معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
یوکرین پر حملہ۔ کیا تیسری عالمی جنگ برپا ہوگی؟
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1991میں یوکرین الگ ملک بن گیا۔ یوکرین کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا محل وقوع ہے۔ جب کوئی ملک دو بڑی طاقتوں یا دو تہذیبوں کے درمیان واقع ہو تو اس کی اسٹرٹیجک اہمیت مسلمہ ہوتی ہے لیکن یہ حیثیت غنیمت بھی ہوتی ہے اور مصیبت بھی۔
یوکرین کے ایک طرف روس اور اس کے زیر اثر بیلا روس کے ممالک ہیں اور دوسری طرف اس کی سرحدیں یورپی ممالک یعنی پولینڈ، مالدووا، رومانیہ، ہنگری اور سلواکیہ سے ملتی ہیں۔ اب ایک طرف ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے یوکرین کی زیادہ تر آبادی یورپ سے متاثر ہے اور آبادی کا ایک حصہ ماضی میں سوویت یونین کا حصہ ہونے کے ناطے روس سے متاثر ہے۔ اس کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی تین قسم کے رجحانات رکھتی ہیں۔
ایک وہ ہیں جو امریکہ اور یورپ نواز ہیں اور نیٹو اور یورپ سے خود کو جوڑنا چاہتی ہیں۔ دوسری بڑی پارٹی علاقائی اپروچ کی حامی ہے جبکہ تیسری جماعت روس نواز ہے اور روس سے جڑے رہنے پر زور دے رہی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور یورپ کے روس کے ساتھ تنازعات ختم ہو گئے۔ ایک تو خطے میں ان کی دلچسپی ختم ہو گئی اور دوسرا انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب روس دوبارہ ان کے لیے کبھی خطرہ نہیں بن سکتا لیکن نائن الیون اور افغانستان میں آنے کے بعد امریکہ کی زیر قیادت نیٹو کی ایک بار پھر خطے میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔
دوسری طرف چین مقابلے کے لیے ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھراہے۔ تیسری طرف پیوٹن کی قیادت میں روس ایک بار پھر مغرب کو آنکھیں دکھانے کے قابل ہو چکا ہے۔
اس تناظر میں نیٹو اور یورپ نے ایک بار پھر روس اور مغرب کے درمیان حائل یوکرین پر آنکھیں جما لی ہیں جب کہ دوسری طرف روس نے بھی پوری توجہ یوکرین پر مرکوز کر لی ہے اور روسی سرحد سے متصل علاقوں لوہانسک اور ڈونیٹسک جہاں روسی نسل کے آباد لوگ خودمختاری کے لیے جدوجہد کررہے تھے، کی مدد شروع کردی جبکہ دوسری طرف مرکزی حکومتوں اور عوام کی اکثریت کا رجحان چونکہ یورپ کی طرف تھا اس لیے انہوں نے مدد کے لیے امریکہ اور یورپ سے روابط بڑھا لیے لیکن تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب یوکرین میں بھی ایک عمران خان صدر بن گیا۔
میرا اشارہ وکٹر یانو کووچ کی طرف ہے جو 2010میں یوکرین کے صدر بنے۔ وہ ماضی میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کے رکن رہے ہیں اور روس نواز رہنما کے طور پر مشہور تھے۔ابتدا میں انہوں نے روس کے ساتھ معاہدہ کیا اور سمندر میں واقع کریمیا کا نیول بیس تیل کی قیمتوں میں رعایت کے بدلے روس کے حوالے کیا، جس کا مغرب نواز یوکرینینز نے برا منایا۔
دوسری طرف انہوں نے ولا دیمیر پیوٹن کی طرح آئین میں ترمیم کرکے اپنے صدارتی اختیارات میں بےتحاشہ اضافہ کیا لیکن پھر جب انہوں نے دیکھا کہ وہ عوام میں تیزی کے ساتھ غیرمقبول ہو رہے ہیں تو عمران خان کی طرح یوٹرن لے کر دوسری انتہا پر چلے گئےیعنی یورپی یونین ایسوسی ایشن میں شمولیت کے لیے کوششیں شروع کرکے یورپ سے الحاق کے خواہشمندوں کی ہمدردیاں حاصل کیں .
