے نہ رہا گیا بولا دوسرا ایڈیشن بھی اسی طرح ہاتھوں ہاتھ نکل جائے گا ۔محفل میں ایک صاحب مستقبل کی اس نوبل پرائز ونر کتاب سے محروم رہ گئے تھے کیونکہ امن امان صاحب کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ نکل گئی تھیں چنانچہ ان صاحب

نے اپنے برابر میں بیٹھے دوست سے کہا، کیا آپ یہ شعری مجموعہ ایک دن کے لئے مجھے پڑھنے کو دیں گے؟ ان صاحب نے کہا کیوں نہیں مگر ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ آپ مجھے واپس نہیں کریں گے۔

شاعر بنیں !

مجھے اس بات پر بہت حیرت ہوتی تھی کہ پاکستان میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے لیکن کتابیں بے تحاشا شائع ہوتی ہیں۔ سلام ہے ان پبلشرز کوجو اتنی کم شرح تعلیم ہونے کے باوجود کتابیں شائع کرنے کا رسک لیتے ہیں۔ میں نے ایک صاحب سے اس امر کا اظہار کیا تو اس نے کہا، پال صاحب یہاں 95فیصد مصنفین پبلشر کو پیسے دے کر اپنی کتاب شائع کرواتے ہیں، یہ پبلشر صرف کتاب پر اٹھنے والے اخراجات ہی وصول نہیں کرتا بلکہ خاصی معقول رقم حقِ خدمت کے طور پر بھی وصول کرتا ہے۔ مجھے اس کی اس بات کا یقین نہیں آیا اوپر سے اس نے ایک اور لطیفہ نما بات کہی۔ مجھ سے پوچھا تم نےاپنی اردو شاعری کی کتاب شائع کروانی ہے؟ یہ سن کر میں نے قہقہہ لگایا اور کہا میں اردو کے دو تین جملوں کے علاوہ کچھ نہیں جانتا اور تم میری اردو شاعری کی کتاب کی اشاعت کی بات کر رہے ہو۔ بولا ’’یہ تمہارا مسئلہ نہیں شاعری کوئی اور کرے گا نام تمہارا شاعر کے طور پر لکھا ہو گا ہمارے ہاں اگر کتاب آپ نے لکھی ہے تو اس کی اشاعت کے الگ دام ہیں اور اگر کسی اور نے لکھی ہے تو دام ڈبل ہو جاتے ہیں بولو بات کروں کسی شاعر سے؟‘‘