عاشق گھنگرواں والا اور نسیم سیٹی

یورپ کے مختلف ممالک کی سیاحت کے بعد میں گزشتہ ہفتے واپس لاہور پہنچا تو میں نے ایئر پورٹ کی عمارت سے نکلتے ہی اپنے بچپن کے دوست عاشق گھنگرواں والے سے جو مجھے ایئر پورٹ پر لینے آیا تھا کہا یار ایک تو تمہارے ملک میں گرمی بہت پڑتی ہے۔ یہ سن کر عاشق گھنگرواں والے نے مجھے گھور کردیکھا۔

پورٹر ٹرالی میں سامان لاد کر جب ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف جار ہاتھا میں نے ایک بار پھر عاشق گھنگرواں والے کو مخاطب کیا ’’تم لوگ گندے بہت ہو، اس پورٹر کے پسینے کی بو سے میرا دماغ پھٹا جا رہا ہے۔ ان لوگوں سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ کوئی پرفیوم وغیرہ ہی لگا لیا کریں‘‘۔گلے میں تعویز، گھٹنوں سے لمبے کرتے اور کھلے گھیرے کی شلوار پہنے ہوئے عاشق گھنگرواں والے کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ ’’اصل میں تم لوگوں کا پرابلم یہ ہے کہ خود پر تنقید برداشت نہیں کرسکتے،‘‘ میں نے اس کی ناراضی کی پروا کئے بغیر کہا ’’یہی وجہ ہے کہ تم لوگ ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ گئے ہو، قوم تو انگریز ہے اور دنیا میںا گر کوئی ملک ہے تو انگلستان ہے، نہ وہاں گرمی پڑتی ہے، نہ لوگوں کے جسموں سے پسینے کی بو آتی ہے، تم کبھی انگلینڈ گئے ہو؟‘‘۔ ’’نہیں‘‘ عاشق نے غصے سے کہا۔ ’’کبھی جا کر دیکھو وہاں بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے، یہ قوم ترقی کیوں نہ کرے‘‘۔ پورٹر نے سامان ٹیکسی میں رکھا میں نے اسے دس کا نوٹ ٹپ کے طور پر دیا، اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور مودبانہ سلام کرکے رخصت ہوگیا۔

’’تم نے اپنے ملک کے نوٹ دیکھے ہیں کتنے بے رعبے قسم کے نوٹ ہیں۔ اب یہ اسٹرلنگ پائونڈ دیکھو ۔‘‘میں نے جیب میں سے بیس پائونڈ کا ایک نوٹ نکالا،’’ کتنا باوقار نوٹ ہے۔ اس پر ملکہ کی تصویر چھپی ہوئی ہے ۔ خدا ملکہ کی عمر دراز کرے۔‘‘ میں نے نوٹ کا بوسہ لیا اور پورے احترام کے ساتھ اسے واپس جیب میں ڈال لیا۔ ٹیکسی ایئرپورٹ کی حدود سے باہر نکل کر کینٹ کی طرف رواں ہوگئی۔ ’’بھئی کیا نام ہے تمہارا‘‘ میں نے ڈرائیور کو مخاطب کیا۔ جس نے سر پر سرسوں کا تیل چوپڑا ہوا تھا۔

’’نسیم سیٹی جناب‘‘۔’’کیسے بے ہودہ نام رکھتے ہو تم لوگ۔ عاشق گھنگرواں والا نسیم سیٹی۔ مثبت نام تو انگریزوں کے ہیں۔ ولیم، جون، چارلس۔ تم لوگ ترقی نہیں کرسکتے۔ خیر تم یہ ذرا اے سی چلا دو۔ ایک تو تمہارے ملک میں گرمی بہت ہے‘‘۔

’’اے سی تو میر ی کار میں نہیں ہے، آپ یہ گرم کوٹ اور پھر اس کے اوپر پہنا ہوا اوور کوٹ اتار دیں۔ یہ ٹائی ذر ا ڈھیلی کرلیں اور یہ جو آپ نے پاسنگ شو ٹائپ واسکٹ پہنا ہوا ہے اسے بھی اتار کر ذرا سر کو ہوا دیں کافی فرق پڑے گا‘‘۔ نسیم سیٹی کی اس بدتمیزی پر عاشق گھنگرواں والا کھلکھلا کر ہنس پڑا،’’ یہ لوگ کسی کو پروپر ڈریس میںنہیں دیکھ سکتے۔ تمہیں پتہ ہے کہ تم لوگ اس شلوار قمیض کی وجہ سے آج تک ترقی نہیں کرسکے۔‘‘

’’ترقی کرنی ہے تو ہمیں کپڑے اتارنے ہوں گے۔‘‘ نسیم سیٹی نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کیا۔’’ چلو تم یہی سمجھ لو ۔‘‘ میں نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا۔ مجھے یہ شخص زہر لگ رہا تھا۔’’ میں نے کوپن ہیگن، اوسلو، ہیمبرگ، کیلے اور برائن کے ساحلوں پر ہزاروں مردوزن کو ان کے فطری لباس میں دیکھا ہے۔ ترقی کرنے والی قومیں تم لوگوں کی طرح چھوئی موئی نہیں ہوتیں۔‘‘

’’میں نے بھی ان لوگوں کو اس عالم میں دیکھا ہے جناب‘‘ ۔ نسیم سیٹی نے پرسکون انداز میں کہا۔

’’تم نے کسی گائوں کے چھپڑ پر یہ منظر دیکھا ہوگا۔‘‘ میں نے اس پسماندہ شخص کو اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے کہا۔

’’نہیں جناب ! میں نے ان لوگوں کو ان کے ملکوں میں دیکھا ہے۔ آپ کتنا عرصہ وہاں رہے ہیں‘‘۔(جاری ہے)