شیر دا بچہ !

رات کے ایک بجے جب میں گجرات سے لاہور آنے کے لئے ویگن (شیر دی بچی) پر سوار ہوا تو مجھے ڈرائیور کے برابر سیٹ ملی جو پنڈی سے آنے والے ایک مسافر نے ابھی ابھی خالی کی تھی ۔میرے ساتھ ایک پچیس چھبیس سالہ نوجوان جس کے چہرے پر باریک مونچھیں تھیں سیٹ کے ساتھ ٹیک لگائے اونگھ رہا تھا اس نے کانوں کے گرد مفلر لپیٹا ہوا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد کونوں کھدروں سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کے باعث وہ اپنی ٹانگیں سکیڑ لیتا تھا اور مفلر کو زیادہ مضبوطی سے کانوں کے گرد لپیٹنے لگتا تھا ۔میری پچھلی سیٹ پر ایک امریکی جوڑا براجمان تھا ۔نوجوان کے چہرے پر گھنی’’ بلانڈ‘‘ داڑھی تھی لیکن اس سائز کی داڑھی کے باوجود وہ کم سن لگتا تھا اس کی سفری گرل فرینڈ کم سن ہی نہیں خاصی ترو تازہ بھی تھی ،اسے غالباً زکام ہو رہا تھا کیونکہ اس کی ستواں ناک سرخ ہو رہی تھی ۔اس کے برابر میں تیسرا مسافر اپنا ہم وطن تھا اور اس میں ہم وطنوں کی خصوصیات کچھ زیادہ ہی نمایاں تھیں کیونکہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اونگھنے کے بہانے اپنا سرسوں کے تیل سے لتھڑا ہوا سر اس امریکی دوشیزہ کے کاندھوں پر رکھ دیتا ،جس پر وہ جھنجھلا کر اپنے بوائے فرینڈ کو دیکھنے لگتی۔

میں نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور ابھی سگریٹ سلگانے ہی کو تھا کہ پچھلی سیٹ پر سے امریکی نوجوان نے ’’ایکسکیوزمی ‘‘کہہ کر میرے کاندھوں پر ہاتھ رکھا، میں نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تو وہ سگریٹ کا طلب گار تھا کیونکہ اس کے بقول ڈرائیور نے راولپنڈی سے روانگی کے بعد ویگن کو کہیں بریک نہ لگائی تھی اور گجرات میں بھی اس نے ویگن وہاں کھڑی کی جہاں سگریٹوں کی کوئی دکان نہ تھی ۔میں نے ایک سگریٹ اسے پیش کرنے کے بعد پیکٹ میں سے جھانکتا ہوا ایک سگریٹ اس کی گرل فرینڈ کی طرف بھی بڑھایا مگر اس نے شکریے کے ساتھ یہ کہہ کر انکار میں سر ہلایا کہ وہ سگریٹ نہیں پیتی اس پر میں نے ایسے موقعوں کے لئے امریکہ میں سیکھے ہوئے ٹوٹکوں میں سے ایک بروئے کار لاتے ہوئے کہا ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تم چھوٹے موٹے گناہوں میں یقین نہیں رکھتیں‘‘ جس پر وہ کھلکھلا کر ہنس دی ’’ہم آج ہی کابل کے رستے پشاور پہنچے ہیں اور اب پنڈی سے لاہور جا رہے ہیں، ہم کتنے بجے تک لاہور پہنچ جائینگے‘‘ سنہری داڑھی والے امریکی نے غالباً گفتگو کا آغاز کرنے کیلئے پوچھا، میں نے جواب دیا ’’امید ہے شام تک ہم لاہور میں ہوں گے اور اس امر کا قوی امکان بھی موجود ہے کہ ہم کبھی لاہور نہیں پہنچ سکیں گے‘‘

میں نے ڈرائیور کی تیز رفتاری اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد سامنے سے ٹیڑھی گردنوں اور ایک آنکھ والے ٹرکوں (TRUCKS)کی آمدو رفتار مدنظر رکھتے ہوئے ہر دو امکانات پوری دیانت داری سے اس کےسامنے پیش کر دیئے ’’اوہ خدایا ‘‘ اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی ’’سنہری بلی ‘‘ نے سسکاری لی میں نے تو ابھی انڈیا میں جوگیوں سے ملاقات کرنا ہے مہارشی گورو وجے کے چرنوں کو چھونا ہے ۔جو آج کل وہیں ہیں، نیپال بھی جانا ہے تمہیں منہ سے ایسی بات نہیں نکالنا چاہئے تھی۔

