گالیوں کو ترسا ہوا بابا!

میں نے بہت دِنوں سے کسی سے دکھ سکھ نہیں کیا تھا چنانچہ دل پر بہت بوجھ تھا سو میں نے بہت سے دوستوں کو فون ملایا مگر سب کے فون ہی بندملے۔ میں سمجھ گیا یہ سب کسی اور سے دکھ سکھ کر رہے ہیں بالآخر کافی دیر بعد ایک دوست کا نمبر مل ہی گیا، یہ اشرف تھا، میرے بچپن کا دوست! میں نے کہا، سنا بھئی اشرف، کیسی گزر رہی ہے؟ بولا جیسی تمہاری گزر رہی ہے۔ میں نے پوچھا، تمہیں کیسے پتہ ہے، میری کیسی گزر رہی ہے؟ بولا کیونکہ میں اور تم ہم عمر ہیں، اکٹھے کھیلتے رہے ہیں، اکٹھے جوان ہوئے ہیں، میں نے لقمہ دیا اور اب اکٹھے ادھیڑ عمر ہوئے ہیں۔ یہ سن کر وہ ہنسا اور پھر ہنستا ہی رہ گیا، جب اس کی ہنسی تھمی تو میں نے اس بےوجہ اور اتنی لمبی ہنسی کی وجہ پوچھی تو بولا ایک شخص جو قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہوا ہو، ادھیڑ عمری کا سرٹیفکیٹ اگر عطا ہو جائے تو وہ اپنی خوشی پر قابو کیسے پا سکتا ہے؟

اس کے بعد میں کافی دیر تک کچھ نہیں بولا، صرف اس کی سنتا رہا وہ کہہ رہا تھا، اگر تم نے میری ہنسی پر غور کیا ہے تو اس میں ایک بچے کے رونے اور ماضی کے ایک کڑیل جوان کے نوحے ہی سنائی دے رہے ہوں گے۔ لاٹھی ٹیکتا ہوا گھر سے نکلتا ہوں اور خود کو جوان ثابت کرنے اور اپنی زندگی سے مطمئن نظر آنے کے لیے اپنی باچھیں کھلی رکھتا ہوں، مگر قدم تو لڑکھڑانے ہی ہوتے ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو کوئی جوان آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے ’’بابا جی، چلیں میں آپ کو سڑک پار کرادیتا ہوں، مجھے اس نوجوان کی یہ کرٹیسی زہر لگتی ہے۔ میں اپنے دل میں زہر لفظوں کی صورت میں انڈیلتے ہوئے کہتا ہوں، میں ٹھیک ٹھاک ہوں، اپنی راہ لو اور ہاں میں یہاں سڑک پار کرنے کے لیے نہیں کھڑا ہوں، میرا ڈرائیور کار میں ساتھ ساتھ چل رہا ہے، میں واک کر رہا ہوں، جب ضرورت محسوس ہو گی کار میں بیٹھ کر اپنے آفس چلا جاؤں گا۔ ایسا کہتے ہوئے مجھے علم ہوتا ہے، میں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوں، راتوں کو نیند نہیں آتی، جوانی میں خوبصورت یادیں جگاتی تھیں، اب جوڑ جوڑ درد کرتا جگائے رکھتا ہے، دن اور رات کے اوقات میں باربار واش روم ایسے جاتا ہوں جیسے جوانی میں چمن کی سیر کو جایا کرتے تھے۔ لاحول و لا، مجھے ادھیڑ عمر کہنے والے دوست تجھے ایسا کہتے ہوئے ذرا شرم نہیں آئی!

میں اس کی ساری گفتگو کے دوران دل ہی دل میں اور اختتام پر کھل کر ہنسا اور کہا اے میرے ناشکرے دوست! میری کچھ باتوں کا جواب دو، جواب تو تم نے خیر کیا دینا ہے، صرف سن لو تم 50سال کی عمر تک کرائے کے مکان میں رہے، بسوں اور ویگنوں میں دھکے کھاتے رہے مگر میں جانتا ہوں، تم اس کے باوجود بہت خوش تھے، بچوں کو اسکول چھوڑنے جایا کرتے تھے، پھر وہ بڑے ہو گئے اور اعلیٰ مقام تک پہنچ گئے، تمہاری خوشی دیدنی تھی تم نے پہلے چھوٹا مکان بنایا اور اب ایک بڑے گھر میں رہتے ہو، تم نے کار بھی لے لی نوکر چاکر بھی تمہاری خدمت کے لیے موجود ہیں، تمہارے گھر میں تمہارے پوتے پوتیوں کی چہکار سنائی دیتی ہے، معاشرے میں تمہاری عزت ہے اور باقی رہی تمہاری بیماریاں جو اپنی جگہ حقیقت ہیں مگر تم نے نفسیاتی طور پر انہیں اپنے لیے حرزِ جاں بنا لیا ہے، کسی دن میرے ساتھ ان گھروں میں چلنا جہاں بھوک بال کھولے ناچ رہی ہے، جہاں بےشمار دکھ ہیں، جہاں ایسے کڑیل جوان بھی برس ہا برس سے اپنے بستر پر پڑے ہیں ہل جل ہی نہیں سکتے، اٹھ کر واش روم تک بھی نہیں جا سکتے۔ خود کھانا نہیں کھا سکتے بلکہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے، وہ مرنا چاہتے ہیں مگر مر بھی نہیں سکتے۔ ان خاندانوں کا ہر فرد اپنے سر پر دکھوں کی گٹھڑی اٹھائے ہوئے ہے مگر وہ پھر بھی جواں مردی سے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ تم اس عمر میں بھی ہٹے کٹے ہو، کھاتے پیتے ہو، مگر اِن ساری نعمتوں کے ہوتے ہوئے تم ہر وقت شکایت کرتے رہتے ہو، تمہیں شرم آنی چاہئے۔

میرے آخری جملے پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا اور بولا کمینے انسان، تم ٹھیک کہتے ہو مگر تمہارے ایسے بدتمیز دوست اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو چکے ہیں، تم بھی کہاں ملتے ہو اگر روزانہ میری طرف آئو اور دو چار گالیاں دے کر چلے جائو تو میں دوبارہ واپس زندگی کی طرف لوٹ جائوں گا۔ اور ہاں پرانے دوست بھی تو ایک ایک کرکے دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں، ایسے لگتا ہے جیسے وہ کبھی ہمارے درمیان موجود ہی نہیں تھے، یہ کہتے ہوئے وہ دوبارہ ایک دم مغموم ہو گیا اور اس نے یہ شعر پڑھا:

مصیبت اور لمبی زندگانی

بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

جس پر میں نے اسے مزید صلواتیں سنائیں، میری ہر بدتمیزی پر اس کے چہرے پر رونق سی آ جاتی تھی اور آخر میں جب وہ کھلکھلا کر ہنسا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا ’’اٹھو بزرگو، کہیں چل کر کافی پیتے ہیں‘‘۔