لیکن 2013کے آخر میں انہوں نے اچانک یوٹرن لیا اور یورپی یونین ایسوسی ایشن میں جانے سے انکار کردیا، جس کی وجہ سے عوام ان کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، 2014تک یہ احتجاج بغاوت کی صورت اختیار کر گیا جس کی وجہ سے ان کو حکومت چھوڑ کر روس بھاگنا پڑا لیکن نفرتیں جنم لے چکی تھیں، اس لیے روسی نسل کے یوکرینینز اور بالخصوص لوہانسک اور ڈونیٹسک اور کریمیا کے لوگوں نے پہلے مغرب نواز حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیا اور جب نئی یورپ نواز حکومتوں نے ان کو دبانے کی کوشش کی تو انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔
2014کے بعد پیٹرو پوشینکو یوکرین کے صدر بنے جن کا تعلق یورپین سولیڈیرٹی پارٹی سے تھا یوں وہ یورپ اور امریکہ کے قریب جانے کی کوششوں میں مگن رہے اور جواب میں روس نواز یوکرینی بغاوت کی طرف جا رہے تھے۔ 2019میں موجودہ صدر ولادیمیر زیلنسکی صدر بنے جن کا تعلق سرونٹ آف دی پیپلز پارٹی سے ہے اور وہ بھی یورپ نواز ہیں۔ ان دو صدور کے ادوار میں یوکرین کو اپنے اثر سے آزادی کی طرف گامزن اور مغرب کی طرف رواں دیکھ کر روس نے روس نواز یوکرینییز کی امداد بڑھا دی۔
دوسری طرف امریکہ اور نیٹو نے یوکرینی حکومت اور مغرب نوازوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اپنے فوجی، میزائل اور ائیر فورس یوکرین سے جڑے یورپی ممالک میں تعینات کرنی شروع کردی۔ روس ایک تو نیٹو کی کارروائیوں پر معترض تھا اور دوسری طرف یوکرینی حکومت سے کہتا رہا کہ وہ نیٹو اور یورپی یونین میں شمولیت کی کوششوں سے باز رہے۔ روس علاقے میں نیٹو کی موجودگی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا رہا لیکن مغربی ممالک صرف یوکرینی حکومت کا حوصلہ تو بڑھاتے رہے لیکن عملا کچھ نہیں کیا۔
مثلاً نہ تو اسے یورپی یونین کا ممبر بنایا اور نہ نیٹو کا۔ یورپی یونین کا ممبر اس لیے نہیں بنارہا کہ یورپی ممالک کو ڈر ہے کہ اس صورت میں بڑی تعداد میں یوکرینی ان کے ملکوں میں نقل مکانی کریں گے۔ اسی طرح نیٹو کا ممبر اس لیے نہیں بنارہا کہ ان کے خیال میں یوکرین کی کنٹری بیوشن بہت کم رہے گی لیکن وہ نیٹو کی ذمہ داری بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب روس نے حملہ کیا تو امریکہ اور یورپی ممالک نے شدید مذمت کی.
اقتصادی پابندیاں بڑھادیں لیکن عملاً یوکرین کی مدد کے لیے نہیں آئے اورمیرا اندازہ ہے کہ مستقبل میں بھی نہیں آئیں گےکہ اس صورت میں چین بھی روس کے ساتھ کھڑا ہوگا اور یوں تیسری عالمی جنگ کاآغاز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح یورپ کے بعض ممالک بالخصوص جرمنی وغیرہ بھی روس کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے کیونکہ ان کا زیادہ انحصار روس سے درآمد شدہ توانائی پر ہے۔ اس لیے مجھے تو لگتا ہے کہ روس یوکرین پر قبضہ کرکے وہاں اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرلے گا۔
یوکرین کے موجودہ صدر اشرف غنی کی طرح پھر امریکہ اور یورپ کی بے وفائی کا رونا روتے رہیں گے جبکہ مغرب صرف دھمکیاں دیتا، مشرقی یورپ میں اپنی فوجی موجودگی بڑھاتا اور اقتصادی پابندیوں پر انحصار کرتا رہے گا ۔ یوں یہ واضح ہے کہ ایک نئی سرد جنگ کا بھرپور آغاز تو ہو گیا ہے لیکن سردست تیسری عالمی جنگ کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