’’میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں تم یہی سمجھو کہ ہم واقعی لاہور پہنچ جائیں گے ‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا لیکن یہ تو بتائو کہ اگر میں لاہور ہی میں تمہاری ملاقات بڑے بڑے مہارشیوں سے کروا دوں تو تم اپنا سفرِ بھارت ملتوی کر دوگی ؟

سچ مچ اس نے تحیرکے عالم میں آگے جھک کر پوچھا ۔

’’ہاں ہمارے ہاں بھی اس نوع کا ایک سے ایک ’’گرو‘‘ پڑا ہوا ہے لیکن حکومت ان کی روحانی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنتی ہے چنانچہ پچھلے دنوں حکومت نے اس نوع کے ایک بہت بڑے ’’گرو‘‘ المعروف ڈبہ پیر کو گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ۔

’’کریزی پیپل (CRAZY PEOPLE) دوشیزہ کے چہرے پر بیزاری کے آثار نمایاں ہوئے۔ چھوڑو اس ذکر کو تم یہ بتائو کہ تمہیں پاکستان کیسا لگا میں نے پوچھا ۔

’’یہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں ‘‘ امریکی نوجوان نے اس کی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہا ’’میں ایک بار پہلے بھی یہاں آ چکا ہوں چنانچہ اس دوران میں جہاں کہیں بھی گیا لوگوں نے خوش آمدید کہا ان سے صرف راستہ پوچھو تو وہ گھر تک چھوڑ کر آتے ہیں۔ مہمان نواز بھی بہت ہیں بس اتنا ہے کہ ہمیں وہ کچھ اتنے غور سے دیکھتے ہیں اور ہمارے گرد کچھ اس طرح جمع ہو جاتے ہیں گویا ہم کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں ،بڑے شہروں میں نسبتاً یہ کم ہوتا ہے لیکن چھوٹے شہروں میں تو ہماری کم بختی آ جاتی ہے۔ ویسے ہمیں اس مسئلے سے ایران، ترکی، افغانستان اور بھارت ہر جگہ دوچار ہونا پڑتا ہے کیا ہماری شکل بندروں سے ملتی جلتی ہے ‘‘

آخری فقرہ کہتے ہوئے اس نے قہقہہ لگایا جس پر میںنے اس کے کاندھے تھپتھپاتے ہوئے کہا ’’اس میں گھبرانےکی کوئی بات نہیں کیونکہ آبائو اجداد کے ساتھ اگر نقوش نہ ملتے ہوں تو لوگ اس سے زیادہ بری باتیں کرتے ہیں ‘‘۔

یہ سن کر سنہری داڑھی والے امریکی نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا جس میں اس کی ریشمی گرل فرینڈ کی مترنم ہنسی بھی شامل تھی ۔

کیا تم طالب علم ہو یا کہیں کام کر رہے ہو ،میں نے گفتگو کا یہ سلسلہ جاری رکھنے کےلئے امریکی نوجوان سے پوچھا ’’میرے پاس نفسیات میں ماسٹر کی ڈگری ہے اور میں….. ‘‘

’’تب تو مجھے تم سے ڈرنا چاہئے ‘‘ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔

’’تمہیں مجھ سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے میں تو خود سے خوفزدہ ہوں ‘‘ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا ۔

پیشتر اس کے کہ میں جواب میں کچھ کہتا اس کی گرل فرینڈ نے اپنی سیٹ سے قدرے اچھلتے ہوئے ہلکی سی چیخ ماری اور پھر قہر آلود نظروں سے میرے ہم وطن کو دیکھنے لگی جس کے چہرے پر اب قدرے گھبراہٹ کے آثار تھے مگر اس شیر کے بچے نے یوں آنکھیں بند کر لی تھیں جیسے وہ کچھ نہ جانتا ہو۔امریکی دوشیزہ اپنی سیٹ سے اٹھی اور اس نے اپنے بوائے فرینڈ کےساتھ سیٹ تبدیل کر لی ۔ویگن راوی کے پل پر سے گزر ہی تھی اور میری پیشانی پر پنجاب کے سارے دریائوں کا پانی عرق ِندامت کی صورت میں جمع ہو گیا تھا میں دو گھنٹے سے گردن موڑے ان سے باتیں کر رہا تھا ،مجھے یکا یک شدید تھکن کا احساس ہوا اور میں ان سے نظریں چرا کر اپنی سیٹ پر سیدھا بیٹھ گیا (چالیس سال پہلے کا ایک کالم)