معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
کیا ہم کسی پاگل خانے کے مکین ہیں؟
آج ایک بار پھر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کافی عرصے سے پوری قوم شدید ذہنی کھچائو کا شکار ہے اور میں ایک بار پھر پریشان ہو گیا، پہلے اسے صرف دال روٹی کی فکر ہوتی تھی اب اسے خانہ جنگی کی ’’تڑیاں‘‘ بھی سننے کو مل رہی ہیں جرائم پیشہ لوگ تو اس دن کا بے تابی سے ا نتظار کر رہے ہیں جب پاکستانی آپس میں دست وگریبان ہوں گے اور یہ جرائم پیشہ لوگ ان کے گھروں میں گھسے ہوں گے۔پانچ مرلے کا گھر ہو یا دس کنال کا، فارم ہائوسزہوں اور خواہ ان گھروں اور محلات کے باہر چاق وچوبند حفاظتی دستے ہوں، یہ جرائم پیشہ لوگ نہ صرف اپنی خطرناک اور شرمناک حرکتیں پوری آزادی سے کر رہے ہوں گے بلکہ جب اس نوع کی انارکی پھیلتی ہے تو حفاظتی دستے اور گھریلو ملازم بھی اپنی دیرینہ حسرتیں پوری کرنے کے لیے اس لوٹ مار اور شرمناک حرکتوں میں شریکِ کار ہو جاتے ہیں۔ اللہ جانے وہ کون احمق لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب خانہ جنگی ہو گی تو وہ اپنے عشرت کدوں میں چین کی بانسری بجا رہے ہوں گے اس لیے میں اپنے سابق ہم وطنوں یعنی تارکینِ وطن سے بار بار یہ کہتا ہوں کہ وہ بھڑکتے شعلوں کو ہوا نہ دیں یہ ٹھیک ہے کہ یہ شعلے ان کے دامن تک نہیں پہنچیں گے مگر ان کے بہت سے عزیز واقارب تو پاکستان ہی میں ہیں جن کی مالی مدد کے لیے ہر ماہ وہ رقوم ارسال کرتے ہیں اس کے علاوہ ان میں سے کئی ایک نے یہاں جائیدادیں خریدی ہوئی ہیں جب ان کی قیمت بڑھتی ہے تو وہ اسے فروخت کر دیتے ہیں یہ سرمایہ کاری حفظ ما تقدم کے طور پر بھی کی جاتی ہے کہ کل کلاں کسی بھی حوالے سے ان کےلیے اپنے نئے وطن میں رہنا مشکل ہو جائے تو وہ اسے خیر باد کہتے ہوئے ملک میں دوبارہ آسکیں اور انہیں یہاں سیٹل ہونے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔
اصل میں ہمارے ان دوستوں نے جو اپنے ہی ملک کے لوگوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں، یہ بات میں اپنے پاکستانی بھائیوں کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے ان قوموں کی تاریخ نہیں پڑھی جو انقلاب کے نام پر خونریزی کی طرف مائل ہونے اور انقلاب تو نہیں آیا البتہ خود انہوں نے ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ہمارا ملک مختلف اطراف سے پہلے ہی دشمنوں میں گھرا ہوا ہے اور دشمن صرف اس ’’انقلاب‘‘ کا منتظر ہی نہیں ہے بلکہ وہ تو امن کے دنوں میں بھی اس خطہ پاک کو نشانے پر رکھے ہوتا ہے اور اگر خدانخواستہ ہم خود اس کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں تو سوچئے کیا ہو گا ؟اور ہاں ملکی معیشت اگر مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہو تو قومی نفاق اور بدامنی کی صورت میں اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو خود کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے اور اس کے بعد لوگ نان شب کو بھی ترس جاتے ہیں گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں معاشیات کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں دیکھنے والی آنکھیں فردا کے ہولناک مناظر ابھی سے دیکھ سکتی ہیں۔ آئی ایم ایف سے ایسے معاہدے کئے گئے ہیں کہ نہ صرف ان سے واپسی ممکن نہیں بلکہ یہ ساہوکار ادارہ ’’ہل من مزید‘‘ کے نعرے لگا رہا ہے اس وقت سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے خدا کےلیے اپنے ملک کو اس انجام تک نہ پہنچائیں سیاست کوئی امر ممنوع نہیں ہے، ہر پاکستانی کو اپنے نظریے کے مطابق سیاسی جماعتوں کو سپورٹ کرنا چاہئے مگر باہمی نفرت کی فضا پیدا نہیں کرنی چاہئے اور جو رہنما ہیں انہیں بھی مدبرانہ انداز اختیار کرنا چاہئے اگر وہ قوم سے سلطان راہی کے انداز میں خطاب کریں گے اور دوسری طرف سے مصطفیٰ قریشی ’’جواب آں غزل‘‘ کے طور پر ویسا ہی جارحانہ انداز اپنائیں بلکہ ان کے پیروکار بھی ہاتھوں میں گنڈاسے لیے کھڑے ہوں تو سوچیں ملک کا کیا بنے گا۔ خدا کے لیے پاکستانیوں کے ہاتھوں میں گنڈاسے نہ پکڑائیں۔
اس کے علاوہ خطرناک صورتحال یہ بھی ہے کہ قومی اداروں کی اس برے انداز سے کردار کشی کی جا رہی ہے اور ان سے وابستہ شخصیتوں پر گالم گلوچ کا سلسلہ جاری ہے، وہ خطرناک ہی نہیں ہے کیونکہ قومیں جب کسی بحران کا شکار ہوتی ہیں اور ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی نظر آتی ہے تو یہ ادارے ہیں قوم کو صحیح پٹری پر ڈالتے ہیں بدامنی کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کنٹرول کرتے ہیں قانون کی تشریح عدالتیں کرتی ہیں ملکی صورتحال کی صحیح ترجمانی میڈیا کرتا ہے اور ان اداروں کو جببے اثر بنانے کے لیے ان پر گھٹیا الزامات اور ان کی کردار کشی کا عمل شروع کر دیا جائے تو پھر اس انارکی پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے جس کی طرف قوم کو لے جایا جا رہا ہوتا ہے اس وقت یہی کام بہت منظم طریقے سے ہو رہا ہے، میں آج بھی اس حسنِ ظن میں مبتلا ہوں کہ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں ان کی نیت ملک کو برباد کرنے کی نہیں ہے بلکہ وہ خود پرستی اور خبط عظمت کا شکار ہیں، ان کا خیال ہے کہ وہ ہیں تو ملک ہے اگر وہ نہ رہے تو پھر ملک کی بھی کوئی گارنٹی نہیں۔ ایسے لوگوں کو ماہر نفسیات کے پاس لے جانے کی ضرورت ہے مگر کوئی پاگل کب یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاگل ہے وہ تو پاگل سمجھنے والوں کو پاگل اور اللہ جانے کیا کچھ سمجھ رہا ہوتا ہے۔ بہرحال اس وقت میرا ملک کوئی نارمل ملک نہیں لگ رہا۔ ٹی وی لگائیں، اخبارات پر نظر ڈالیں، سوشل میڈیا دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ ہم کسی پاگل خانے میں رہ رہے ہیں چارہ گروں کو اس کا کچھ نہ کچھ علاج تو کرنا ہی پڑے گا!